سیاسی بدتہذیبی کے فروغ کا ذمہ دار کون ہے؟
جمہوریت میں جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کسی ملک کی عوام کی ذہن سازی کرنے کا بدترین سیاسی ہتھیار ہے۔ عوام الناس کے اجتماعی دماغ سے کھیلنا اس سے بھی بڑا گھناونا اور مکروہ سیاسی کھیل ہے جس کے ذریعے عوام میں کچھ ایسی غلط اور بے بنیاد افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ جن کی بنیاد پر ایک طرف کا سیاست دان جھوٹا، مکار اور بدکردار اور دوسری طرف کا دھوکہ باز سیاستدان بھی عوام کو فرشتہ سیرت سیاسی رہنما نظر آنے لگتا ہے۔
ضیاءالحق کے بعد سنہ 1988ء میں بحالی جمہوریت کے دوران مخالف سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی کے لیئے الیکشن مہم میں پہلی بار یہ خطرناک سیاسی ہتھیار میاں محمد نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کیا تھا جب انہوں نے بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کی جعلی برہنہ تصاویر تیار کروا کر سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذریعےعوام پر پھینکوائی تھیں۔ جب یہاں بھی تسلی نہیں ہوئی تھی تو بے نظیر بھٹو کی شان میں ایک نعرہ مستانہ بلند کروایا تھا، جس کا پہلا مصرعہ "کوکا کولا پیپسی” تھا۔ دیوانگی پر مبنی اس نعرہ کا اگلا مصرعہ ایسا ہے کہ تقدیس قلم کی وجہ سے یہاں دہرانا مناسب نہیں ہے۔ ایسی غلیظ سیاست کو مسلم لیگ نون کے ایماء پر اور قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے بام عروج تک پہنچایا جب انہوں نے سارے جمہوری اور اخلاقی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس غیر پارلیمانی زبان کو زبان زد عام کیا۔ ایک طرف جمہوری سیاستدان سیاست کو خدمت سے تعبیر کرتے ہیں دوسری طرف وہ اسی کے ذریعے اپنے مخالف کی کردار کشی کرتے ہوئے جسم فروش عورت تک کا خطاب دینے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔
ایسی بدنما اور گندی سیاست کے منفی اثرات کا ایک ہلاکت خیز نتیجہ جہاں یکے بعد دیگرے سازش اور گٹھ جوڑ کے ذریعے ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرائے جانے کی شکل میں نکلتا رہا وہاں عوام کی اخلاقی اقدار کا معیار بھی گرتا چلا گیا۔ تب سے عام انتخابات کے بعد آج تک ہماری کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی معینہ 5سالہ مدت کی حکومت کرنے کا خواب پورا نہیں کر سکی ہے اور نہ ہی عوام کے اخلاق و کردار میں کوئی بہتری آئی یے۔ اس عرصہ میں صرف پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنی پہلی مدت میں 2008 سے 2013 تک صدارت کا عرصہ ضرور پورا کیا۔ وہ اس وقت تک پاکستان کی 66سالہ سیاسی تاریخ میں پہلے منتخب صدر تھے جنہوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد ایک اور جمہوری طریقے سے منتخب صدر کو یہ عہدہ سونپا۔ اس کے علاوہ سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ماڈل ٹاؤن میں جا کر ان سے بھی ہاتھ ملا لیا تھا جن کی والدہ کو نون لیگ کے جیالے سیاست دانوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر ایسے شرمناک الفاظ سے منسوب کیا تھا۔ ایسی گھٹیا اور نچلے درجے کی سیاست جمہوری گندگی کا ڈھیر نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن ہمارے جمہوریت پسند بزرجمہروں کا کمال ہے کہ وہ آج بھی جمہوری و سیاسی نظام حکومت ہی کو ملک کی نجات کا ذریعہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے آ رہے ہیں۔ یہ ایسی انتہائی شرمناک روایت ہے کہ 1988 کے بعد آج 36برس گزر جانے کے باوجود ہمارے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں نون لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اس پر قائم نظر آتی ہیں۔
یا تو ہمارے یہ سیاسی لیڈران جمہوری روایات اور اقدار پر کاربند رہتے اور ملک میں جمہوری اصولوں پر مشتمل شائستہ سیاست کو پنپنے دیتے اور یا پھر وہ جمہوریت کے مدمقابل کوئی متبادل نظام حکومت لے آتے تاکہ ملک میں یہ سیاسی لچر پن استوار نہ ہو سکتا اور نہ ہماری عوام الناس کی اخلاقیات پر اس کے منفی اثرات پڑتے۔ لیکن اب یہ آفت آن پڑی ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کا ایک میڈیا سیل ہے جس کا کام ہی سوشل میڈیا پر بیٹھ کر کردار کشی اور ایک دوسرے کو انتہائی غلیظ اور شرمناک گالیاں بکنا یے۔
چند دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا، ٹویٹر اور خاص طور پر "ٹک ٹاک” پر لائیو بیٹھ کر چند ملک دشمن افراد فوج کو بہت برے طریقے سے بدنام کر رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ ٹک ٹاکرز آرمی چیف کو نام لے لے کر اس قدر انتہائی گھٹیا اور بے ہودہ گالیاں دیتے ہیں کہ الحفیظ و الامان، اور ساتھ میں وہ خود کو محب وطن بھی ظاہر کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے مثبت پہلو اپنی جگہ، مگر ہمارے ہاں اس نے سیاسی کشیدگی اور یاوہ گوئی ہی کو فروغ دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پیجز سے باقاعدہ منافرت پر مبنی مواد شئیر کیا جاتا ہے، تو کئی ایک سیاست دانوں کے ذاتی اکاؤنٹس بھی معاشرتی و اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ ان اکاؤنٹس پر مخالفین سے متعلق اِس قدر بازاری زبان استعمال ہوتی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ سیاسی منفیت ہی ہماری قومی پہچان کیوں بنتی جا رہی ہے۔
اسی پس منظر میں حکومت نے کثیر بجٹ خرچ کر کے "فائر وال” کا بھی انتظام کیا مگر وہ بھی بے سود رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں وقفے وقفے سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس وجہ سے پاکستان کے کاروباری اور سماجی روابط میں بھی خلا پیدا ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز ایک جرمن خاتون سے ناشتے پر ملاقات تھی تو انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں ایک طرف سوشل میڈیا پر پابندی ہے دوسری طرف ٹک ٹاک پر گالم گلوچ کا بازار گرم ہے تو اس ماحول میں پاکستان میں کوئی تہذیب یافتہ غیر ملکی ادارہ سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ پاکستان کا یہ چہرہ ہماری ملکی ساکھ کو دنیا بھر میں بری طرح بدنام ہی نہیں کر رہا بلکہ خود ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی اقدار سے بھی محروم کر رہا ہے۔ اس ماحول میں ہماری نوجوان نسل یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں رائج یہ گالی گلوچ کا کلچر ہی ہمارے ملک کی اصل تہذیب ہے حالانکہ یہ سراسر سیاسی بدتہزیبی یے جو اپنے پھیلاو’ میں محض ہمارے جدید سیاست دانوں کی مرہون منت ہے۔
1993ء کے انتخابات میں جب جماعتِ اسلامی نے "اسلامی فرنٹ” کے نام سے کسی اتحاد میں شمولیت کے بغیر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، تو مسلم لیگ نون نے اُسے اپنے کے خلاف خطرہ سمجھ کر جماعتِ اسلامی اور اُس کے قائد، قاضی حسین احمد کے خلاف الزام تراشی پر مبنی مہم چلائی۔جن دنوں ذوالفقار علی بھٹّو کے خلاف سیاسی مہم چل رہی تھی، جس میں جماعتِ اسلامی کا بھی فعال کردار تھا، تو بھٹّو کے دست راست مولانا کوثر نیازی نے اپنے ایک رسالے کے سرورق پر مولانا ابو الاعلیٰ مودویؒ کی ایک ایسی تصویر چھاپی تھی، جس میں چہرہ تو اُن کا تھا، مگر دھڑ کسی طوائف کا لگایا گیا تھا۔
خود ذوالفقار علی بھٹو اپنے سیاسی مخالفین کو بُرا بھلا کہنے کے معاملے میں بے باکی سے کام لیتے تھے اور لوگوں کو ہنسانے کے لئے مخالف رہنماؤں کے نام بگاڑنا اُن کی عادت تھی۔ وہ جلسوں میں نواب زادہ نصراللہ خان کو "حقّہ ٹوپی”، ممتاز دولتانہ کو "چوہا”، اصغر خان کو "آلو خان”، چوہدری ظہور الٰہی کو "فٹ کانسٹیبل” اور خان عبدالقیوم خان کو "ڈبل بیرل خان” وغیرہ کہہ کر مذاق اُڑایا کرتے تھے۔
وہ ایّوب خان کی خوشنودی کے لئے محترمہ فاطمہ جناح پر بھی انتہائی ناشائستہ جملے کسا کرتے تھے، جبکہ خود ایّوب خان بھی اِس دوڑ میں پیچھے نہیں تھے کہ انہوں نے صدارتی انتخاب میں اپنی مخالف امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کی تصویر کو ایک جانور (کتیا) کے گلے میں لٹکوا کر گوجرانوالہ کے بازاروں میں گھموایا تھا۔
قدرت اللہ کے "شہاب نامہ” میں لیاقت علی خان کا اپنے سیاسی مخالف، حسین شہید سہروردی سے متعلق وہ جملہ شامل ہے، جس میں اُنھیں ایک جانور سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ایک دین داری کے دعوے دار ضیاء الحق بھی اپنے سیاسی مخالفین سے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ جب چاہیں گے، سیاست دان دُم ہلاتے ہوئے ان کے پاس چلے آئیں گے۔
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی تقاریر اور رہنماؤں کی اُس زمانے کی پریس کانفرنسز غیر مہذّب "ٹھوک دیں گے” جیسے جملوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن دنوں نون لیگ کی مولانا فضل الرحمٰن سے نہیں بنتی تھی خواجہ آصف اُنھیں ایوان میں "مولانا ڈیزل” کہا کرتے تھے۔ مخالفین کے لئے سیاسی جلسوں میں شرابی، عورتوں کا رسیا، گنوار، غنڈہ، یہودی ایجنٹ، مداری، شیدا ٹلی اور بلّو رانی جیسے القابات کا استعمال ہمارے سیاسی کلچر میں بہت عام رہا ہے۔
اِس سیاسی ماحول میں عمران خان اور اُن کی جماعت، تحریکِ انصاف داخل ہوئی، تو اُمید تھی کہ وہ اچھی سیاست پروان چڑھائیں گے کہ اُن کی جماعت میں پڑھے لکھے افراد کی تعداد کافی تھی، مگر اُنھوں نے بھی گالم گلوچ کی انت کر دی۔ سیاست کے گندے جوہڑ کو گندگی سے مکمل طور پر پُر کرنے کا آخری کارنامہ ان ہی کے ہاتھوں انجام پایا۔ عمران خان اپنی تقاریر میں مخالفین کے خلاف، جن میں منتخب وزیرِ اعظم بھی شامل تھے، ایسی زبان استعمال کرتے رہے، جس نے پہلے سے متعفّن سیاست کو مزید بدبودار کر دیا۔
مسلم لیگ نون کی قیادت اور کارکنان بھی اس حوالے سے کسی طرح کم نہ تھے اور انہوں نے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھا اور وہ گھروں میں بیٹھی خواتین کو بھی چوک اور چوراہوں پر گھسیٹ لائے۔ انہوں نے پہلے ریہام خان اور پھر بشریٰ بی بی کے خلاف بے ہودہ گوئی کے نئے ریکارڈ قائم کیئے۔
خواجہ آصف نے اپنی پرانی بے ہودہ اور فحش گالم گلوچ کے ریکارڈ کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ پی ٹی آئی کی رہنما، شیریں مزاری کو ایوان میں "ٹریکٹر ٹرالی” کہہ کر آگے بڑھایا۔ اگر پی ٹی آئی نے مُراد سعید، شہباز گل، شہزاد اکبر، فردوس عاشق اعوان اور فیّاض الحسن چوہان وغیرہ کو کُھلی چُھوٹ دی، تو نون لیگ نے رانا ثناء اللہ، دانیال عزیز اور طلال چوہدری وغیرہ کو آزاد چھوڑ دیا کہ وہ جس طرح چاہیں ایک دوسرے کی گندگی کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے سامنے ٹی وی ٹاک شوز اور ایوانوں میں کھڑے ہو کر ننگا کریں۔
اِس دوران ٹاک شوز باقاعدہ مچھلی بازار کا منظر پیش کرتے رہے ہیں، مگر بعد میں یہ روز کا معمول بن گیا، جب ایک ٹاک شو میں حکمران جماعت کی رہنما اور معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، پنجاب، فردوس عاشق اعوان نے دَورانِ بحث طیش میں آ کر پیپلز پارٹی کے نومنتخب رُکن قومی اسمبلی، قادر خان مندوخیل کو زوردار تھپڑ دے مارا۔ مزید برآں اس سیاسی لچر پن کے فروغ میں قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں منتخب اور معزز ارکان کی باقاعدہ پانی پت کی طرح کی دو بدو لڑائیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس میں منتخب معزز اراکین اسمبلی نے ایک دوسرے کو گندی گالیاں دیں، جوتے پھینکے، گتھم گتھا ہوئے اور ایک دوسرے کو زخمی بھی کیا۔
اِس مختصر سے تاریخی جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر بے ہودگی اور بے توقیری کی کس انتہا کو پہنچ چکا ہے اور نوجوان نسل میں مزید فروغ پا رہا ہے۔ یہاں تک سنا ہے کہ وزیر اعلی کے دفتر میں روزانہ مخصوص پارٹی رہنماؤں کا اجلاس ہوتا ہے اور جس نے اسمبلی یا ٹاک شوز وغیرہ میں مخالف کے زیادہ لتّے لیے ہوں، وہ اُس کی حوصلہ افزائی کے لئے باقاعدہ تالیاں بجتی ہیں۔ اس کی نمایاں مثال یہ بھی ہے کہ ہم اپنی ٹی وی اسکرینز پر اسمبلیوں کے اجلاسوں کی کارروائی میں خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کسی پارٹی کا کوئی رُکن مخالفین پر زیادہ بدتمیزی سے گرج رہا ہوتا ہے اور اُس کے منہ سے جھاگ کے ساتھ ناشائستہ جملے بھی نکل رہے ہوتے ہیں، تو اجلاس میں موجود پارٹی قیادت اُسے روکنے کی بجائے، اُس کی باتوں سے لُطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے۔
شائد ہمارے سیاست دان غیر پارلیمانی زبان کو ہی پارلیمانی زبان سمجھتے ہیں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اب ہمارے ہاں گندی زبان کے استعمال کو عوامی طور پر پارلیمانی زبان کہا جانے لگا ہے۔ ایسے بدتہزیب منتخب اراکین کو معزّز ارکانِ اسمبلی کہنا کسی گناہ سے کم نہیں ہے جو اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو فحش گالیاں دیتے ہیں، تھپّڑ مارتے ہیں اور ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کر کے ایوان کو مچھلی مارکیٹ بنا دیتے ہیں۔ یہ تماشا پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بارہا لگ چکا ہے.
اس وقت بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان حکومت کی تحویل میں ہیں اور جیل میں ہیں۔ اس کے باوجود نون لیگی رہنما ان پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہیں جیل میں چرس اور کوکین وغیرہ فراہم کی جاتی ہے۔ یہ عجب کردار کشی ہے کہ حکومت بھی نون لیگ کی ہے اور جیل کا عملہ بھی حکومت کے زیرنگرانی کام کرتا ہے مگر ڈرگز کی فراہمی اور استعمال کا الزام پی ٹی آئی اور عمران خان پر لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح دوغلی اور دو طرفہ الزام تراشیوں کو روکا نہ گیا تو ہماری آئیندہ نسل سے کسی قسم کی تہذیب کی توقع رکھنا عبث ہو گا۔
شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ جب لشکر کا سپہ سالار کسی باغ سے ایک پھل توڑے گا تو باقی لشکری پورے باغ کی جڑیں بھی اکھاڑ لیں گے۔ برائی ہمیشہ اوپر سے نیچے سفر کرتی ہے۔ جیسے ہمارے بچے ہم سے اچھے اطوار یا بدتمیزی سیکھتے ہیں اسی طرح عوام الناس اپنے سیاسی لیڈروں سے سماجی رویئے سیکھتے ہیں۔ ہم جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں ان کا فرمان ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اخلاق و اطوار انسانی تہذیب کی بنیاد ہیں۔ لھذا منتخب ارکان اسمبلی کو چایئے کہ وہ ملکی قیادت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی گفتار و کردار میں اعلی انسانی تہذیب کا مظاہرہ کرنا سیکھیں۔ ہمیں جاننا چایئے کہ اس سیاسی بدتہذیبی کا فروغ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے۔
Title Image by Enrique Meseguer from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔