یاد حبیب باعث جذب و اثر بھی ہے
حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی
یاد حبیب باعث جذب و اثر بھی ہے
وجہ قرارِ دل بھی سکون نظر بھی ہے
آواز دے رہی ہے ہر اک شئے جہاں کی
جلوہ ہے بے نقاب کوئی دیدہ ور بھی ہے
اے آرزوئے دید تو اتنا بتا مجھے
دل کو ترے قرار قرارِ نظر بھی ہے
جور و ستم کی مشق کریں آپ شوق سے
دل کو ہدف بنایئے حاضر جگر بھی ہے
راز آشنائے راز محبت پہ ہے عیاں
یہ عشق دل نواز بھی ہے پر خطر بھی ہے
پروانے جل کے خاک ہوئے شمع نے کہا
افسانہ حیات ترا مختصر بھی ہے
آخر کو رنگ لا کے رہا نالۂ رسا
جو حال ہے اِدھر وہی حالت اُدھر بھی ہے
رک جائے آنکھ میں تو لگادے جگر تک آگ
پوشیدہ آنسؤں میں ہمارے شرر بھی ہے
اچھا ہے ظلم و جور کا ہو جائے فیصلہ
محشر کا دن ہے اور وہ بیداد گر بھی ہے
مشق خیال دوست کا حامل ہے یہ شفیعؔ
آئینۂ خیال میں آئینہ گر بھی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔