اگلا وزیراعظم کون ہو گا، عمران خان یا بلاول بھٹو زرداری؟

اگلا وزیراعظم کون ہو گا، عمران خان یا بلاول بھٹو زرداری؟

dubai naama

اگلا وزیراعظم کون ہو گا، عمران خان یا بلاول بھٹو زرداری۔۔۔؟

مذاکرات کا تیسرا دور کسی بڑے بریک تھرو کے بغیر ختم ہو گیا۔ اگرچہ حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے پر اتفاق ہو گیا تھا مگر یہ طے نہیں کیا جا سکا تھا کہ یہ انتخابات کونسی تاریخ کو ہونگے؟ پی ٹی آئ کی طرف سے شاہ محمود قریشی اور حکومت کی طرف سے اسحاق ڈار دونوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکا کہ انتخابات کب ہونگے؟ مزاکرات کے ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئ ٹیم کے سربراہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا تھا کہ مزاکرات کے دوران انہوں نے جو آٹھ نکاتی ایجنڈا حکومتی ٹیم کو پیش کیا تھا اور جس میں واضح کیا گیا تھا کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات نہ کروانے کی صورت میں حکومت 14 مئی کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرے گی، اس سے حکومتی ٹیم نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ درحقیقت حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئ کے درمیان مزاکرات کا تیسرا دور ناکام ہو گیا ہے کیونکہ حکومتی ٹیم کے سربراہ اسحاق ڈار نے بھی اپنے بیان میں صرف اتنا کہا تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے پر اتفاق ہو گیا ہے اور حکومت پی ٹی آئی کے آٹھ نکات پر غور کرے گی، مگر انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی تھی کہ انتخابات کونسی تاریخ کو ہونگے؟

مزاکرات کا تیسرا دور ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئ کے سربراہ عمران خان اور سینئیر رہنما بابر اعوان نے بھی پریس کو جو بیانات جاری کیئے تھے ان کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی اگست یا ستمبر میں ایک ہی دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کو اسی صورت میں قبول کرنا چاہتی ہے جب قومی اور صوبائی اسمبلیاں اسی ماہ کے آخر تک توڑ کر 90 دن کے اندر اندر الیکشن کروانے کے لئے مرکز اور صوبوں میں عبوری حکومتیں قائم کی جائیں۔ اس روز بابر اعوان نے یہ بھی کہا تھا کہ عمران خان صاحب نے گزشتہ روز اپنے بیان میں جو کچھ کہا تھا وہ "ریڈ لائن” تھا۔ دوسرے لفظوں میں پی ٹی آئ فوری انتخابات کرانے کے اپنے اس موقف سے کسی بھی قیمت پر ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ذرائع کا بھی یہی کہنا یے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن سمیت 8 نکاتی تجاویز کا جو ڈرافٹ حکومتی ٹیم کے حوالے کیا تھا اس میں تجویز کیا گیا تھا کہ عیدالاضحیٰ اور محرم کے درمیان کے ایام میں انتخابات کروائے جائیں۔ چونکہ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا، لھذا اب امکان یہ ہے کہ پی ٹی آئ انتخابات کی اپنی شرائط اور مرضی کی تاریخ لینے کے لئے اب جہاں سپریم کورٹ کا زور شور سے دروازہ کھٹکھٹائے گی، وہاں وہ حکومت پر دباو’ بڑھانے کے لئے ملک بھر میں ریلیاں بھی نکال سکتی ہے اور وہ ‘دھرنہ’ دینے کے لئے اسلام آباد کا رخ بھی کر سکتی یے۔

عمران خان صاحب کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کی مہربانیوں کی وجہ سے جتنا ریلیف دیا ہے، عمران خان صاحب چاہیں گے کہ ستمبر 2023 میں موصوف چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے وہ اپنے یہ مقاصد حاصل کر لیں۔ فوج سے ماضی قریب میں جس طرح عمران خان صاحب ایک لحاظ سے نالاں رہے ہیں اور جس حد تک انہوں نے جنرل قمر جاوید باوجوہ پر بار بار الزامات لگائے ہیں، ممکن نہیں ہے کہ موجودہ آرمی چیف سید عاصم منیر ان پر اعتبار کرنے کے لئے تیار ہوں جبکہ ان کے دہرائے گئے بیانات سے بھی ظاہر ہوتا یے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ اگر آرمی اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے اور وہ عدلیہ کو بھی پیغام پہنچا کر سیاسی کردار ادا کرنے سے منع کر دیتی ہے (جس میں عدلیہ کو شہباز شریف کی توہین عدالت میں نااہلی اور وزیراعظمی سے اتارنے سےباز رکھنا بھی سرفہرست ہے) تو عمران خان کے پاس اپنی ‘ضد’ پوری کرنے کے لئے حکومت سے تصادم کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا۔

اگلا وزیراعظم کون ہو گا، عمران خان یا بلاول بھٹو زرداری؟

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اگر الیکشن مقررہ وقت پر ستمبر میں پی ڈی ایم کی مرضی کی مرکزی اور صوبائی عبوری حکومتوں کے زیر نگرانی ہوئے تو عمران خان کے لئے پی ڈی ایم اتحاد کو انتخابات میں شکست دینا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ حکومت اور خاص کر آصف علی زراداری کی پوری کوشش ہے کہ انتخابات ستمبر میں پی ڈی ایم حکومت ہی کی مرضی کی نگران حکومتوں کی زیرنگرانی ہوں تاکہ جیت کی صورت وہ اپنے بیٹے بلاول زرداری کو وزیراعظم بنوا سکیں۔ چونکہ ن لیگ اس اتحاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا چکی ہے (اور مریم نواز ابھی اس منزل سے دور ہیں) اور اب مرکز میں آئیندہ حکومت سازی کی باری پیپلزپارٹی کی ہے، تو وہ چاہے گی کہ وزارت عظمی کا اگلا سہرا بلاول بھٹو زرداری کے سر پر باندھا جائے۔ نواز شریف اپنی پوری کوشش کے باوجود ملک میں دوبارہ داخلے کی کلیرئنس حاصل نہیں کر سکے ہیں کیونکہ جب تک آئینی ترمیم کے زریعے میاں نواز شریف کو اپنی نااہلی ختم کروانے لے لئے اپیل کا حق نہیں ملتا وہ محض گرفتاری دینے کے لئے پاکستان نہیں آئیں گے۔ جبکہ بڑے میاں صاحب یعنی نواز شریف کی غیر موجودگی میں شہباز شریف میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ آصف علی زرداری کے ملک اور پیپلزپارٹی پارٹی کی پشت پر ہوتے ہوئے اگلے انتخابات میں وہ دوبارہ وزیراعظم بن سکیں۔ اب واضح طور پر اگلی وزارت عظمی کی جنگ عمران خان اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے۔ اس سارے گیم پلان کو توڑنے کے لئے عمران خان کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔ چونکہ عمران خان اس دفعہ دو تہائی اکثریت لے کر وزیراعظم بننے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔ لھذا وہ ستمبر سے پہلے پہلے انتخابات اپنی ‘مرضی’ اور اپنی ‘شرائط’ کے مطابق کرانے پر بضد ہیں۔ اس پس منظر میں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، بہرکیف واضح طور پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پرائمری سکول ملہووالہ!جلد سازی

جمعرات مئی 4 , 2023
کتابیں کی جلد سازی کا مناسب اہتمام نہیں تھا ۔نانا گتے کے بغیر صرف کاغذ اور گھر میں بچے ہوئے پرنٹڈ کپڑے سے خوبصورت بائنڈنگ کرتے تھے۔
پرائمری سکول ملہووالہ!جلد سازی

مزید دلچسپ تحریریں