ضمیر کی عدالت کا مجدد

ضمیر کی عدالت کا مجدد

Dubai Naama

ضمیر کی عدالت کا مجدد

یہ تب کی بات ہے جب راقم الحروف نوے کی دہائی میں لندن کے اردو ہفت روزہ "پاکستان” اور معاصر کثیر اشاعتی روزنامہ "جنگ” لندن ایڈیشن میں مضامین لکھتا تھا۔ میرا ہفتہ بھر میں صرف ایک کالم شائع ہوتا تھا۔ لیکن وہ کالم خصوصی رنگین صفحہ کی اشاعت پر چھپتا تھا۔ لکھنے کا نیا نیا شوق تھا اور بے بہا خوشی ہوتی تھی۔ ان دنوں شاعری کا بھی بہت شوق تھا۔ میری اردو شاعری کی ایک کتاب "نیلے چاند کا عکس” سنہ 2001ء میں فیصل آباد سے انجم سلیمی صاحب کے ادارے "سرائے خیال” نے شائع کی۔ اسی سال میری انگریزی زبان میں فلسفیانہ اور موٹیویشنل مضامین کی ایک کتاب "منفی قوت کا استعمال” ( Use of Negative Force) بھی لندن سے شائع ہوئی۔ شاعری کی کتاب پر قلمی نام یوسف چاند تھا اور انگریزی زبان میں کتاب ایم یوسف بھٹی کے نام سے چھپی۔ ان دونوں کتب کی افتتاحی تقریب ہاوس آف پارلیمنٹ لندن میں ہوئی جس کی صدارت اس وقت کے برٹش ممبر آف پارلیمنٹ چوہدری سرور نے کی جو ماضی قریب میں دو بار پی ٹی آئی اور نون لیگ کی طرف سے گورنر پنجاب بھی رہے ہیں۔ اس تقریب کی مہمان خصوصی ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ تھیں جو اس وقت برطانیہ میں پاکستان کی سفیر تعینات تھیں۔ اس تقریب میں منصور آفاق نے میری اردو شاعری کی کتاب پر "روشنی ہی روشنی” کے عنوان سے کالم لکھا تھا جو اسی معاصر اخبار کے کلر ایڈیشن میں چھپا تھا۔ ان دنوں ایم پی چوہدری محمد سرور صاحب برطانوی سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار اخبار میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ چونکہ چوہدری صاحب بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہیں تو اس تعلق کی وجہ سے جب میری کتب کی رونمائی برطانوی پارلیمنٹ میں ہوئی تو برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں میری اچھی خاصی پہچان بن گئی۔

جب میرے کالم اخبار میں بھی چھپنے لگے تو سونے پر سہاگہ اس تقریب کی وجہ سے برطانیہ میں مقیم اردو سپیکنگ طبقہ میں مجھے مزید پذیرائی ملی۔ اردو مشاعروں اور ادبی تقریبات کی تقریبا ہر محفل میں مجھے مدعو کیا جاتا تھا۔ مجھے شروع دن سے ہی سائنس اور مذہب پر مدلل اور تحقیقی مضامین لکھنے کا شوق تھا۔ میرے زیادہ تر مضامین کا موضوع اسلام اور عقائد کو سائنسی زبان میں بیان کرنا ہوتا تھا۔ اس پس منظر میں ایڈیٹر کے خطوط میں مجھ پر اکثر و بیشتر "سائنسی فرقہ” کا بانی ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔

میرے بارے اسی طرح کی ایک پیش گوئی 80 کی دہائی میں لاہور سے روزنامہ "خبریں” کے ایک بزرگ ایڈیٹر نے بھی کی تھی جب انہوں نے میرا طویل انٹرویو کیا اور میرے مذہبی اور سائنسی نظریات کو سن کر کہا کہ "آپ ایک اسلامی مجدد ہیں اور جلد یا بدیر ایک روز آپ اس کا دعوی بھی کریں گے” انہوں نے مجھ سے بہت سے اور سوالات بھی کیئے تھے اور پوچھا تھا کہ، "آپ کے اندر یہ سوچ کب پیدا ہوئی، آپ غوروفکر کو کتنا وقت دیتے ہیں، آپ کو نیند میں کس قسم کے خواب آتے ہیں اور کیا پہلے آپ نے مذہب اور انسانیت کا احیاء کرنے کے لیئے کسی قسم کے غیرمعمولی نظریہ کا اعلان کیا ہے؟”، وغیرہ وغیرہ۔ الحمدللہ میں مسلمان ہوں۔ لیکن میں گنہگار ہوں اور صوم و صلاتہ کی مکمل پابندی بھی نہیں کر پاتا ہوں۔ لھذا "مجدد” ہونے جیسا بار اٹھانا میرے جیسے کم علم اور دینی و مذہبی طور پر کمزور کندھوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔

اسلام میں یوں بھی مجدد الف ثانی جیسی عظیم المرتبت ہستی کے بعد اب میرے جیسے کسی فرضی مجدد کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ البتہ علامہ اقبال کے "مذہبی خیال کی تشکیل نو” (The Reconstruction of Religious Thought) کی طرز پر اسلامی تعلیمات اور عقائد کو جدید سائنسی علوم کی روشنی میں پیش کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ تاہم کم از کم میں اسلام کو تقسیم کرنے یا اس قسم کے ایک اور اعزازی یا پھر نام نہاد فرقے کا اضافہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہوں۔ اس طرح کے ہیلے بہانوں اور ناٹک سے مذہب زدہ عوام کو اپنے پیچھے تو لگایا جا سکتا ہے اور خانقاہی قسم کے ڈھیر سارے شاگرد اور مرید بنا کر منافع بخش مذہبی کاروبار بھی شروع کیا جا سکتا ہے مگر ضمیر کی عدالت میں پیش ہونے اور اس کا بوجھ اٹھانے کی اب زیادہ ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔

اسی اور نوے کی دہائی میں یا انہی پس و پیش کے دنوں میں میرے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ یہ پیش آیا کہ جس نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں انگریزی اخبارات سے ترجمہ کرتا تھا یا دیگر سائنسی مضامین سے نوٹس لے کر انہیں وسیع کر کے اپنے مضمون کا کبھی کبھار متن تیار کر لیا کرتا تھا مگر ایک دن غلطی سے یہ لیئے گئے نوٹس ہی میں نے چھپنے کے لیئے بھیج دیئے اور جو چھپ بھی گئے۔ وہ دن اور آج کا دن میں اپنے ضمیر کے سامنے بہت شرمندگی محسوس کرتا رہا ہوں، تاآنکہ میں نے یہ اظہاریہ لکھ کر خود سے معذرت کی ہے اور اپنے ضمیر کا کچھ ذہنی اور روحانی بوجھ ہلکا کیا ہے۔ ایمانداری کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے۔ آئندہ کبھی مجدد کا دعوی کر کے یا کہلانے سے جو رتبہ و مقام مجھے مل سکتا ہے، زہے نصیب، اس اسلامی فریضہ کا بیڑا کوئی دوسرا عالم فاضل اٹھا سکتا ہے۔مظلہ و رحمتہ اللہ علیہ ڈاکٹر طاہر قادری صاحب، محترم المقام مولانا طارق جمیل صاحب جیسی یا دیگر جلیل القدر ایسی مذہبی ہستیاں موجود ہیں مگر میں اتنی بڑی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوں۔

آج مسلمان ایسے دورایے پر کھڑے ہیں کہ جن کو اسلام اور مسلمانوں کے احیاء کے لیئے واقعی مجدد الف ثانی جیسی ایک اور مجدد ہستی کی ضرورت ہے مگر ایسا اسلامی عالم اور حقیقی مفکر جو قابل گوہر مجدد بھی ہو اور اسلامی تعلیمات کی جدید زبان میں تشریح بھی کر سکے، دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ اس قحط الرجال کی ایک وجہ یہی ضمیر کی عدالت ہے جو اسلام اور امہ جیسے عظیم ترین فریضے کو نبھانے کے لیئے اتنا آسان کام نہیں ہے۔

ضمیر کی عدالت سے بڑی عدالت دنیا میں آج تک نہیں بنی ہے۔ اس کا بوجھ یا ایک جھوٹا دعوے دار اٹھا سکتا ہے یا وہ بطل جلیل اٹھاتا ہے جسے واقعی خود اللہ تعالٰی کی ذات نازل فرماتی ہے۔ علامہ محمد اقبال نے سچ ہی تو فرمایا تھا کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے،
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

تَذليل نہیں، حُسنِ سُلوک 

منگل فروری 4 , 2025
ہندوستان میں جب انگريز حکومت کر رہے تھے تو وہاں دفعہ 144 کا ایک ایسا قانون متعارف کروایا تھا کہ جو پاکستان میں اب تک لاگو ہے
تَذليل نہیں، حُسنِ سُلوک 

مزید دلچسپ تحریریں