بچے کی تعلیم و تربیت والدین خاموش کیوں؟

بچے کی تعلیم و تربیت والدین خاموش کیوں؟

تحریر… فیصل جنجوعہ

غالباً ہم سب سمجھتے ہیں کہ بنیادی طور پر کسی بچے کی تربیت کے لئے چھ اہم تقاضے ہوتے ہیں۔
مطالعہ کا علم
لکھنے کا علم۔
بولنے کا علم۔
سوچنے کا علم
سمجھنے کا علم
غور کرنے کا علم
ہمارے نصاب اور اسکول کے اساتذہ صرف دو پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور بچوں کی بنیادی تربیت کی ضروریات کے باقی چار اہم ترین تقاضوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے ۔
اب ہوتا یہ ہے کہ والدین اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ بچے کو سکول میں داخل کرا دیا ہے تو اب ہماری ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے،
نصاب بنانے والے اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ جب ہم نے کوئی سبق نصاب میں شامل کر دیا ہے تو باقی کام اساتذہ کریں گے،
اساتذہ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ ہمارا کام صرف یہاں تک محدود ہے کہ ہم بچے کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنا دیں کہ نصاب میں شامل سبق بچہ پڑھ لکھ لے چونکہ اسی پر مبنی آگے امتحان ہوگا، اس کے علاوہ باقی چار تقاضے نہ ہی اساتذہ صاحبان نے خود سیکھے ہوتے ہیں اور نہ وہ ان بچوں کو ان کا علم ٹرانسفر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں،
اب ایک بچہ جس کے پاس پڑھنے لکھنے کی تو ڈگری ہے لیکن بولنے، سوچنے، غور کرنے اور سمجھنے کی اہلیت نہیں ہے تو کیا یہ بچہ کامل انسان یا کامیاب شخص بن سکے گا، پھر ہم شکوے کرتے ہیں کہ عمل کرنے کا فقدان ہے، ذرا سوچیں عمل کیسے ہو، کیونکہ عمل کرنے سے پہلے سوچنے غور کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کا ہمارے پاس علم ہی نہیں تو عمل کیسے ہوگا

یہ تین ہی سورس تھے بچے کی ابتدائی تربیت کیلئے، جن میں والدین کی ذمہ داری باقی دو سے زیادہ تھی،
اب بچہ لکھنے پڑھنے کے علاوہ باقی چار بنیادی تقاضوں یا بنیاد کی ضرورت کے بغیر پروان چڑھتا ہے،
بہتر ہے ایک مثال کے زریعے اس کو سمجھیں،
ایک عمارت کے بنانے میں چھ چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے،
اینٹ، سیمنٹ، سریا، ریت، پانی بجری،
اب ہم اس عمارت کی بنیادیں صرف پہلی دو چیزوں کے استعمال سے بھرتے ہیں یہ سوچ کر کہ جب عمارت تھوڑی اوپر بڑھے گی تو پھر باقی چیزیں بھی ساتھ مل جائیں گی،
اب ذرا سوچیں کہ صرف اینٹ اور سیمنٹ بغیر ریت، بجری، پانی اور سریے کے بھری بنیاد اس قابل ہوتی ہے کہ اس پر کوئی ساٹھ ستر منزلہ زندگی کی عمارت تعمیر کر سکے،
یقیناً آپ سب کا جواب ہوگا کہ نہیں،
لیکن جب آپکے اپنے بچے کی زندگی کی عمارت کی بنیاد کا وقت آتا ہے اور آپ جان بھی رہے ہوتے ہیں کہ میرے بچے کی زندگی کی عمارت میں چھ ضروری میٹیریل میں سے صرف دو کو استعمال کیا جا رہا ہے، اور اس طرح میرے بچے کی زندگی کی عمارت کی بنیاد باقی چار بنیادی ضرورتوں کے بغیر بنائی جا رہی ہے تو والدین یہاں خاموش کیوں ہیں، اتنی لاتعلقی اور وہ بھی اپنے لخت جگر کے ساتھ ،
امید ہے آپ یہاں تک بات سمجھ گئے ہوں گے، تو چلئے ہم آگے بڑھتے ہیں کہ والدین کی خاموشی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے،
میرے خیال میں پہلی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ والدین کو خود بھی اس چیز کا علم نہ ہو کہ بچے کی بنیادی تربیت میں کن کن تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے،
دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ واقعی وہ تعلیمی اداروں پر ہی انحصار کیئے بیٹھے ہوں،
تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ والدین اپنی فیملی کی روزمرہ کی اشیاء زندگی کو پورا کرنے میں اتنے مصروف ہوں کہ بچوں کی بنیادی تربیت کے سارے تقاضے پورا کرنے کا ان کے پاس وقت ہی میسر نہ ہو،
چوتھی اور آخری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وسائل اور غربت کی وجہ سے والدین بچے کی بنیادی تربیت کے اہم تقاضے پورا کرنے سے قاصر ہوں، کیونکہ اعلیٰ معیار کی درس گاہیں جہاں بچوں کی مکمل تربیتی تقاضوں کا خیال رکھا جاتا ہے ان کے اخراجات عام آدمی کی پہنچ سے بہت زیادہ ہیں،

اب اس ساری صورت حال پر جب غور کرتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ اب یہ صرف والدین کا اکیلا مسئلہ نہیں رہتا، کیونکہ جب یہ بچے کل معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو معاشرے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جس میں آپ، میں، اور دوسرے سب لوگ بھی شامل ہیں، جب ہم معاشرے کی اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں بچوں کی تربیت کے بنیادی تقاضوں کی اہمیت کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا، اور اس کا قابل عمل اور معقول حل سوچنا ہوگا.

Title Image by Sabrina Eickhoff from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کے کالموں کا مجموعہ شائع ہوگیا

پیر ستمبر 2 , 2024
سبھی عنوان میرے کے نام سے معروف کالم نگار ادیب ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کے ملکی و غیر ملکی اخبارات میں شائع شدہ منتخب
ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کے کالموں کا مجموعہ شائع ہوگیا

مزید دلچسپ تحریریں