تحقیق و تحریر :سیّدزادہ سخاوت بخاری
امریکہ میں کالا منتخب ہو یا چٹا ، اس سے ہماری سیاسی صحت پر کوئی اثر اس لئے نہیں پڑتا کہ امریکی قوم نے کم و بیش 3 سو سال کا سفر طے کرنےکے بعد ایک ہی بات سمجھی اور وہ یہ کہ ، ” ہمارا فائدہ کس بات میں ہے ” ان کی دوستی اور دشمنی اسی ایک اصول کے گرد گھومتی ہے ۔ ان کے لئے کوئی فرد ، ملک ، قومیں ، علاقے اور مذھب قطعا کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ ان کی مثال درختوں پر اچھل کود کرنے والے گلہری نماء جانور ” گرگٹ ” کی سی ہے ، جو جس رنگ کی شاخ یا پتے پر بیٹھے ، ویسا ہی رنگ اختیار کرلیتا ہے اور رنگ بدلنے میں ماھر سمجھا جاتا ہے ۔
امریکی قوم سیاسی گرگٹ ہے ۔ یہ وقت ، حالات اور ذاتی مفاد کی خاطر ہمہ دم رنگ بدلتے رھتے ہیں ۔ ان کی دوستی اور دشمنی ، بلکہ ہر رویہ ، اصولوں کی بجائے ہمیشہ ان کے قومی مفادات کے تحفظ کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ ان سے خیر کی توقع اسی وقت تک رکھیں کہ جبتک آپ اس سے پچاس گنا زیادہ خیر ان کی جھولی میں ڈالنے کی توفیق رکھتے ہوں ورنہ یہ کسی سے ھاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں ہوتے ۔
اس ضمن میں چند مثالیں موجود ہیں ، مثلا کسی زمانے میں ایران اس لئے ان کا چہیتا ملک تھا ، کہ مرحوم شاہ ایران ، رضا شاہ پہلوی ان کی خاطر ، عرب شیخوں کو ڈرانے کے لئے بالے گجر کا کردار ادا کررھا تھا لیکن جوں ہی اس کا ٹہکا ختم ہوا اور امام خمینی آئے ، ایران دھشت گرد ملک قرار دے دیا گیا ۔ اسی طرح سوویت یونین کے زمانے میں پاکستان ان کے لئے بڑا اچھا اور معتدل مزاج ملک تھا لیکن جیسے ہی کمیونسٹ ریاست کا شیرازہ بکھرا ، دشمن سے جان چھوٹی ، پاکستان دھشت گرد اور ھندوستان دوست قرار پایا ۔ قصہ مختصر وہاں کے سنگھاسن پر ڈونالڈ ٹرمپ بیٹھا ہو یا جوئی بائیڈن ، ہمیں خوش ہونا چاھئیے نہ خفا ، کیونکہ اس کرسی کا تقاضا ہے کہ صرف اور صرف امریکی قوم کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کی سیاست کا محور دنیاء پر امریکی چودھراھٹ برقرار رکھنا اور اسلحہ بیچ کر پیسے کمانے کے سواء کچھ نہیں ۔ وہ دو ملکوں کو لڑاکر اسلحہ بیچتے ہیں اور پھر چودھری بن کر ایسی صلح کراتے ہیں جسے دوستی کہا جاسکے اور نہ دشمنی بلکہ صلح کے اس معائدے سے مسلسل چنگاریاں پھوٹتی رہیں ۔
یہ بھی یاد رکھیں امریکی سیاست ہمارے ھاں کی طرح مخصوص خاندانوں میں نہیں گھومتی کہ ماں یا باپ کی وصیت یا خواھش پر نسل در نسل اسی ایک گھر سے سیاست دان جنم لیتے رہیں اور زندہ ہے فلاں زندہ ہے کے نعریں سننے کو ملیں ۔ وھاں کا صدر اگرچہ بااختیار ہوتا ہے لیکن اگر ان کے قومی مزاج اور معیار پر پورا نہ اترے یا ٹرمپ کی طرح آنٹ شانٹ مارنا شروع کردے تو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے ۔
اگرچہ آج کا مضمون بائیڈن اور کملا کے تعارف کے لئے لکھنا شروع کیا تھا لیکن اپنی قوم کو یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے لئے کالا اور چٹا دونوں برابر ہیں ۔ بلاوجہ خوش ہونے یا ماتم کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ دنیاء کے موجودہ حالات میں امریکہ چین کشمکش ہی اس وقت سب سے بڑا سیاسی مسئلہ ہے اور اس میں کسی بنیادی بدلاو کا امکان نظر نہیں آتا ۔ مستقبل کی امریکی سیاست میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں بناو سنگھار کی خاطر نظر آسکتی ہیں لیکن پاکستان اور عالم اسلام کے لئے بحیثیت مجموعی کسی بڑی خوشخبری کی توقع رکھنا سادگی ہوگی ۔ بلکہ مجھے تو بعض اسلامی ملکوں کے لئے کڑا وقت آتا نظر آرھا ہے ۔ اگر میرا یہ قیاس غلط ثابت ہوا تو یہ بات کسی معجزے یا کرشمے سے کم نہ ہوگی ۔ انتخابی تقریروں اور نعروں کا امریکہ کی بنیادی عالمی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ منتخب ہونیوالا صدر جب پہلے دن اپنے اوول آفس آتا ہے تو ناشتے پر سی آئی اے اور پینٹاگان کے ڈائریکٹرز اسے بریف کرتے ہیں کہ اب آپ کو کرنا کیا ہے ۔ بہ ظاھر دنیاء کا طاقتور ترین انسان ، آئینی ، قانونی اور سماجی بندھنوں میں اسقدر جکڑا ہوتا ہے کہ بعض اوقات کم زور ترین نظر آنے لگ جاتا ہے ۔ وجہ وہی کہ اس کی ذاتی پسند نا پسند کچھ معنےنہیں رکھتی بلکہ ، ” امریکہ سب سے پہلے ”
ائیے اب اس کالی چٹی جوڑی کا تعارف بھی کرادوں ۔ کالی اس لئے کہا کہ نائب صدر منتخب ہونیوالی محترمہ کملا حارس کی ماں شیاما گوپالن کا تعلق بھارتی ریاست تامل ناڈو یا مدراس سے تھا ۔ وہ حصول تعلیم کے لئے 1958 میں امریکہ گئی اور وھاں ویسٹ انڈیز یا جزائر غرب الھند کی ریاست جمیکا کے ایک شخص ڈونالڈ جے حارس سے شادی کرلی ۔ اس طرح کملا کے ماں اور باپ دونوں غیر سفید فام اور مہاجر تھے ۔ ان کے ھاں 1964 میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام ماں نے کنولا رکھا یعنی کنول کا پھول ، جسے انگریزی میں ( Lotus ) کہتے ہیں ۔ یاد رہے کنولا کی ماں پروفیسر تھی اس نے سوچ سمجھ کر یہ نام رکھا کیونکہ ایک تو بھارتی معاشرے سے جڑا ہوا ہے دوسرا یہ کہ کنول ہمیشہ پانی کے تالابوں میں اگتا اور پانی ہی میں تیرتا رھتا ہے ۔ اتفاق سے کنول کا پھول ، بھاتیہ جنتا پارٹی یا بی جے
پی کا اسی طرح سے علامتی نشان ہے جیسے کہ میاں صاحب کا شیر اور خان صاحب کا بلا ۔
پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ریاست کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل بننے والی اس خاتون نے ایک طلاق یافتہ یہودی سے شادی کی اور ترقی کی مناذل طے کرتے ہوئے امریکہ کی نائب صدر بن گئی ۔ امریکی سیاست کی تاریخ کے مطابق یہ پہلی ، خاتون ، غیر سفید فام اور مہاجر نائب صدر ہوگی یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی خاتون اور وہ بھی غیر سفید فام اور مہاجر ہونے کے باوجود اس عھدے تک پہنچی ہو ۔ قارئین ، یہی خوبی امریکی معاشرے اور سیاسی کلچر کو دنیاء بھر میں ممتاز مقام عطاء کرتی ہے ۔ اس سوسائیٹی میں لاکھ برائیاں سہی لیکن بعض خوبیاں ایسی بھی ہیں جو کہیں اور کم ہی پائی جاتی ہونگی اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے ۔
اب ان صاحب کا ذکر ہوجائے جو کنولا رانی کو نائب صدارت کے عھدے تک لیکر آئے ۔ ان کا پورا نام ہے جوزف روبینیٹ بائیڈن جونئیر اور عمر 77 برس ہے کیونکہ یہ صاحب 20 نومبر 1942 کو ریاست پنسلوینیا کے شھر اسکرینٹن میں پیدا ہوئے ۔ ان کی والدہ کا تعلق آئرلینڈ سے اور والد کا خاندان آئرلینڈ ، برطانیہ اور فرانس کا ملغوبہ ہے ۔ پیشے کے اعتبار سے یہ بھی وکیل ہیں ۔ باپ تیل بیچنے کا کاروبار کرتا تھا اس میں گھاٹا ہوا تو بچوں کو لیکر سسرال یا بائیڈن کے ننھیال چلے گئے ۔ چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم رہے ۔ دوبارہ سیکنڈ ھینڈ گاڑیوں کا کاروبار کرکے بچوں کی تعلیم مکمل کی ۔ بائیڈن کی ایک بہن اور دو بھائی تھے ۔ تعلیم مکمل کرکے ضلع کچہری میں وکالت شروع کردی ۔ ترقی کرتے کرتے ڈسٹرکٹ اٹارنی بنے اور پھر ڈیموکریٹک پارٹی میں چھلانگ لگاکر سیاست دان بن گئے ۔ پہلی بیوی نائلہ سے تین بچے ہیں جس کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا اور پھر دوسری شادی کرنا پڑی جو ابتک ان کی شریکہ حیات ہے ۔ یہ صاحب 6 مرتبہ سینیٹر بنے اور سابق صدر بارک اوباما کے ساتھ نائب صدر رہے ۔ اب صدارتی الیکشن جیت کر 20 جنوری2021 کو امریکی صدر کے عھدے کا حلف اٹھائینگے ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست اعلی، اٹک e میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔