عورت سیرت طیبہ کی روشنی میں

عورت سیرت طیبہ کی روشنی میں


از قلم
بینش احمد اٹک
عورت کا لفظ سُنتے ہی دِل میں ایک نرم و نازک سا احساس ابھرتا ہے۔عورت انسان کیلئے اللہ کی طرف سے ایک نعمت اور قیمتی تحفہ ہے۔عورت ماں ہے- بیٹی ہے ۔بہن ہے- اگر عورت کو اللہ پیدا نا کرتا تو تمام انسانوں کا نظام بدل جاتا ۔ عورت گھر کی رونق ہے ۔
اسلام نے عورتوں کو حق دیا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں- انفرادی طور پر کاروبار اور معاشرتی رابطہ قائم کر سکتی ہے۔ وہ ہر کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے۔ عورتوں نے ملازمت ، کاروبار ، زراعت ، تبلیغ، طب، فوج اور دیگر تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا جادو دکھایا ہے-کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں عورت کام نا کر سکے- آج کی عورت جہاز اُڑا رہی ہیں- خلا میں جا رہی ہیں- دُشوارگزار پہاڑوں کو سَر کر رہی ہیں۔سیاست میں آگے آ رہی ہیں- الغرض زندگی کے ہر شعبے میں خواتین پیش پیش ہیں-
موجودہ دور میں ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو مقام دیا ہے کیا ہمارے معاشرے نے اسے وہی مقام دیا ہے؟
قبل از اسلام عورت کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک اختیار کیا جاتا تھا۔ اگر کسی کے گھرلڑکی پیدا ہو جاتی تو اس کی پیدائش پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا تھا۔عورت کو محض عیش و عشرت کا سامان سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کی باقاعدہ خرید و فروخت کی جاتی اور ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔
لیکن جب اسلام وجود میں آیا تو اس نے عورت کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا۔ اسلام نے عورت کے باقاعدہ حقوق متعین کیے ہیں۔اگر ہم حضور نبی اکرمؐ کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو ان سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک عورت کو انسان ہونے کے ناطے اسی طرح سے حقوق حاصل ہیں جس طرح سے ایک مرد کو حاصل ہیں۔ عورت اور مرد طبعی اور جسمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ گھر سنبھالنے کی ذمہ داری عورت پر ہے جبکہ باہر کا نظام مرد کے ذمے ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان چار رشتے
ہو سکتے ہیں؛
ماں کا رشتہ
بہن کا رشتہ
بیٹی کا رشتہ
بیوی کا رشتہ
باقی مزید رشتے انہی کی بنیادوں پر بنتے ہیں۔
حضور نبی اکرمؐ کی زندگی سے ہمیں اس چیز کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کون سے رشتے کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

حضور نبی اکرمؐ کا بہن کے ساتھ رویہ
بھائی بہن کا رشتہ ایسا ہوتا ہے جو پیار،محبت،اپنائیت اورخلوص سے بھرا ہوتا ہے۔ بھائی بہن کا رشتہ مضبوط اور انمول رشتہ ہے۔ بھائی بہن ایک دوسرے کی خوشی ہو یا غم، ایک دوسرے کا ساتھ دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ رشتہ اللہ تعالیٰ کا بخشا ہوا نایاب اور قیمتی تحفہ ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضور اکرمؐ کی کوئی حقیقی بہن نہیں تھی لیکن آپؐ کی ایک رضاعی بہن تھی جن کا نام شیما بنت حارثؓ تھا۔آپؓ حلیمہ سعدیہؓ کی بیٹی تھیں۔ آپؐ نے اپنا بچپن ان ہی کے ساتھ گزارا۔
محمدثین بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ حنین میں گرفتار ہونے والوں کو پہلے تو قیدی بنایا لیکن بنو ہوازن کے وفد کے آنے پر حضورؐ نے ان سب کو رہا کر دیا۔ ان قیدیوں میں سے ایک خاتون حضرت شیما بھی تھیں، جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں، لوگوں نے جب ان کوگرفتار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں۔ وہ لوگ آپؓ کو حضور پاکؐ کی خدمت میں لے کر آئے۔ آپؐ نے ان کو پہچان لیا۔ آپؐ کی آنکھیں اپنی ہمشیرہ کو دیکھ کر نم ہو گئیں۔ آپؐ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر ان کو بٹھایا اور ان کو کچھ اونٹ اور کچھ بکریاں عطا کی اور فرمایا کہتم آزاد ہو۔ اگر تمہارا دل چاہے تو میرے گھر پر چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تمہیں کو وہاں پہنچا دوں گا۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو نہایت ہی عزت واحترام کے ساتھ آپؐ نے انہیں ان کے قبیلے پہنچا دیا۔
(نعمانی، شبلی، علامہ، دندوی، سلیمان،سید،سیرت النبیؐ،کراچی دارالاشاعت ٣١١،١،١۹۸٥۔)
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے آپؐ نے حقیقی بہن نا ہوتے ہوئے بھی اپنی رضاعی بہن کے ساتھ اس قدر شاندار سلوک روا رکھا۔

حضور نبی اکرمؐ کا بیوی کے ساتھ رویہ:
میاں بیوی کا رشتہ ایسا رشتہ ہے جس میں محبت ہی محبت نظر آتی ہے۔ ہر رشتے کی خوبصورتی اپنی جگہ ہے پر یہ ایک بہت مضبوط رشتہ ہے۔اسلام نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔
میاں بیوی کے رشتے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور پاکؐ نے ارشاد فرمایا؛
ترجمہ؛
”اگر اللہ تعالیٰ کے بعد کسی کو سجدے کی اجازت ہوتی تو وہ شوہر کی ہوتی کہ اس کی بیوی سجدہ کرے۔“
(ترمذی،ج2،ص386،حدیث:1162)
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کو خصوصی طور پر زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی تھی۔ آپؐ کے نکاح میں گیارہ خواتین تھیں۔زیادہ ازواج ہونے کے باوجود بھی آپؐ نے ہمیشہ سب سے برابری کا رویہ رکھا ۔
نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ؛
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔“
( ترمذی،کتاب المناقب،باب فضل ازواج النبی،۵/۴۷۵حدیث:۳۹۲۱)
آپؐ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ ان کا ذکر فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت خدیجؓہ کو نہیں دیکھا لیکن مجھے ان پر سب سے زیادہ رشک آتا تھا کہ آپؐ ان کا بار بار ذکر فرماتے تھے ۔ اگر بکری ذبح کرتے تو خود حضرت خدیجؓہ کی سہیلیوں کو بھیجتے۔ حضرت عائشؓہ نے ایک بار آپؐ سے عرض کیا کہ؛
”دنیا میں حضرت خدیجہ کے سوا کوئی عورت ہی نہیں تھیں؟“
آپؐ نے جواب فرمایا؛
” وہ بڑی خوبیوں کی مالک تھی۔“
(بخاری محمد بن اسماعیل صحیح بخاری باب ترویج النبی خدیجہ و فضلاء)
آپؐ خود بھی اپنی ازواج کے ساتھ محبت فرماتے اور امت کو بھی اس بات کی تلقین کرتے تھے۔

حضور نبی اکرمؐ کا ماں کے ساتھ رویہ
ماں ایک ایسا پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی محبت اورسکون کا احساس ہوتا ہے ۔ ماں کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاؤں کے برابر ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضور اکرمؐ کی حقیقی والدہ حضرت آمنہ کا انتقال آپؐ کے بچپن میں ہو گیا تھا لیکن آپؐ کا اپنی رضاعی ماؤں کے ساتھ تعلق بہت محبت بھرا تھا۔ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ:
”مکی دور میں رسول پاکؐ سے حضرت حلیمہ کی ملاقات کی خبر ملی ۔ حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد وہ رسول پاکؐ سے ملاقات کے لیے آئیں تو آپؐ نے بہت عمدہ طریقے سے ان کا استقبال کیا۔ حضرت حلیمہؓ نے اپنے علاقے کی خشک سالی اور جانوروں اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کا ذکر کیا تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کے مشورہ سے ان کو چالیس بکریاں اور سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ عنایت فرمایا۔“
(حضور پاکؐ کی رضاعی مائیں ص؛ ١٣۷۔١٣۲)
اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ اپنی رضاعی والدہ سے اس قدر پیارا رویہ رکھتے تھے اور اگر آپ کی حقیقی والدہ ہوتیں تو آپؐ ان سے کس قدر مزید احترام سے پیش آتے۔

حضور نبی اکرمؐ کا بیٹی کے ساتھ رویہ
ہمارے پیارے دین اسلام نے بیٹی کو بڑی عظمت عطا کی ہے۔ بیٹی اللہ کی رحمت، باپ کی ا ٓنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق، ماں کاسکون، بھائیوں کی لاڈلی ہے۔ بیٹی پر خرچ کرنا صدقہ کرنے کی طرح ہے۔
قبل از اسلام اگر کسی ہے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو وہ لوگ اسے اپنی شرمندگی کا باعث سمجھتے تھے اور اسے زندہ درگور کر دیتے تھے لیکن جب اسلام وجود میں آیا تو اس نے اس فرسودہ رسم کا خاتمہ کیا اور بیٹیوں کو رحمت قرار دیا۔
آپؐ کی چار بیٹیاں تھیں۔ آپؐ نے اس فرسودہ رسومات والے معاشرے میں اپنی چاروں بیٹیوں کی بہت اعلیٰ پرورش کی اور اپبے طرز عمل سے سب کو یہ بتایا کہ بیٹیاں قابل شفقت ہوتی ہیں نا کہ قابل نفرت ۔
مظہر صدیقی صاحب لکھتے ہیں :
”حضور نبی اکرمؐ اپنی چاروں بیٹیوں کے گھروں میں برابر تشریف لے کر جاتے تھے ۔ جب وہ سب اپنے اپنے گھروں میں بس گئیں تو ان کے گھروں میں زیارت اور ملاقات کے لئے جاتے رہے اور ان سے زیارت نبوی کا تسلسل آخری سانس تک قائم رہا۔“
(صدیقی، محمد یسین مظہر ڈاکٹر رسول اکرم اور خواتین، ایک سماجی مطالعہ لاہور : اردو بازار، نشریات، ص ۲۰)
الغرض عورت جس بھی روپ میں ہو ہر لحاظ سے افضل ہے لیکن موجودہ دور میں یہ تصور ہے بھی اور نہیں بھی۔ کچھ خواتین نے اسلامی اقدار کو بالکل فراموش کر دیا ہے اور مغربی طرز پر زندگی گزار رہی ہیں اور کچھ خواتین کو ان کے تمام حقوق ہی میسر نہیں ہیں۔
دور حاضر میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام مرد و عورت سیرت طیبہؐ کا بھرپور مطالعہ کریں۔سیرت طیبہؐ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے۔ ہمیں حضور پاکؐ کی زندگی سے مکمل رہنمائی مل سکتی ہے۔ہمیں اپنی اسلامی بنیادوں پر استقامت سے کھڑا رہنا چاہیے تاکہ اس پُرفتن دور میں ہم اپنی حفاظت آپ کر سکیں۔ اللہ پاک ہم سب کو نیک راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

عورت سیرت طیبہ کی روشنی میں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کامیابی

جمعرات مارچ 9 , 2023
کامیابی کے لفظی معنوں سے تو ہم سب واقف ہیں ” اپنی سوچ، خواہشات اور مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ” وغیرہ وغیرہ۔
کامیابی

مزید دلچسپ تحریریں