مہنگی بجلی بلوں کی سزا موت کیوں؟

مہنگی بجلی بلوں کی سزا موت کیوں؟

Dubai Naama

مہنگی بجلی بلوں کی سزا موت کیوں؟

جس روز گوجرانوالہ میں 30ہزار روپے بجلی کے بل پر ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کیا تھا اسی دوران ایک خبر کے مطابق آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر 1929 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹ کی گئی۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی بھی بدعنوانی چھپی نہیں رہ سکتی۔ بجلی نہ بنا کر بھی کیپسٹی چارجز کی مد میں سالانہ 1900 ارب روپے سے زیادہ جگا ٹیکس کی شکل میں عوام کے بلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

جو نام نہاد کاروباری گروپس اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں ان میں (نشاط پاور/ ایم سی بی بنک)، (نشاط پاور/ ایم سی بی بنک)، (جے ڈی ڈبلیو گروپ)، (چنیوٹ پاور)، (سیف پاور گروپ)، (سیف پاور پراجیکٹ)، (اورینٹ پاور کمپنی) اور (اینگرو پاور پراجیکٹ/ داؤد ہرکولیس گروپ شامل ہیں جن کی نون لیگ، پیپلزپارٹی، قاف لیگ اور پی ٹی آئی وغیرہ سے سیاسی وابستگیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہ ایسا کاروبار ہے کہ جس کے ذریعے عالمی کباڑ خانے سے (جس میں چین سرفہرست ہے) ایک ناکارہ پاور پلانٹ خرید کر لگا لیں اور پھر اسے بند رکھ کر آپ کی 7 نسلیں گھر بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔ آئی پی پیز سے پہلا معاہدہ محترمہ بینظیر بھٹو نے سنہ 1996ء میں کیا تھا جبکہ آخری کئے گئے معاہدے کی مدت 2050 تک ہے اور اس میں کسی طرح کی بھی نظرثانی یا معاہدہ ختم نا کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ انہی آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ادائیگی عوام کو مہنگی بجلی بیچ کر قتل و غارت اور خودکشیوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہی ہے۔

نیپرا کی ویب سائٹ کے مطابق تمام معاہدے 1997 میں کئے گئے۔ بے نظیر بھٹو کی پالیسی کی بناء پر 1994 میں لائسنس جاری کئے گئے لیکن یہ لائسنس چلنے نہیں دئیے گئے تھے۔ 14 پروجیکٹس فارن انویسٹمنٹ سے لگائے گئے تھے اور 14 کی ہی ضرورت تھی۔ سب کو بند کر دیا اور 1997ء میں سب فارن انویسٹر بھاگ گئے۔ سب پروجیکٹس اونے پونے خرید لیئے گئے۔ سنہ 1997ء سے 2007ء اور پھر 2017ء میں ان معاہدوں کو ایکسٹینڈ کیا گیا۔ اگر یہ معاہدے بے نظیر بھٹو نے اپنے کاروباری مفاد کے لیئے کیئے تھے تو پھر سابق صدر آصف علی زرداری کو 2008 سے 2013 تک اڑھائی روپے فی یونٹ کے بجائے بجلی مہنگی بیچنا چاہیے تھی مگر وہ سستی بجلی بیچتے رہے تھے۔

پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی اس انتقامی و سیاسی کشمکش اور ان معاہدوں کے اجراء اور تنسیخ کے بدلے عوام کو مہنگی بجلی بیچنے کے ذریعے کتنا نقصان پہنچایا گیا اس کا اندازہ ان اخباری خبروں اور اشتہارات سے لگایا جا سکتا ہے جو نون لیگ نے چھپوائے: “معاہدے کرنیوالوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کریں گے، “حب کو” کے دفتر پر چھاپہ، غیر ملکی عملے نے قونصل خانوں میں پناہ لے لی، حبکو سے بے نظیر دور کا ترمیمی معاہدہ منسوخ اور غیر ملکی کمپنیوں سے بجلی کے تمام معاہدے منسوخ کرنے کا فیصلہ وغیرہ وغیرہ۔”

بجلی کی طلب 22 ہزار میگا واٹ ہے مگر 43 ہزار میگا واٹ کے پلانٹ لگائے گئے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری 60 سے 70 ملیں بند پڑی ہیں۔ بجلی کی موجودہ قیمت اتنی مہنگی ہے کہ اس پر کاروبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ‏کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں پیسے لینے والے آئی پی پیز کی جو اوپر فہرست شئیر کی ہے وہ صرف گزشتہ تین ماہ کی ہے۔ ان 3ماہ میں ابھی تک آئی پی پیز کو 450 ارب روپے ادا کئے گئے ہیں۔ ان گروپس میں کبیر والا پاور پلانٹ بھی شامل ہے جسے اطالاعات کے مطابق 3 ماہ میں 56 کروڑ سے زائد کی ادائیگی ہوئی ہے لیکن اس کی کپیسٹی صفر ہے۔

اس طرح دیکھا جائے تو مہنگی بجلی کی بنیادی وجہ یہی آئ پی پیز گروپس ہیں جن کو اپنے “کمیشن بیسڈ” کاروباری مفادات کے لیئے حکومت سپانسر کرتی رہی ہے جس کا ہمیشہ دعوی یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کے لیئے برسراقتدار آئی ہے۔

جب تک عوام کو اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کا شعور حاصل نہیں ہوتا اس کے ساتھ یہ سلوک جاری رہے گا۔ جمہوریت اسی ملک میں خیر خواہی پر مبنی نظام حکومت ہے جہاں کی عوام سیاسی شعور رکھتی ہو۔ ہمارے ہاں عوامی نمائندوں کی اکثریت عوام کے ووٹ کو ان کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے مقابلے میں ملک میں تین بار مارشل لاء لگا اور تینوں بار عوام نے اس کا خیر مقدم کیا۔

جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو اسے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرنا ہو گا ورنہ جمہوریت آمریت سے بدتر نظام حکومت ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ 40 سال سے اس کا عملی مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اس جدید دور میں بھی ہماری عوام یہ جمہوری دھوکہ کھا رہی ہے اور بجلی کے یہ مہنگے بل موت کی سزا بن ٹوٹ رہے ہیں۔ عوام حکومت کے خلاف اس مد میں احتجاج کرنے کی بجائے انہیں برداشت کر رہی ہے۔ قصور حکومت کا ہے مگر سزا عوام بھگت رہی ہے۔ زہے نصیب!

Title Image by Muhammad Abdullah from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

آگ کی دیوار

بدھ جولائی 31 , 2024
سائنسی ارتقاء سے جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کو آسانیاں میسر آتی ہیں وہاں حکومتی اور انتظامی سطح پر نئے نئے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ا
آگ کی دیوار

مزید دلچسپ تحریریں