جنگ عظیم،ملتانی فوجی اور مجاور

  جنگ عظیم،ملتانی فوجی اور مجاور -حیدر آباد کی ڈائری

1989 میں فوجی ہسپتالوں کو الٹرا ساؤنڈ مشینیں مہیا کی گئیں ۔ان کا ماڈل تھا Aloka-4000.. سی ایم ایچ ایبٹ آباد میں یہ مشین میرے سامنے اسمبل ہوئی۔لیکن اس کو چلانے کی نوبت نہ آئی ۔میں اس سے پہلے ہی حیدر آباد چلا گیا ۔ یہاں آکر دیکھا تو الٹرا ساؤنڈ مشین ڈبوں میں بند تھی ۔ الٹرا ساؤنڈ کے لئے مریض ایک ہندو ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجے جاتے تھے ۔کچھ دن کے بعد میں نے خود ہی مشین اسمبل کر دی۔ اور اس پر  آف دی ریکارڈ الٹرا ساؤنڈ کرنے شروع کر دیے ۔کچھ دنوں بعد جب تھوڑی سی سمجھ آنا شروع ہوئی تو ایک دن ڈرتے ڈرتے رپورٹ جاری فرما دی۔ ایک بچے کے  پھپھڑوں میں پانی کی تشخیص کی ۔ ٹی روم میں چائیلڈ سپیشلسٹ سے ملاقات ہوئی تو رپورٹ کا ذکر آ گیا۔وہ فرمانے لگے ۔ڈاکٹر صاحب آپ کا الٹرا ساؤنڈ میں کتنا تجربہ ہے۔ عرض کیا کہ آج ہی پہلی رپورٹ دی ہے۔۔اس پر انہوں نے کہا   ٹھیک ہے کوئی بات نہیں ۔ ویسے اچھی خبر یہ ہے کہ بچے کے پھپھڑوں میں پانی نہیں ہے۔

 حیدر آباد بازار میں 1989 میں قاضی حسین احمد صاحب کی تقریر پہلی دفعہ سنی ۔

1نورانی داڑھی مبارک ۔

2قراقلی ٹوپی دیکھ کر ہی دل دے بیٹھا ۔

3علامہ اقبال غریب نواز کے اشعار سے مزین تقریر سنی تو پتہ چلا دل کا فیصلہ صحیح تھا۔

 یہی حال 1978میں مرد قلندر ڈاکٹر اسرار صاحب کو دیکھ کر سن کر ہوا ۔ان میں بھی یہ تینوں صفات موجود  تھیں ۔ مزید بر آں ان کے بیٹے عارف سعید Kemcolians-81 ہمارے کلاس فیلو تھے ۔

 خدا کی شان  انہی تین صفات کے حامل سروالا اٹک کے تبلیغی بزرگ ماسٹر خان بہادر صاحب بھی تھے ۔اس لئے ان کو بھی دل کا ایک حصہ دے بیٹھا ۔

  1998میں افتخار جنجوعہ کالونی کھاریاں میں  الخدمت فائونڈیشن والے عبدالشکور صاحب ہمارے پڑوسی تھے۔ ان کے ہاں کبھی کبھی درس قرآن مجید میں شرکت ہوتی ۔ان کی زبانی پتہ چلا کہ جی ٹی روڈ کھاریاں کی مسجد جماعت اسلامی میں حضرت قاضی صاحب جمعہ پڑھائیں گے۔ بچوں سمیت حاضری ہوئی۔

  مسدس حالی کے مقدمے میں ایک شعر پڑھا ۔  دل کو لگا ۔مولانا حالی نے تو یہ شعر سرسید کے بارے میں لکھا لیکن  مذکورہ بالا بزرگوں کے ساتھ میری عقیدت کے بھی حسب حال ہے ۔

آن دل کہ رم نمودِے   از خوبرو جوانان

دیرینہ سال پیرے  برده بیک نگاھے

(مفہوم  ) بعض بابے بڑے ظالم ہوتے ہیں ،ایک نظر میں  دل چرا لیتے ہیں۔

 حیدرآباد آفیسر کالونی کے بازو میں ایک قبرستان ہے ۔ایک دن واک کرتے کرتے وہاں پہنچا ۔مزار دیکھ کر اس کے قریب چلا گیا ۔مزار کے باہر ایک چھوٹا سا قبر نما پلیٹ فارم بنا ہوا تھا۔اس کی لوح مزار پر لکھا تھا ۔۔فلاں ہندو صاحب کے پھول جو ان کے وارثوں  نے باباجی کے دروازے کے قریب دفن کرنے کے لئے انڈیا سے بھجوائے ۔

 مجاور سے تفصیل پوچھی تو پتہ چلا کہ ہندو صاحب  بابا جی کے معتقد تھے ۔۔مجاور سے پوچھا کہ اس سارے اہتمام کا ہندو صاحب کو کیا فائدہ ہو گا۔۔مجاور بابا بولا ۔۔اگلا جہاں تو ایمان کی منڈی ھے ۔ بغیر ایمان کے کسی پیر بزرگ سے تعلق بیکار ہے ۔ مجاور بابے سے اتنا ۔۔ایمان افروز جواب غیر متوقع تھا۔

  It was a pleasant surprise   

 حیدر آباد کینٹ کے اندر اور ساتھ والے قبرستان میں کریں،کریر(Capparis decidua)کے خود رو پودے کثرت سے تھے ۔اور اپنے پھل یعنی  ڈہليوں  سے لدے ہوئے تھے۔ڈہلياں بھی کنگ سائز تھیں۔ بڑا دل کرتا کہ ان کو توڑ کر شاپر بھر لوں۔ لیکن یہ خیال کرکے ہمت نہ ہوتی کہ کل اخبار میں خبر آجائے گی کہ میجر صاحب ڈہلياں توڑتے ( کھوہتے) ہوئے پکڑے گئے ۔

  1999 میں بریگیڈئر اسد ترین سی ایم ایچ کھاریاں کے کمانڈنٹ تھے انہوں نے ایک قصه سنایا۔ پہلی جنگ عظیم 1916 میں ملتان کا ایک فوجی عراق کے محاذ پر تھا۔ اجنبی ماحول اور نا آشنا لوگ  وہ بیچارہ سخت پریشان ہوا۔ گاوّں کی گلیاں اور کھیت یاد کرکے روتا تھا ۔ ایک دن  روٹ مارچ   کے دوران اس فوجی کی نظر   اَکّ ،آک (Calotropis gigantea)کے پودے پر۔ پڑی وہ سارا ڈسپلن بھول کر بھاگا  ،اَکّ  کے پودے کو چمٹ گیا ۔اور زور سے چلایا۔

  بسم اللہ  ساڈیے وطن نی     بوٹی   تساں  کتھے    

حیدر آباد میں  کریں دیکھ کر یہی حال عبدالسلام کا ہوا۔

  کریں” کا پودا (کریر- Capparis decidua)  ،کریں (کریر ) ضلع اٹک کے تقریباً تمام علاقوں میں  اگنے والی ایک جنگلی کانٹے دار جھاڑی ہے جس کے پتے نہیں ہوتے۔  اس پہ جو پھل لگتا ہے وہ شروع میں سبز رنگ کا ہوتا ہے۔جسے  "ڈیلیاں” اور جب پک کر موٹے موٹے اور سرخ ہوجائیں تو "ڈیلے” بولتے ہی۔ لیسدار ڈیلے  بڑے میٹھے اور خوش ذائقہ ہوتے ھیں۔

Capparis decidua

جنگ عظیم،ملتانی فوجی اور مجاور

  ڈیلیوں کو سالن کے طور پہ پکانے کے لئے ایک خاص طریقے سے خشک کیا جاتا ہے۔ جب ڈیلیاں سبز ہوتی ہیں تو کریر کے درخت سے اتار لی جاتی ہیں۔ پھر ان کو لسی میں بھگو کر گھڑے کے اندر چند دن رکھا جاتا ہے جیسے اچار بنتا ہے۔ تھوڑا سا پریس کرکےڈیلیوں کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔  پھر گھڑے سے نکال کر دھوپ میں پھیلا کر خشک کی جاتی ہیں۔

  ڈیلیوں کا سالن بھی گھروں میں تقریباً سال میں پانچ چھ دفعہ تو پکتا ہی تھا۔جس سالن میں دودھ ڈالا جاۓ اسے     کاہڑا   کہتے ہیں ۔ڈیلیوں کا  کاہڑا   میرا پسندیدہ سالن تھا۔  تھوم    چاول کا  کاہڑا بھی ڈنگ ٹپانے کے لئے ایک بہترین آپشن ہے ابھی پچھلے مہینے ہی پکا تھا۔ ڈیلیوں کا  کاہڑا کھائے البتہ عرصہ ہو گیا ہے ۔نہایت لذیز سالن بنتا ہے جس میں ہم روٹیاں بھور کر چوری بنا کر کھا سکتے ہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

یاد حبیب باعث جذب و اثر بھی ہے

جمعرات جون 8 , 2023
یاد حبیب باعث جذب و اثر بھی ہے وجہ قرارِ دل بھی سکون نظر بھی ہے
یاد حبیب باعث جذب و اثر بھی ہے

مزید دلچسپ تحریریں