جس کے صبح و شام نئے ہوں
مصرعہ "سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر” کے خالق علامہ محمد اقبال سائنس دان نہیں تھے۔ اس کے باوجود علامہ اقبال کی شاعری میں سائنسی نقاط کی کمی نہیں ہے۔ سنہ 1986ء میں جب ناسا کی چیلنجر سپیس شٹل خلا میں حادثے کا شکار ہوئی تو امریکی تحقیقاتی کمیٹی کے رکن اور نوبل انعام یافتہ سائنس دان رچرڈ فائمین نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ: "فطرت کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا”۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے اس شعر کے پہلے مصرعہ میں اس سے ملتی جلتی بات کہی تھی کہ، "خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو” اقبال کا یہ پورا شعر کچھ یوں ہے: "خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو، سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر” اقبال کی اس غزل کا پہلا شعر بھی فطرت (یعنی کائنات) کی تسخیر کے لیئے غضب کی موٹیویشن (Motivation) لیئے ہوئے ہے جس میں ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر،
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر۔
امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے اس جہاز کو حادثہ پیش آنے کی وجوہات میں ایک بنیادی وجہ سائنس دانوں اور عملے کا تجاہل عارفانہ تھا۔ اس حادثے کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ریورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کہ یہ حادثہ انسانوں کی غفلت کے باعث پیش آیا۔ ناسا کے انجنئیرز کو امکانی حادثے کا ادراک تھا مگر ان کے خدشات کو نظر انداز کیا گیا جس سے اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا۔ اسی موقع پر فائنمین نے کہا کہ فطرت کو ہرگز بےوقوف نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ مکرمی رچرڈ فائمین کا یہ جملہ بھی اپنے اندر زومعنویت کا ایک جہان لیئے ہوئے ہے جن کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات سے فطرت کو اور کائنات کے قوانین کو تو نہیں بدل سکتا مگر وہ ان کی دریافت کر کے اور ان کو سمجھ کر لامحدود فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ فطرت ہماری تابع ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس پر یہ پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ انسانوں کی خواہش کے مطابق اپنا پورا نظام بدل دے۔ لیکن علامہ اقبال کے بلند پایہ تخیل کا اندازہ کریں کہ وہ فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی انسان کو فطرت شناسی، تحقیق اور اس کے رازوں کو بے پردہ کرنے کی طاقت دے تو وہ کائنات میں رواں دواں ستاروں اور ان کی گردش سے پیدا ہونے والے دن رات کے علاوہ اپنی مرضی کے صبح و شام بھی پیدا کر سکتا ہے!
سائنس اور عشق دو مختلف مضامین ہیں مگر موضوعیت اور جذبہ کے اعتبار سے ان دونوں کی منزل لامکاں سے بھی آگے کی دنیا ہے۔ علامہ اقبال اپنی شاعری میں سائنس کو ادبی زبان میں پیش کرتے نظر آتی ہیں۔ نہ کائنات ختم ہو، نہ عشق کا جذبہ تھمے اور نہ ہی سائنس دان تحقیقات کرنے اور نتائج اخذ کرنے سے رکیں۔ دوسرے لفظوں میں سائنس اور عشق کائنات کی طرح لامحدود دنیائیں ہیں۔ سائنس کی یہ خوبی ہے کہ یہ نظریات، تجربات اور قوانین قائم کرتی ہے۔ آپ جہاز میں بیٹھ کر اُڑتے ہیں مگر جہاز محض آپ کو لے کر نہیں اُڑتا۔ کئی دہائیوں سے جو بھی جہاز میں بیٹھتا یے، جہاز اسے اُڑا کر اسکی منزل تک پہنچاتا ہے۔ جب آپ گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو گاڑی چلتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ گاڑی کسی نواب یا محض پیسے والے کے لئے چلی اور کسی اور کے لئے نہیں چلی۔ یہ کبھی نہیں نہیں ہوتا کہ درد کی دوائی سے محض آپ ٹھیک ہوئے ہیں اور کوئی دوسرا نہیں ہوا۔ حتی کہ سائنس کے نظریات پر مبنی ایجادات نے کیا امیر کیا غریب، کیا نوکر کیا مالک سب کو فائدہ پہنچایا کیونکہ سائنس بلاتفریق اور حقیقت پر مبنی علم ہے۔
تاریخ میں سائنس کی ترویج و اشاعت کا کام بھی سائنس دانوں کے حد درجہ عشق و جنون کی وجہ سے پروان چڑھا ہے اور چڑھ رہا ہے۔ جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے اسے تسلیم کرنا چایئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کائنات اپنے قوانین کسی خاص شخص یا گروہ کے لئے تبدیل کر دے۔ اس کی مثال یہ ہے آپ پہاڑ یا کسی اونچی عمارت سے چھلانگ لگائیں گے تو ہمیشہ نیچے ہی گریں گے، اگر آپ کی یہ خواہش ہو کہ نیچے گرنے کی بجائے آپ اوپر کی طرف جائیں تو ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ البتہ اس کی وجہ پر غور کرنا کہ چیزیں گرنے سے نیچے کیوں آتی ہیں یہ ایک تخلیقی سوچ ہے جس کی بنیاد پر نیوٹن نے سیب کو نیچے گرتے دیکھ کر "کشش ثقل” کا قانون دریافت کیا تھا۔ ہوا میں اڑنے کے لیئے پوری زمین کی گریوٹی کو ختم کرنا ہوتا ہے جسے ایجادات کے بغیر کلی طور پر ختم کرنا ایک ناممکن سا کام ہے کیونکہ ایسا ہو جائے تو پھر شاید آپ تو زمین پر نہیں گریں گے لیکن باقی زمین پر سب کچھ خلا میں اُڑ جائے گا، زمین سورج کے گرد مدار سے نکل جائے گی جبکہ کائنات کو اتنی آفت نہیں پڑی کہ وہ آپکی خواہش کے لئے یہ سب کچھ کر گزرے۔
عشق کے بغیر سائنس پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتی کہ سائنس دان بھی تجربات اور ایجادات کی دنیا میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ وہ دن دیکھتے ہیں نہ شام، انہیں کھانے کی پرواہ ہوتی ہے نہ تن کے کپڑوں کی، ہو سکتا ہے ان کے من میں کوئی اچھوتا سائنسی خیال آ جائے تو وہ ننگ دھڑن ہی لیبارٹری کی طرف دوڑ کھڑے ہوں۔ دیگر علوم کے مقابلے میں سائنس عجز و انکسار دکھاتی ہے۔ یہ کبھی بڑے بڑے دعوے نہیں کرتی، نہ دیومالائی داستانیں سناتی ہے کہ جن کا کوئی سر پیر نہ ہو، نہ یہ قصے کہانیاں سنا کر دل بہلاتی ہے۔ اس کی سادگی پر کون مر نہ جائے کہ جو اسکی دریافتوں، ایجادات اور نظریات کو جھوٹ سمجھتے ہیں وہ بھی اسکی بنائی ہوئی ایجادات استعمال کرتے ہیں یعنی سائنس کی اس سے بڑی فتح اور کیا ہو سکتی ہے؟
علامہ اقبال سائنس کے اس کمال کو عشق کی زبان میں پیش کرتے ہوئے شاعرانہ انداز میں فرماتے ہیں جس کی تعبیر یہ ہے کہ ممکن ہے انسان سائنس (اور دیگر علوم) کے بل بوتے پر ترقی کرتا کرتا ایک دن اس قابل بھی ہو جائے کہ وہ اس دنیا کے علاوہ ایک نئی دنیا قائم کر لے، جس کے صبح و شام بھی نئے ہوں!!
Title Image by Peter Dargatz from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔