زہرہ بی بی، ماہ جیٹھ کا میلہ اور بارات کا رواج
جنید احمد نور
حضرت سید سالار مسعود غازیؒ کی شہادت کو 1020سال گزر چکے ہیں اب تک مگر ان کی یادیں آج بھی مقامی اور بیرونی عوام پر روز اول کی طرح نقش ہیں۔ ان کی درگاہ جو شمالی ہندوستان کی سب سے قدیم اور بڑی درگاہ ہے جس کی تاریخ ایک ہزار سال قدیم ہے جہاں بلا تفریق مذہب و ملت، اہل اسلام کے ساتھ ساتھ برادران وطن بھی اپنے عقیدت کے نذرانے پیش کرنے آتے ہیں آج بھی گنگ وجمن تہذیب کا دلکش نمونہ اہل وطن کے سامنے پیش کرتی ہے۔ یہاں سال میں تین مرتبہ سالانہ میلوں کا اہتمام ہوتا جن کے نام اس طرح ہیں :۔ (1) سالانہ میلہ بسنت (2)سالانہ میلہ رجب(میلہ عرس) (3) سالانہ میلہ جیٹھ۔ میلہ بسنت میں جیٹھ میلہ کی تاریخ طے جاتی ہے اور یہ میلہ 5دنوں تک ہوتا ہے جبکہ رجبی میلہ آپ کی شہادت کی یادگار ہے اور یہ بھی5 دن تک ہوتا ہے ، جبکہ میلہ جیٹھ سالانہ ایک ماہ تک چلتا ہے اور یہ ایک ٹریڈ فئیر بھی ہوتا ہے۔ یہاں ہم سالانہ جیٹھ میلے کی تاریخ پر کتابوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں:۔
خواجہ اکبرؔ وارثی میرٹھی لکھتے ہیں:۔
سید جمال الدین و سید رکن الدین ولایت سے آکر رُدولی ضلع بارہ بنکی میں مقیم ہوئے ۔ ان کے ایک گیارہ سالہ لڑکی زہرہ نامی مادرزادنابینا حسینہ و جمیلہ تھی جب اس کو خبر ہوئی کہ اکثروں کی حاجتیں (بہرائچ درگاہ میں) پوری ہو جاتی ہیں اور نابینا بھی بینا ہو جاتے ہیں تو زہرہ بی بی نے نیت کر لی کہ اگر میری آنکھیں بینا ہو گئیں تو سوائے آستانہ کی جاروب کشی کے زندگی بھر دوسرا کام نہ کروں گی اور آپ کے والدسید جمال الدین یہ کیفیت سن کر بہت خوش ہوئے اور یہ نیت کر لی کہ اگر حضرت سید سالار مسعود غازیؒ کی برکت دعا سے میری لڑکی کی آنکھیں بینا ہو گئیں تو میں آپ کا روضہ تعمیر کرا دوں گا۔ الغرض آپ کے اوصاف سُن سُن کر زہرہ بی بی کے دل میں حضرت کا غائبانہ عشق پیدا ہو گیااور سوائےذکر محبوب کےکوئی بات اچھی نہ معلوم ہوتی تھی۔’’من احب شیً فاکثرہ ذکرۂ ‘‘ یعنی جس کو جو چیز پیاری ہوتی ہے وہ زیادہ اسی کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے ۔ حضرت کے نام نامی کی رٹ لگ گئی۔جامیؔ ؎
بساکیں دولت از گفتار خیزو
نہ تنہا عشق از دیدار خیزو
زہرہ بی بی کا عشق زلیخا کے عشق سے سبقت لے گیا۔زلیخا نے حضرت یوسف کو خواب میں دیکھا تھا اور زہرہ بی بی نے حضرت سلطان الشہد اء کا نام سنا تھا اور تعریف سنی اتنی شیدا ہوئیں کہ کھانے پینے سے دست بردار ہوگئیں ، دن کا چین رات کی نیند اُڑ گئی ۔رات دن مسعود مسعود کرتیں تھیں اور زار زار روتی تھیں ۔ ایک دن خواب میں حضرت سلطان الشہداء آ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ زہرہ جس شخص کی مشتاق ہے وہ اس وقت تیرے سامنے موجود ہے دیکھ لے ۔ زہرہ بی بی نے ہاتھ اٹھا کر مناجات کی کہ الہیٰ اگر مجھ کو سالار مسعود کا سچا عشق ہےتو میری آنکھ میں روشنی عنایت فرما تاکہ میں اپنے پیارے مسعود کا جمال پاک ان آنکھوں سے دیکھ لوںورنہ میری میری جان لے لے کہ دردِ فرقت سے نجات پاؤں ۔ چونکہ زہرہ بی بی کو عشقِ راسخ اور صادق تھا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھیں روشن فرما دیں۔بس سب سے پہلے نظر جس پر پڑی وہ جمال جہاں آرا حضرت سلطان الشہداءؒ کا تھا۔ بس دیکھتے ہی اُدھر دوڑی مگر حضرتؒ نظر سے غائب ہوگئے۔ زہرہ کےہوش و حواس جاتے رہے ، ہائے ہائے کرنے لگی،۔ ماں باپ اور تمام اقربا اس کی بینائی سے سب خوش ہوگئے مگر زہرہ کا سوزِ فراق اور ترقی کر گیا اور جب حد سے زیادہ بیقرار ہوئی تو پھر حضرت خواب میں دکھلائی دئے اور فرمایا کہ زہرہ اگر مجھے چاہتی ہے تو بہرائچ آجا۔ بس آنکھ کھلتے ہی والدین سے رخصت چاہی اور کہا کہ تم نے تعمیر روضہ کی نیت کی تھی اب اس میں دیر کرنا اچھا نہیں۔ سید رکن الدین نے ایک رکن الدین کے لڑکے زہرہ کے چچرے بھائی اور ایک زہرہ کے ماموں کو معہ زہرہ کے بہت سا روپیہ دے کر بہرائچ آستانہ پاک پر روانہ کیا۔ جب وہاں پہونچے تو زہرہ نے حضرتؒ کے قدموں پر رکھ سررکھ دیا اور قدم بوسی کی۔ حضرت ؒنے زہرہ کو علم باطنی تلقین فرمایا اور نور باطنی سے سینہ معمور کیا فرمایا۔ زہرہ نے پہلے روضہ حضرت سلطان الشہداءؒ کا تعمیر کرایا اس کے بعد حضرت سالار سیف الدینؒ کا اور پھر اکثر یا رومصاحبین اور تمام شہداء کا جو سورج کنڈ میں تھے گنج شہیداں کے نام سے تعمیر کرایا۔ اس کے بعد حضرت کے روضے سے ملحق غرب میں اپنے لئے روضہ بنوا کر وصیت کی کہ بعد انتقال مجھے اس میں دفن کرنا ۔
چنانچہ وہیں دفن ہوئیں اور زہرہ کے چچرے بھائی اور ماموں جو زہرہ کے ساتھ آئے تھے اور تعمیرات کی خدمت ان کے سپرد کی تھی وہ چند روز آستانہ ٔ پاک کی خدمت میں رہے اور انہیں بھی محبت الٰہی کی چاشنی نصیب ہوئی اور کاروبار دنیوی ترک کرکے ہاد الٰہی میں مصروف ہوئے اور زہرہ کے روضہ سے ملا ہوا اپنا روضہ بھی بنوایا اور بعد انتقال وہیں وفن ہوئے۔ زہرہ کا سن جب پورے اٹھارہ سال کا ہوا محبت الہٰی میں ۱۴؍ رجب اتوار کے دن کہ ہندی قاعدے سے جیٹھ کےمہینے کی پہلی تاریخ تھی مشاہدۂ انوار الہٰی میں جاں بحق ہوئیں ۔یہ ان کی سچی محبت کا کرشمہ ہے کہ سلطان الشہدا ؒسے بہت مدت کے بعد جس تاریخ اور جس دن جس مہینے میں حضرتؒ کی شہادت ہوئی تھی وہی تاریخ وہی دن اور وہی دن وہی مہینہ زہرہ بی بی کے وصال کا ہے۔ اور زہرہ بی بی نے چونکہ نہایت ذوق و شوق و محبت سے یہ روضہ تعمیر کرایا تھاوہ حضرت ؒکو ایسا مقبول ہوا کہ بعد میں اکثر امراءنے حضرت کی عالی شان کے موافق روضہ بنوانا چاہا ان کو باطن میں حضرت ؒنے منع فرما دیا کہ وہ نہ بنوا سکے۔ حضرت سید صاحب کے روضۂ انور کے اندر غربی دیوار میں جو ایک گہرا طاق سا بنا ہواہے وہ سکندر دیوانہ کا مزار ہے اور وہیں حضرت سید ابراہیم کا مزار ہے ا س سے غرب میں بی بی زہرہ کا روضہ ہے۔ یہ تینوں حضرت کے عاشقاین صادق اور محبانِ واثق اب تک زبانِ حال سے پکار پکار کہہ رہے ہیں کہ ؎
تم ہمارے سامنے ہو ہم تمہارے سامنے
آرزو یہ ہے کہ نکلے دم تمہارے سامنے
اور ان تینوں عاشقوں سے غرب میں اُن دونوں کاملین کا روضہ ہے جو زہرہ بی بی کے عزیز ہیں اور اپنی عمریں اور راحتیں سید صاحبؒ پر قربان کر چکے ہیں ۔زائرینکو چاہیئےکہ اور حضور میں سید صاحب ؒ کے حاضری دیں اور فاتحہ پڑھیں اور وہیں سکندر صاحب دیوانہؒ اور سید ابراہیم صاحب ؒہیں اور پھر بی بی زہرہ اور ان کے بعد ان کے دو نوں عزیزوں کو اور جملہ شہداء کو جو گنج شہیداں میں رونق افروز ہیں اور پھر اندر باہر جملہ ہمراہیان کو سلام اور فاتحہ سے نہ بھولا کریں۔
زہرہ کی وفات کے بعد ان کے والدین ان کا عرس کرنے رُدولی سے بہرائچ آتے تھےاور سالانہ اپنے عزیز و اقربا کو بھی ساتھ لاتے تھے ۔ ان کے دل میں بیٹی کی شادی کے حسرت و ارمان بھرے ہوئے تھے۔ا ن حسرت و ارمان کی وجہ سے غلبۂ عشق و محبت میں کہتے تھے کہ ہم شادی کار خیر زہرہ رچانے کے لئے بہرائچ آتے ہیں اور وہ زندہ رہے لڑکی کے غلبۂ عشق ومحبت میں بے اختیار ہو کر ایسا کرتےرہے بس وہ رسم پڑھ گئی وہی عشق و محبت کی رسم اب تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی اور صوفیاء کرامیہ کہتے ہیں کہ یہ شادی اُس خواب کی تعبیرہے جو حضرت سلطان الشہداء ؒنے زندگی میں قریب زمانۂ شہادت کے دیکھا تھا کہ والدین شادی کی خوشیاں منا رہے رہیں چونکہ یہ شہیدوں کو باطن ہمیشہ شادی و ذوق ہے اور باطن کا پرتو عالم ظاہر پر پڑتا ہےتو یہاں بھی وہی حالت ظاہر ہوجاتی ہے اور یہ عالم ظاہر پر تو اُس عالم باطن کا ہے تو جو کچھ عالم باطن میں ہو رہا ہے ،اُ س کا پر تو عالم ظاہر پر پڑ ر ہاہے۔ ہوالاول ہوالاخرہوالاظاہر ہو الباطن وہوبکل شیٍ علیم۔ اس کا حساب باریک بین نگاہیں کر سکتی ہیں، اور مبلغین علماء کا یہ خیال ہےکہ سید صاحبؒ مجسمۂ تبلیغ ہیں جب تک پیکر انسانی میں رونق افروز رہے اس وقت کی تبلیغ سے تو دنیا واقف ہے لیکن جس وقت سے حیات ابدی پائی ہے یعنی لباس روحانی میں جلوہ گر ہوئے ہیں اس وقت سے جو تبلیغ فرمائی ہے وہ ایسی باطنی تبلیغ ہے کہ وہ بجز عارفین کاملین کے دوسروں کی سمجھ بوجھ سے ارفع اور اعلیٰ ہے۔ناظرین کرام اس سے ہی اندازہ فرما سکتے ہیں کہ اس میلے(جیٹھ کے)میں فیصد ی آٹھ سات تو مسلمان ہوتے ہیں اور باقی دیگر اقوام و مذہب کے اصحاب ہوتے ہیں اور پھر بلا امتیاز ومذہب طرح طرح کی کرامتوں کی بارش کا ہونا اندھے اور کوڑھی اور طرح طرح کے مریضوں کا شفایاب ہونا جس سے ہر مذہب والے بے شمار فوائد اٹھاتے ہیں۔ (انوار مسعودی ،1937ء،ص 86-89)
مولانا محمد فاروق نقشبندی مجددی مظہری نعیمی بہرائچیؒ میلہ کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
میلہ میں تمام رسول شادی برتے جاتے تھے۔زمانہ کی ترقی نے کچھ اصلاح کی مگر پھر بھی بہت کچھ باقی رہ گئے ہیں اگر کمیٹی کو توجہ ہوئی تو وہ بھی عنقریب جاتے رہینگے ۔بسنت (میلے) کے دن دور دور کے لوگ آکر جمع ہوتے ہیں برہمن آکرمنگنی کی رسم ادا کرتا ہے جس کی خوشی میں شیرینی تقسیم ہوتے ہے ۔ بیساکھ کی شروع جمعرات سے جیٹھ کے پہلے اتوار (میلہ کی تاریخ) تک جتنے دن ہوتے ہیں اتنی ہی گرہیں کسم کے رنگی ہوئے کچے تاگےمیں برہمن دیتا ہے او ر اس تاگے میں ہلدی وغیرہ بھی باندھ دی جاتی ہے اور یہ گرہیں ایک ایک کرکے میلہ تک ہر روز کھولی جاتی ہیں اور اس درمیان مزار پر کسمیٔ رنگ کی چادر پڑی رہتی ہے۔ ماہ جیٹھ کی پہلی جمعرات کو ہندوستان کے اطراف و جوانب کے ہزاروں اشخاص بڑی بڑی جھنڈی (نشان)جو بے نقرئی و طلائی پلنگ پیڑھی سرخ چادرین پڑی ہوئیں ، جہیز میں قیمتی و معمولی چادریں، جانور شادی کے تمام لوازمات لاکر چڑھاتے ہیں اور یہ سلسلہ جیٹھ کے پہلے دو شنبہ تک شدت اور پورے مہینہ جیٹھ ہر اتوار کو جاری رہتا ہے ۔(سوانح حضرت سید حضرت سالار مسعود غازیؒ، 1914ء، ص 24-25)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔