عالمی اقدار کا تازیانہ
گزشتہ روز امریکیوں نے عالمی سطح پر غزہ کے فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا اہتمام کیا جس کی وجہ سے امریکہ میں زیادہ تر اسلامک سنٹرز، تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند رہے اور اس بار ایک سروے کے مطابق 65فیصد امریکیوں نے جنگ بندی اور فلسطین کی مکمل آزادی کے حق میں رائے دی۔
فلسطین کے ساتھ اس اظہار یکجہتی اور ہڑتال میں قطر، کویت، بحرین اور دیگر عرب سٹیٹس نے بھی حصہ لیا اور بارش کے باوجود لندن میں لاکھوں افراد ایک بار پھر فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرنے کے لیئے سڑکوں پر نکل آئے۔
لیکن عین اسی روز صہیونی جنگی طیاروں نے وحشیانہ بمباری سے 300 فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جس دوران 650سال پرانی مسجد العمری بھی شہید ہو گئ۔ اس سے ایک روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی ووٹنگ ہوئی جس کے حق میں 15 کے مقابلے میں 13 ووٹ کاسٹ ہوئے (برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا) مگر اس قرار داد کو امریکہ نے ویٹو پاور کے ذریعے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ اسرائیل کو ایک معاہدے کے تحت جنگ جاری رکھنے کے لیئے ٹینکوں کے مزید 45ہزار گولے فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ شرمناک حد تک ووٹنگ والے دن بھی اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری جاری رہی جس میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے جس میں اب تک فلسطینی شہادتوں کی تعداد 18ہزار اور زخمیوں کی تعداد 48ہزار کو کراس کر گئی ہے جس میں 70فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
غزہ کی 41کلومیٹر لمبی اور 10کلومیٹر چوڑی گنجان آباد پٹی قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہے، سکولز، ہسپتالز اور عبادت گاہیں ملیا میٹ کر دی گئی ہیں، 80فیصد گھر تباہ ہو چکے ہیں جس وجہ سے غزہ میں 23لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہیں، انفراسٹرکچر برباد ہو گیا ہے، پانی اور خوراک کی شدید قلت ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق وہاں انسانی بحران کا شدید ترین خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
اسی روز غیر متوقع طور پر ہوسٹن میں شیلا جیکسن لی جو پرو یہودی تھیں اور جس نے اسرائیل کے حق میں بیان دیا تھا وہ اسرائیل کے خلاف امریکیوں کی نفرت کی وجہ سے مئیرشپ کا الیکشن ہار گئیں۔
اسرائیل کے خلاف امریکی عوام، اہل مغرب اور مسلم ممالک کا یہ احتجاج بجا مگر چار روزہ جنگ بندی کے بعد جس طرح فلسطینی مسلمانوں کے کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں، یہ احتجاج اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔
اندازہ کریں کہ جس روز صہیونی خونخواروں نے 300 فلسطینی قتل کیئے اس دن 2افسروں سمیت صرف 5اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے یعنی صہیونی اسرائیلیوں نے 1 کے بدلے میں 60 مسلمانوں کو قتل کیا۔
یہ کوئی ڈراو’نی فلم نہیں جس کا اوپر آپ نے سین پڑھا اور دیکھا ہے بلکہ 29 نومبر کو دنیا سے رخصت ہونے والے سابقہ یہودی نژاد امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا خواب ہے جسے اس جنگ میں اسرائیل پورا کر رہا ہے، جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ، "مسلمان سانپ ہیں جنہیں بلوں سے نکال نکال کر قتل کیا جانا چایئے”۔
یہ منافقت بھی نہیں ہے کہ جس کو عالمی معیار کی انسانی اقدار پر پرکھا جا سکے کیونکہ ترقی یافتہ دنیا کا اصل چہرہ ہی یہی ہے کہ جس ہینری کسنجر نے "نیو ورلڈ آرڈر” ترتیب دیا تھا اور جنہوں نے مسلم دنیا کے بارے نفرت، جنگ و جدل اور انسانی خونریزی کی بنیاد پر یہ الفاظ کہے تو اسے "امن” کا نوبل پرائز دیا گیا تھا۔
یا پھر طاقت ایک ایسا اندھا نشہ ہے کہ انسانیت یا اقدار جائے بھاڑ میں، دنیا کو صرف اسرائیلی مرتے نظر آتے، فلسطینی نظر ہی نہیں آتے۔
دور حاضر کے یزیدوں، چنگیزوں، ہلاکو خانوں اور ہٹلروں کو چھوڑیں انسانی تاریخ کے اس مرد ناحق کا ایک اور قول ملاحظہ کریں جس میں لیٹ ہینری کسنجر فرماتے ہیں:
"طاقت کا نشہ قوت مردانہ سے زیادہ سکون آور یے”۔
Title Image by Freepik
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔