تحریر:
سیدزادہ سخاوت بخاری
واٹس ایپ گروپوں میں ، ہم سارا دن سیاست اور سیاست دانوں کے قصیدے یا ہجو میں مصروف رہتے ہیں ۔ اپنی نادانی اور کم علمی سے ایسے ایسے الفاظ اور جملے استعمال کر جاتے ہیں کہ جس سے دل شکنیاں اور کدورتیں جنم لیتی ہیں ۔
اگرچہ ملکی معاملات اور حالات پہ غور و فکر اور تبصرہ بھی ضروری ہے لیکن اس میں تحمل ، برداشت اور تکریم کو ساتھ لیکر چلنا ، فرض کا درجہ رکھتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ ، ہر وقت سیاست ہی کیوں ؟ سیاست انسانی معاشرے کا ایک پہلو ہے ، ایک جزو ہے ، نہ کہ کل ۔ لھذا سیاست کے ساتھ ساتھ ہمیں دیگر موضوعات کو بھی زیر بحث لانا چاہئے ۔
مثلا
معیشیت ، صحت ، تعلیم ، کردار سازی ، بیروزگاری ، انتہاء پسندی ، دہشت گردی ، بیروزگاری ، ناانصافی ، ظلم ، مہنگائی ، آبادی ، بنیادی سہولتیں ، شہری کے حقوق وغیرہ وغیرہ ، درجنوں موضوعات ہیں ، کہ جن کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔
اگر غور کیا جائے تو اصلی سیاست یہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ، نہ کہ پارٹیوں اور گروہوں کی تعریف و توصیف یا ان کے خلاف دشنام طرازی ۔
ہماری 70 سالہ ناقص تعلیم اور بھیڑ بکریوں جیسی تربیت نے ہمیں عجیب مزاج میں ڈھال دیا ہے ۔ ہم معیار اور حق کی بجائے ، اپنی پسند کے سیاسی لٹیروں اور نام نہاد سیاسی جماعتوں کی اندھا دھند تقلید اور حمائت کرتے ہیں ۔ بات یا کام غلط ہے یا درست ، یہ نہیں دیکھنا ، چونکہ ہم فلاں کے حمائیتی ہیں ، آنکھیں اور دماغ بند کرکے اس کی پشت پہ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
کیا ہم عام و خاص کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کے پابند ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملائیں ؟ بلکہ انہیں ہماری ضرورت ہے ، اگر ہم سب اکٹھے ہوجائیں تو انہیں چھپنے کی جگہ نہ ملے لیکن انہوں نے ہمیں ہیپناٹائز کیا ہوا یے ۔ ایسا جادو کر رکھا ہے کہ ہم صبح ہوتے ہی ان کی خاطر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجاتے ہیں ۔
ایک خاص نقطہ ہمیشہ پیش نظر رہے ، ان سیاسی مباحث کو چھیڑنے اور آگے بڑھانے میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جس کے ذاتی مفادات ہیں ، انہیں ملک و قوم سے کوئی غرض نہیں ، ان کے لئے مال و دولت ہی سب کچھ ہے ، ایسے لوگ ہر جگہ ، ہر فورم پر پائے جاتے ہیں ، آپ نے دیکھا ہوگا ، بعض نام نہاد دانشور اور لکھاری مختلف ٹی وی چینلز ، اخباروں اور سوشل میڈیا پر رات دن اپنے آقاوں کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں ۔ سب دنیاء دیکھتی ، سنتی اور سمجھتی ہے کہ وہ غیر منطقی ، غیر حقیقی اور غلط باتیں کررہے ہیں لیکن انہیں اس سی غرض نہیں ، یہ مخصوص مشن پر متعین تنخواہ دار اور بے ضمیر لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کا کام اپنے آجر کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی نقصان اٹھانا پڑا یا شکست ہوئی ، اس میں اپنے اندر کے لوگوں کا ہاتھ تھا ۔
آج کا دور پروپیگنڈے کا دور ہے ، سوشل میڈیا اس کا سب سے بڑا ، اہم اور موثر ہتھیار ہے ، دشمن کے کارندے ہر روز ایک افواہ یا من گھڑت خبر چھوڑ کر ہم سب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتے ہیں اور ہم ہیں کہ سمجھتے نہیں ، فضول کی بحثوں میں الجھ کر اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں ۔ ان ملک دشمنوں کا اولین مقصد ہمیں آپس میں الجھا کر تفریق اور انتشار پیدا کرنا ہوتا ہے ۔
اگرہم سیاسی جماعتوں اور دھڑے بندیوں کے چنگل سے نکل کر بات کریں تو ہر بندہ محب وطن نظر آئیگا ، باہمی اخوت و محبت بڑھے گی اور مثبت بحث و تمحیص سے قوم و ملک کا فائدہ ہوگا ۔
آپ کے خیال سے
"کیا یہ بہتر نہ ہوگا ” اگر ہم
پارٹی سیاست سے ہٹ کر ان موضوعات پہ بات کریں کہ جن کی نشان دہی میں نے درج بالا سطور میں کی ؟
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |