محبتوں کے ہر ایک قصے کے ہم نشاں تھے تو تم کہاں تھے
ہمارے چرچے ہر اک زباں پر رواں دواں تھے تو تم کہاں تھے
وفا کے وعدے کئے جو تم نے وہ آج تم کو ہیں یاد آئے
لگی تھیں جب ہم پہ تہمتیں کتنے بیکراں تھے تو تم کہاں تھے
چڑھا کے ہم کو وفا کی سُولی پہ شہر سارا ہی ہنس رہا تھا
کہ پتھروں کی برستی بارش میں بےنشاں تھے تو تم کہاں تھے
وہ اب تلک دکھ ہیں ساتھ میرے جو مانگتے تھے تری محبت
پڑی ضرورت تھی تیری جب تو نہ تم یہاں تھے تو تم کہاں تھے
یہ میرے بالوں میں پھیلی چاندی دلا رہی ہے وہ یادِ ماضی
تھا عزم اپنے شباب پر جذبے بھی جواں تھے تو تم کہاں تھے
ہے کتنا آسان پھر مکر جانا کر کے وعدے وہ بےرخی سے
شریک سارے ہمی پہ جب کتنے خوش نگاں تھے تو تم کہاں تھے
یہ میرے لہجے کی تلخیاں بے سبب تو پھیلیں نہیں اسؔد ہیں
خزاں رتوں میں جب اشک میرے ہوئے رواں تھے تو تم کہاں تھے
عمران اسدؔ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔