زارا قدیر ہم شرمندہ، ہم انسان نہیں درندہ ہیں

زارا قدیر ہم شرمندہ، ہم انسان نہیں درندہ ہیں

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
[email protected]

اخباری اطلاعات کے مطابق "‏ڈسکہ کے نواحی گاؤں میں سسرال والوں نے سات ماہ کی حاملہ بہو کو قتل کر کے اس کے جسم کے ٹکرے ٹکرے کر کے دو بوریوں میں بند کر کے اسکی لاش نہر میں پھینک دی۔ سر دھڑ سے الگ کر کے اس کو چولہے پر اس وقت تک جلایا جب تک اسکے نقوش گوشت کی بوٹی نہیں بن گئے۔ اس کے بعد سر کو الگ مقام پر پھینک دیا تاکہ ملے تو بھی شناخت نہ ہو سکے۔ اور یہ سب لڑکی کی سگی خالہ (ساس) نے اور دو سگی خالہ زاد بہنوں (نندوں) نے کیا۔ تینوں ماں بیٹیوں نے لاہور سے جراحی کی خدمات لے کر یہ ظلم کیا۔بعد میں جھوٹا الزام لگا دیا کہ آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ بے چاری زارا قدیر کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ خوبصورت تھی اور اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی جو بیرون ملک مقیم تھا”۔


یہ سانحہ جو ڈسکہ کے نواحی گاؤں میں پیش آیا، انسانیت کے زوال اور معاشرتی بے حسی کی ایک بھیانک مثال ہے۔ زارا قدیر کے ساتھ جو مظالم ڈھائے گئے، وہ نہ صرف پاکستانی معاشرے بلکہ عالمی انسانی حقوق کے شعور پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ یہ واقعہ ہماری سماجی اقدار، خواتین کے تحفظ، اور قانون کے نفاذ میں پائے جانے والے نقائص کو بے نقاب کرتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہیز کے تنازعات، خاندانی جھگڑے، اور شوہری رشتوں میں عدم تحفظ کی بنا پر خواتین کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایسی کہانیاں اکثر سماج کے ان پوشیدہ اندھیروں کو اجاگر کرتی ہیں جہاں عورت کو محض ایک ملکیتی شے سمجھا جاتا ہے۔
زارا قدیر کے قتل جیسے واقعات کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک اجتماعی ناکامی کا مظہر ہیں۔ ہماری ثقافتی روایات میں خواتین کو احترام کا مقام دینے کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر یہ تعلیمات اکثر نظر انداز کی جاتی ہیں۔
زارا قدیر کا جرم محض اس کی خوبصورتی اور اپنے شوہر کی محبت کے علاوه کچھ نہ تھا، جس نے اس کے سسرالی رشتے داروں کے دلوں میں حسد اور نفرت کا بیج بو دیا۔ یہ واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سماج میں خواتین کو اپنی خوبیوں کے باعث بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس جرم کی نوعیت اور سنگینی ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے جہاں رشتوں کی حرمت کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی مفادات اور جذباتی کمزوریوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ زارا قدیر کی خالہ (ساس) اور کزنز (نندیں) نے جس بے رحمی سے یہ جرم کیا، وہ نہ صرف انسانیت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ ہماری قانونی اور اخلاقی اقدار پر ایک کھلا چیلنج بھی ہے۔

زارا قدیر ہم شرمندہ، ہم انسان نہیں درندہ ہیں


اس واقعے میں جہاں ایک خاندان کی سفاکی نمایاں ہوئی، وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان بن گئی۔ زارا کے والدین نے اپنی بیٹی کی خبرگیری میں غفلت برتی، جس کا نتیجہ ایک دل دہلا دینے والے سانحے کی صورت میں نکلا۔ سماجی سطح پر یہ رویہ عام ہو چکا ہے کہ لڑکی کی شادی کے بعد اس کے مسائل کو ذاتی یا خاندانی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
ایسے واقعات سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز عمل کیا جائے:
حکومتی سطح پر خواتین کے تحفظ کے قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر علاقے میں ہیلپ لائنز اور فوری ایکشن یونٹس تشکیل دیے جائیں تاکہ خواتین کو فوری مدد مل سکے۔
میڈیا اور تعلیمی اداروں کو خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی مہمات چلانی چاہئیں۔
والدین کو اپنی بیٹیوں کی شادی کے بعد بھی ان کی زندگی کے معاملات پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
سسرالی رشتوں میں پائے جانے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے خاندانی مشاورت اور تربیت کا نظام متعارف کرایا جائے۔
ایسے مظالم میں ملوث افراد کو جلد از جلد گرفتار کر کے مثالی سزا دی جانی چاہیے تاکہ معاشرے میں قانون کا خوف پیدا ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ زارا قدیر کا سانحہ نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی بے حسی کا مظہر ہے۔ یہ واقعہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی اخلاقی، قانونی، اور سماجی ذمہ داریوں پر غور کریں۔ اگر ہم نے اس واقعے سے سبق نہ لیا تو مزید کئی زارا قدیر جیسی معصوم زندگیاں ان درندوں کی بھینٹ چڑھ سکتی ہیں۔


خدارا، اپنی بیٹیوں کو رشتوں کے جنگل میں اکیلا نہ چھوڑیں۔ ان کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔ زارا قدیر ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل ابھی تک زندہ ہیں ہم انسان نہیں درندہ ہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں