ادیبہ اور مصنفہ محترمہ عطیہ عمر صاحبہ
تحریر طارق محمود ملک
تلہ گنگ تاریخی ، تہزیبی اور ثقافتی نقط نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی لحاظ سے بھی اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ محترمہ عطیہ عمر صاحبہ کا تعلق بھی اس مردم خیز خطہ سے ہے ۔ وہ تلہ گنگ میں ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد محترم ملک الطاف الرحمٰن اور ان کے تایا جان ملک فضل الرحمٰن کا شمار تلہ گنگ کی معروف معزز کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے ۔ عطیہ عمر نے پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول تلہ گنگ سے حاصل کی ۔ سکول میں انہیں محترمہ کنیر صاحبہ ، محترمہ زاہدہ صاحبہ اور محترمہ نرجس سلیم صاحبہ جیسی قابل اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا ۔ ان دنوں سکول کی ہیڈ مسٹریس باوقار اور فرض شناس شخصیت محترمہ بیگم خورشید اسلم صاحبہ تھیں ۔ عطیہ عمر نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ گرلز ہائی سکول تلہ گنگ سے پاس کیا۔ یہاں بھی محترمہ مسز طاہر ملک صاحبہ ، محترمہ خورشید الطاف صاحبہ اور محترمہ نذیر فاطمہ صاحبہ جیسے قابل اساتذہ کا دست شفقت رہا ۔ مزید تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج فارویمن لاہور میں داخلہ لیا ۔
1987 ء میں بی اے کے فوراً بعد ان کی شادی کردی گئی ۔ عطیہ رحمان سے عطیہ عمر بن کر کراچی شفٹ ہوگئیں ۔ ان کے سسر حافظ عزیز الرحمن تحریک ختم نبوت کے سرگرم رکن تھے رشتے میں وہ ان کے والد کے چچا تھے ۔ عطیہ عمر تلہ گنگ کے ممتاز معلم ، ادیب ، نثر نگار اور شاعر جناب فضل حسین تبسم ( ٹمن ) مرحوم کی نواسی ہیں ۔ لکھنے پڑھنے کا رجہان انہیں ورثہ میں میسر آیا ۔ گھر میں اردو ڈائجسٹ ، ستارہ ، حکایت ، قومی ڈائجسٹ ، زندگی ، چٹان ، عصمت ، نونہال اور بچوں کی دنیا وغیرہ منگوائے جاتے تھے ۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کی ابتدا کی ۔ عطیہ عمر کی پہلی کتاب ,, بس ایک دعا,, 2006 ء میں المجاہد پبلیشر نے شائع کی ۔ کتاب خواتین کے مختلف ماہناموں میں ان کی شائع ہونے والی کچھ تحریریں اور ناولٹس پر مشتمل ہے ۔ عطیہ عمر کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں
( اقتباس ) میرے بچپن میں کمپیوٹر اور ٹی وی نے والدین اور اساتذہ کے فرائض نہیں سنبھالے تھے اور کتاب نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں کے ہاتھوں میں بھی دکھائی دیتی تھی اور بچے اپنی ماؤں ، نانیوں اور دادیوں سے کہانی سننے کے منتظر اور شائق رہتے تھے ۔ چناچہ نانا جان جب بھی ہمارے ہاں آ تے یا ہم ان کے پاس ,,ٹمن,, جاتے میں ان سے خاص طور پر کہانی سننے کی فرمائش کرتی تھی اور وہ ہمیں مثنوی مولانا روم یا گلستان بوستان کی حکایت آسان انداز میں سنایا کرتے۔ بچپن میں ہی اپنی دانست میں کہانی لکھے کا آغاز کر دیا تھا میں پرندوں اور جنوں بھوتوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ایک کاپی میں لکھا کرتی تھی ، پھر کچھ بڑی ہوئی تو بچوں کے کرداروں پر مشتمل اخلاقی کہانیاں لکھیں ، جو یقیناً نانا جان سے سنی ہوئی کہانیوں کی بازگشت تھیں ۔کچھ کہانیاں سبزیوں ، پھلوں اور پھولوں وغیرہ کے کرداروں پر تھیں اور کچھ بے جان اشیاء مثلاً کھمبا ، قلم ، گھڑی وغیرہ کی۔۔۔۔ مگر اشاعت کی غرض سے کہیں نہیں بھیجیں ۔ پہلی بار ,, نوائے وقت ,, راولپنڈی میں ایک مضمون بھیجا جو خواتین ایڈیشن میں شائع ہوا پھر اس کے بعد کئ ایک مضامین نوائے وقت کے خواتین طلبا اور بچوں کے صفحات پر شائع ہوئے ۔ تب میں کالج کی طالبہ تھی ۔ انہی دنوں کچھ افسانے اور ناولٹ وغیرہ لکھے جو اشاعت کی غرض سے کہیں نہیں بھیجے بعد میں ڈائجسٹ میں میرے افسانے شائع ہونے لگے تو ان افسانوں وغیرہ کو جزوی ترمیم و اضافے کے بعد اور کچھ کو اسی طرح اشاعت کی غرض سے بھیج دیا ۔ ,,چراغ آخری شب ,, ، اور ,, بیت العنکبوت ,, تب ہی لکھا تھا ۔ جب میرا پہلا مضمون شائع ہوا تو میں بہت خوش تھی گھر میں پہلے سے کسی کو نہیں بتایا ہوا تھا کہ اگر شائع نہ ہو سکا تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ جب وہ مضمون جو خواتین کے لئے حجاب کی اہمیت اور پردے کی اہمیت کے سلسلے میں تھا ، شائع ہوا اور نانا جان مرحوم کی نظروں سے گزرا تو انہوں نے مجھے خط لکھا کہ تمہارے بتائے بغیر میں جان گیا تھا کہ مضمون نگار میری بیٹی ہے ۔ تمہاری یہ کوشش اچھی ہے ۔ ایک بات یاد رکھنا کہ صرف ،،نام ،، شائع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ،، نام ،، کام کے ساتھ آنا چائیے، پھر مضمون میں زبان اور املا کی ایک دو غلطیوں کی نشاندہی کی تھی ۔ والد صاحب مرحوم نے خط پڑھ کر فرمایا تھا ، بچے پہلی اور آخری بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے ، ہمارا نام اور کام بھی اسی امر کا مظہر ہونا چاہئے کہ ہم مسلمان ہیں ۔
عطیہ عمر مزید لکھتی ہیں خانگی معاملات میں مذہب کس طرہ ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہم کتنے لا علم ہیں میں نے اپنی تحریروں سے یہ موضوع اجاگر کرنے کا سوچا 1990ء میں میرا پہلا افسانہ شائع ہوا تھا تب سے لے کر آ ج تک میں نے اپنی ہر تحریر سے کوئی نہ کوئی اخلاقی پیغام دینے کی کوشش کی ہے اور کسی نہ کسی آ یت قرآنی یا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ ضرور دیا ہے ۔ جب بھی لکھا ہے یہ سوچ کر لکھا کہ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان نہ صرف مسلمانوں بلکہ بنی نوع انسان کی بھلائی اور سلامتی کا خواہاں رہتا ہے ۔ دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے قلم میں وہ روانی اور تاثیر بخشیں کہ میں اپنا مافی الضمیر قارئین تک پہنچا سکوں اور میری تحریروں سے لڑکیاں اور خواتین کو اخلاقی اور مذہبی رہنمای میسر آتی رہے آمین ثم آمین ۔ قارئین محترمہ انجم انصار مدیرہ ماہنامہ ,, پاکیزہ ڈائجسٹ ,, ،( کراچی) محترمہ عطیہ عمر کے بارے رقم طراز ہیں ,, عطیہ عمر ہمیشہ بامقصد موضوعات کا انتخاب کرتی ہیں ۔ عام فہم انداز تحریر ہے ۔ جس میں سلاست بھی ہے اور برجستگی بھی ۔۔۔ روانی بھی ہے اور دل نشینی بھی ۔ ایسے وہ اپنا پیغام اتنی خوبصورتی سے کہہ جاتی ہیں جس کا تاثر پڑھنے والے پر دیر تک رہتا ہے ۔ نئی نسل میں اسلامی تشخص بیدار کرنا ان کو دین سے قریب کرنا خاندان کی یکجہتی پر زور دینا ، اپنی ذات سے لوگوں میں خوشیاں پہنچانا ، بلعموم ان کے موضوعات ہوتے ہیں جن پر وہ بڑی مہارت سے لفظوں کے ستارے ٹانکتی ہیں ۔
عطیہ عمر کی تحریر کی ایک بڑی خوبی شگفتگی بھی ہے ۔ انکا افسانہ ہو یا ناولٹ ، کبھی بوچھل سا نہیں ہوتا کہ جس کو پڑھ کر تھکان کا احساس ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ دولت بخشی ہے کہ اصلاحی تحریریں لکھنے کے باوجود آپ کا اسلوب تحریر سبک ، چابک دستی ، بے تکلف ، تروتازہ اور مزیدار سا ہے ۔ خوبصورت جزبات نگاری اس مہارت سے بیان کرتی ہیں کہ پڑھنے والا آپ کی تحریر کے سحر میں ڈوب جاتا ہے ,, ۔ محترمہ امت الصبور مدیرہ ماہنامہ ،، خواتین ڈائجسٹ ،، ( کراچی) لکھتی ہیں عطیہ نے ایک مقصد کو سامنے رکھ کر قلم اٹھایا ہے ۔ وہ تخلیق کے فنی پہلوؤں کو نظر انداز کر سکتی ہے لیکن اپنے مقصد کو نہیں ۔ اس کی شخصیت اور اس کی تحریریں دودھ میں مٹھاس کی طرح ہیں ، جنہیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ٹھنڈی میٹھی شخصیت ۔۔۔ قدرت نے تخلیق کار بنایا ہے تو کہیں آگ کی چنگاری بھی ضرور ہوگی لیکن یہ آگ جگنو کی سی ٹھنڈک رکھتی ہے ۔ عطیہ کے کردار جاذبیت رکھتے ہیں ، وہ اس ماحول کا حصہ ہیں ۔ عطیہ بڑے سادہ سے روز مرہ انداز میں ان کی منظر کشی کرتی ہے ۔ دراصل وہ سادگی کو کام میں لانا جانتی ہے ، اس کے قرداروں پر گردوپیش کی نسبت دیکھنے والی آ نکھ کا رنگ حاوی ہوتا ہے ۔ وہ اپنی نظر اور علم سے کردار تخلیق کرتی ہے ۔ صراط مستقیمی کردار جو عطیہ کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہیں ۔ یہ عطیہ کی بڑی خوبی ہے کہ ایک مقصد کے تحت لکھنے کے باوجود اس کی تحریروں میں دلچسپی کا عنصر قائم رہتا ہے اور پڑھنے کے دوران کہیں بھی بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا ۔ عطیہ عمر نے کہانیاں لکھنے کی ابتدا ، نوائے وقت ، جنگ وغیرہ سے بچوں اور طلبہ کے صفحات سے کی ازاں بعد ان کے افسانے ، ناولٹ اور کہانیاں پاکیزہ ڈائجسٹ ، کرن ، دوشیزہ ، اردو ڈائجسٹ ، شعاع ، خواتین ڈائجسٹ وغیرہ میں شائع ہوئیں ۔
دوشیزہ ڈائجسٹ کی طرف سے انہیں تین افسانوں پر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ کراچی میں پاکیزہ ڈائجسٹ کی سالگرہ کے موقع پر چند بہترین رائٹرز کا انتخاب کیا جاتا تھا ، عطیہ عمر کو کئی سال تک ان رائٹرز میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ پاکیزہ ڈائجسٹ کی سالگرہ کی ایک تقریب ڈیفینس کلب کراچی میں منعقد ہوئی جس میں عطیہ عمر نے پاکستان کی نامور ادیبہ محترمہ فاطمہ ثریا بجیا سے شیلڈ وصول کی ۔ اس تقریب میں جناب انور مقصود ، نیلوفر عباسی ، قربان علی عباسی ، ضیاء محی الدین کی بیگم عزرا محی الدین کے علاوہ علم و ادب سے محبت رکھنے والی شخصیات اور وطن عزیز کی نامور اداکاراؤں نے شرکت کی ۔ پاکیزہ ڈائجسٹ کی ایک اور تقریب کا انعقاد سن سیٹ کلب کراچی میں ہوا جس میں عطیہ عمر کو ان کے ایک خوبصورت افسانے پر شیلڈ سے نوازا گیا ۔ انہوں نے شیلڈ تقریب کے مہمان خصوصی گورنر سندھ جنرل (ر) جناب معین الدین حیدر سے وصول کی ۔ قارئین عطیہ عمر صاحبہ کراچی میں ادبی سرگرمیوں میں شرکت کرتی رہتی ہیں ۔ ضیاء محی الدین مرحوم کی بیگم عزرا محی الدین کی کزن محترمہ عزرا رسول پاکیرہ ڈائجسٹ کی مالک عطیہ عمر صاحبہ کی اچھی دوست ہیں ان کے ساتھ انہیں ایک تقریب میں مشتاق احمد یوسفی کی زبانی ان کی اپنی کتاب ,, زرگزشت ,, سے مختصر اقتباس سننے کا موقع ملا ۔ جیو ٹیلی ویژن کے ابتدائی دنوں میں 13 اقساط پر مبنی عطیہ کے ڈرامے کی کہانی کا مرکزی خیال اور مختصر خاکہ منظور کیا گیا تھا مگر ان کے چند تحفظات مثلآ لباس ، مکالمے اور اسکرپٹ میں غیر ضروری تبدیلیوں کی وجہ سے نشر نہ ہو سکا ،کیوں کہ نشریاتی ادارے کی بھی کچھ اپنی انتظامی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ عطیہ عمر صاحبہ ان دنوں گراچی میں اقامت پذیر ہیں ان کے شوہر محترم عمر فاروق اعوان ایک بزنس مین ہیں ۔ وہ اور ان کے بھائی کراچی کے مشہور و معروف ریسٹورنٹ سلور اسپون کے مالک ہیں ۔ ان کا گھرانہ آبائی علاقے سے بھی جوڑا ہوا ہے اکثر گاؤں میں بھی آتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ عطیہ عمر صاحبہ کے علم وعمل میں مزید برکتیں عطا فرمائے آمین ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔