نوجوان نسل اور بے حیائی
حیا کا لفظ حیات سے نکلا ہے حیات القلوب یعنی دل کی زندگی انسان فطرتا باحیا ہے لیکن گھر کا ماحول والدین کی تربیت اور معاشرے کا رہن سہن اس پر اثر انداز ہوتا ہے لکھنے پڑھنے اور سننے میں حیا ایک بہت چھوٹا سا لفظ ہے لیکن یہ ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کر دیتی ہے اور حصول تقوی کا ذریعہ ہے حیا کا لفظ جب بھی ذہن میں آتا ہے تو عورت کا تصور پہلے آتا ہے بلا شبہ حیا عورت کا زیور ہے لیکن مرد کے اندر بھی اس صفت کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک عورت کے لیے جیسے کہ سورہ نور میں جہاں عورت کو پردے کا حکم دیا گیا وہیں مرد کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا لہذا مرد و زن دونوں کا باحیا ہونا کسی بھی بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے بہت ضروری ہے
اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار میں شرم و حیا نہ رہے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وَقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے دائرے میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اِس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں ۔ اور حیاء ( شرم ) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے تو ایمان کی اس شاخ کو اگر آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھنے کے لیے اپنی نوجوان نسل کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ بات نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے نوجوان نسل میں حیا کا عنصر ناپید ہوتا جا رہا ہے آج بے حیائی کو boldness کا نام دے کے glamorize کر دیا گیا ہے جو جتنا بے حیا ہوگا وہ اتنا ہی مقبول ہے ہ اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور ہر طرح کے غلیظ مواد تک باآسانی رسائی ہے
جہاں ٹیکنالوجی کے آنے سے انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں وہیں اس ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کی وجہ سے بے راہ روی اور اخلاقی تباہی کا جو طوفان اٹھا ہے وہ تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے مختلف ایپلیکیشن کے استعمال نے نوجوانوں کو خبطی بنا دیا ہے ان کا مقصد صرف فالورز لائکس اور پیسہ کمانا ہے چاہے اس کے لیے اخلاق سے گری حرکتیں کرنی پڑے یا حیا سے عاری کنٹینٹ بنانا پڑے یہ سب کوئی بڑی بات نہیں ہے ٹک ٹاکر لڑکے لڑکیاں ویڈیوز بنانے کے لیے جوڑے کی حیثیت سے رہتے ہیں آج جو عورت جتنا مختصر لباس پہنے گی وہ اتنی ہی ماڈرن اور لبرل خیال کی جاتی ہے جب کے . با پردہ عورت اور سنت سے مزین چہرے والے مرد کو دقیانوسی کہا جاتا ہے عورت جب اپنے مقام سے گرتی ہے تو پھر کبھی نور مقدم کی طرح اک نا محرم کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہے اور کبھی منار پاکستان پر مردوں کو دعوت گناہ دیتے ہوئے بے ہوش ہوتی ہے ہمارا المیہ یہ ہے ہم اپنی اقتدار روایات اور اپنی پہچان سے ناواقف ہیں ہندوانہ اور مغربی تہذیب کے اثرات ہماری زندگی کے ہر پہلو سے عیاں ہیں ہماری شادی بیاہ کی رسومات ہوں لباس ہو یا ہمارا نظام تعلیم ہر جگہ اپ کو اغیار کی چھاپ نظر آئے گی ہر جگہ سے حیا کا جنازہ نکلتا ہوا نظر آئے گا اس چکر میں ہمارا حال آج دھوبی کے اس کتے کی طرح ہے جو گھر کا رہا نہ گھاٹ کا یہ تمام باتیں لکھتے ہوئے دل کے اندر ایک کرب کی کیفیت ہے کیونکہ آج ہماری نوجوان نسل جس اخلاقی پستی کا شکار ہے آنے والے وقت میں مزید پستی کی گہرائیوں میں جائے گی کیونکہ ہم نے گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیا اس بے حیائی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کو روکنے کے لیے ہم کوئی اقدامات نہیں کر رہے اس بے حیائی کے طوفان کے لیے ہم صرف ٹیکنالوجی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ اسی معاشرے میں باحیا باکردار اور باپردہ عورتیں بھی موجود ہیں اور نگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد بھی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ والدین استازہ اکرام ہمارے تعلیمی ادارے ہمارا نصاب تعلیم اور نہایت معذرت کے ساتھ ہمارے معاشرے کا وہ دین دار طبقہ جنہوں نے امر بالمعروف اور نہی المنکر کا کام چھوڑ دیا وہ بھی اس جرم میں شریک ہے ہمارے تعلیمی ادارے اور ہمارا نظام تعلیم ہر لحاظ سے اخلاقی تربیت اور کردار کی تعمیر کے لحاظ سے ناکام ہے والدین اور تعلیمی اداروں دونوں کا مقصد ایک ہی ہے بچے کو اچھے روزگار کے حصول کے قابل بنانا بچے کو ایک اچھا انسان بنانا ایک اچھا مسلمان بنانا اور امت مسلمہ کو ایک اچھا فرد دینا دونوں کی ترجیح نہیں ہے اگر ہمیں اپنی نسلوں کو بچانا ہے تو ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا اور اس کا صرف ایک ہی حل ہے اپنی زندگی کو اپنے رب کی امانت سمجھتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق ڈھالنا شروع کریں اپنے دلوں کو قرآن کے نور سے منور کریں شیطان کے راستے کا انکار کر کے رحمان کے راستے کے مسافر بن جائیں اس کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
کیونکہ حیا نسل انسانی کی بقا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے اور جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو اگر اپنی نسلوں کی حفاظت کرنی ہے اور تنزلی کے اس سفر کو چھوڑ کے کردار و اخلاق کی بلندی تک جانا ہے تو اپنے طرز زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہوگا اسی میں ہماری عافیت اور کامیابی ہے
Title Image by Shima Abedinzade from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔