تحریر محمد ذیشان بٹ
محمود غزنوی اسلامی تاریخ کے ان عظیم حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی زندگی شجاعت، بصیرت، علم دوستی اور حکمت عملی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو نوجوان نسل کے لیے ایک سبق آموز داستان ہے، لیکن بدقسمتی سے آج کے دور میں ان کے کارناموں کو اکثر فراموش یا متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے سیاستدان خواجہ آصف کے ایک بیان نے اس تنازع کو جنم دیا، جس میں انہوں نے محمود غزنوی کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر سوالات اٹھائے۔ خواجہ آصف کے اس بیان کو نہ صرف عوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ افغانستان کی حکومت اور مختلف علما نے بھی اسے مسترد کیا۔
یہ بیان محمود غزنوی جیسے تاریخی ہیرو کے بارے میں لاعلمی یا جان بوجھ کر ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ محمود غزنوی کے حملے صرف دولت لوٹنے کے لیے تھے اور وہ ایک فاتح سے زیادہ کچھ نہیں تھے، تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ان کے بیان پر مختلف علمی حلقوں اور عوام نے شدید ردعمل ظاہر کیا، اور کئی لوگوں نے خواجہ آصف کو اس معاملے پر اپنی لاعلمی پر غور کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے اس بیان کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید وہ ہندوستان کے نمائندے ہیں تب ہی انہوں نے اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا بیان دیا ہے۔ خواجہ صاحب کم از کم مشہور ہندو بھارتی اسکالر ارمیلا تھاپڑ کی تحقیق کو پڑھ لیں ۔ ان کے مطابق محمود کے اقدامات مذہبی تعصب کی بنیاد پر نہیں تھے بلکہ ان کا مقصد سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی تھا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں ان الزامات کو مسترد کیا ہے جو محمود پر مندروں کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے لگائے گئے تھے۔ ارمیلا تھاپڑ کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمود غزنوی ایک دور اندیش حکمران تھے، جن کے اقدامات کا مقصد اپنی ریاست کو مضبوط بنانا تھا۔
محمود غزنوی کی زندگی اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کے دور میں غزنی علم و ثقافت کا مرکز بن گیا تھا، جہاں علماء، شعرا اور مفکرین کا اجتماع ہوتا تھا۔ وہ نہ صرف ایک بہادر حکمران تھے بلکہ ایک اعلیٰ منتظم اور علم و حکمت کے سرپرست بھی تھے۔ علامہ اقبال نے محمود غزنوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی زندگی کو حق و صداقت کے لیے قربانی کی علامت قرار دیا۔ اقبال کے الفاظ محمود غزنوی کی عظمت کا اعتراف ہیں۔ اقبال نے کہا:
"ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے”
یہ شعر محمود غزنوی کی ان خصوصیات کو بیان کرتا ہے جنہوں نے انہیں تاریخ میں ایک نمایاں مقام دلایا۔ محمود غزنوی کی زندگی میں ایسے کئی اہم واقعات ہیں جنہوں نے انہیں اسلامی تاریخ کا ایک یادگار حکمران بنایا۔ وہ 998 عیسوی میں اپنے والد سبکتگین کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھے اور اپنی سلطنت کو ایک مضبوط ریاست میں تبدیل کیا۔ ان کے دور میں غزنی علم و ادب کا گہوارہ بن گیا۔ فردوسی نے اپنی مشہور کتاب "شاہنامہ” ان کے دربار میں مکمل کی، جبکہ البیرونی جیسے سائنسدان اور مؤرخ بھی ان کے دربار کا حصہ تھے۔
محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کیے، جن میں سب سے مشہور 1025 عیسوی میں سومنات کے مندر پر حملہ تھا۔ ان حملوں کا مقصد صرف دولت کا حصول نہیں تھا بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کا فروغ اور اس وقت کی سیاسی طاقتوں کو کمزور کرنا بھی تھا۔ محمود غزنوی کے بارے میں بھارتی محقق ارمیلا تھاپڑ کی تحقیق ایک اہم حوالہ ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں ان تمام الزامات کو رد کیا ہے جو محمود پر مندروں کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق محمود کے اقدامات سیاسی اور عسکری حکمت عملی پر مبنی تھے، نہ کہ مذہبی تعصب پر۔
علامہ اقبال نے محمود غزنوی کے مزار پر حاضری دی اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔ اقبال نے کہا تھا کہ یہ وہ مردِ مجاہد ہے جس نے اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر دی۔ اقبال کا یہ بیان ان کی شخصیت کی گہرائی اور ان کے کردار کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں محمود غزنوی کو اسلامی تاریخ کے ایک روشن کردار کے طور پر پیش کیا:
"شاہین کا جہاں اور ہے، کرگس کا جہاں اور
شاہین ہے بسیط افلاک میں راہگیر”
یہ شعر محمود غزنوی کی بے خوفی اور بلند نظری کو بیان کرتا ہے، جو انہیں ایک مثالی حکمران بناتا ہے۔
محمود غزنوی کی فتوحات نے برصغیر میں اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ ان کے دور میں مساجد اور مدارس کا قیام عمل میں آیا اور اسلامی تعلیمات کو فروغ ملا۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں اور حکمت عملی نے اسلامی سلطنت کو مضبوط بنایا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ ان کی شخصیت آج بھی مسلم دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
یہ انتہائی ضروری ہے کہ اساتذہ، علما اور محققین نئی نسل کو محمود غزنوی کی حقیقی شخصیت اور کارناموں سے آگاہ کریں۔ خواجہ آصف جیسے بیانات جو ان کی عظمت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہیں۔ محمود غزنوی کی زندگی ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ پر فخر کرنا چاہیے اور اسے صحیح انداز میں پیش کرنا چاہیے، تاکہ نئی نسل ان سے سبق حاصل کر سکے اور ایک روشن مستقبل کی تعمیر کر سکے۔
محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔