ڈاکٹر سارہ قریشی کا تمغہ امتیاز کدھر گیا؟
اس بار بھی 23 مارچ سنہ 2024ء کے موقع پر دیئے جانے والے تمغہ امتیازات میں کوئی سائنس دان، ماہر تعلیم، انجیئر یا ڈاکٹر وغیرہ شامل نہیں تھا۔ اس دفعہ بھی انہی افراد کو ایوارڈز دیئے گئے جن کی عمومی سفارشات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے موصول ہوئیں۔ اس موضوع پر 4 اگست سنہ 2023ء کو دیئے جانے ایوارڈز کے بارے 19 اگست سنہ 2023ء کو بھی "مرحومین کے لیئے سول اعزازات کا میلہ” کے عنوان سے ایک اظہاریہ لکھا تھا، جس میں یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایوارڈز کی تقسیم میں قومی ترقی کی ترجیحات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے جن کا کام وقت کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مثالی کارکردگی تو کوئی بھی شخص دے سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا قوم کی مجموعی ترقی کو مہمیز دینے میں کیا کردار یا رول ہو سکتا ہے۔ کہنے کو تو مذہب، سیاست یا فنون لطیفہ میں اعلی کارکردگی پر کسی بھی شخصیت کی غیرمعمولی کارکردگی پر ایورڈ دیا جا سکتا ہے۔ ایک مصنف ہی کی مثال لے لیں وہ کسی موضوع پر پچاس یا سو کتابیں لکھتا ہے تو اس کو بھی تمغہ امتیاز دیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوچنے اور تحقیق کرنے کا سوال یہ ہے کہ اس نے اپنی کتابوں میں لکھا کیا ہے؟ بعض اوقات بظاہر ایک عام اور معمولی سا کام بہت سے ہزاروں اہم کاموں پر بھاری ہوتا ہے۔ ہم ایک روایتی معاشرے کی عوام ہیں۔ جب تک ہم ایک قوم نہیں بنتے یا ہمارا "مائنڈ سیٹ” بدلنے والے گواہر نایاب افراد کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے تب تک بحیثیت قوم ہمارے ترقی کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
ایک ترقی پسند بنیاد پرستی ہوتی ہے۔ یہ ایک قسم کی اجتماعی جہالت ہے۔ اس میں آپ ترقی کرنے کے ایسے پرانے اور آزمودہ نسخے آزماتے ہیں جن کا نتیجہ تنزلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ آپ کا عمل جدید بیانیہ سے خالی ہے تو یہ جسمانی مشقت کے سوا کچھ نہیں۔ ترقی کرنے کے لیئے نئے انداز اور طریقے اپنانا ضروری ہوتا ہے۔ آپ ایک عمل بار بار ایک ہی انداز کے ساتھ دہراتے ہیں اور اس کا ہر بار وہی نتیجہ نکلتا ہے تو اس عمل میں آپ ترقی نہیں کرتے ہیں بلکہ آپ "بنیاد پرستی” کے ذریعے اس عقیدے کے قائل ہو جاتے ہیں کہ آپ ترقی کر رہے ہیں مگر آپ درحقیقت ترقی نہیں کر رہے ہوتے۔
ہر سال ایوراڈز کی یہ رسمی تقریبات اس بنیاد پرستانہ سوچ پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ کالم میں احقر نے یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایورڈز حاصل کرنے والوں میں اکثریت "مرحومین” کی تھی۔ صدر مملکت ایورڈز کی تقسیم میں ڈمی صدر کا رول ادا کرتے ہیں۔ شائد وہ کبھی کسی ایوراڈ کی سفارش کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس سے غرض ہوتی ہے کہ وہ جس کے گلے میں ایوراڈ پہنا رہے ہیں اس کا زندہ معاشرے کی جدید ترقی میں کوئی نمایاں کردار ہے بھی یا نہیں۔
اس مد میں ایک شدید کوتاہی یہ کی جاتی ہے کہ سائنس اینڈ ریسرچ اور ٹیکنالوجی کو غیر ضروری حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں سائنسی سوچ اور فکر رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ انہی غیرمعمولی ناموں میں ایک نام پاکستان کی خاتون ایروناٹیکل انجینئر ڈاکٹر سارہ قریشی ہیں۔ انہوں نے جہاز کا ایک ایسا انجن بنایا جو فضائی آلودگی کو کم کرتا ہے۔ آپ نے آسمان پر ہوائی جہاز کو اڑتے دیکھا ہو گا، جو اپنے پیچھے ایک سفید لکیر چھوڑتا ہے۔ اس لکیر کو "کونٹریلز” (contrails) کہا جاتا ہے۔ جب کسی انجن میں کسی قسم کا ایندھن جلتا ہے تو اس میں دو چیزیں فاسد مادوں کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک کاربن ڈائی آکسائڈ اور دوسرے پانی کے بخارات۔ جہاز کے انجن میں بھی یہ پانی کے بخارات اور کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا ہوتی ہیں جو جہاز اپنے انجن سے باہر خارج کر دیتا ہے جس سے شدید قسم کی خطرناک فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے جسے عموما "گلوبل وارمنگ” کہتے ہیں۔
ڈاکٹر سارہ قریشی کی اس ایجاد کا کمال یہ ہے کہ اس سے قبل دنیا کے کسی سائنس دان نے جہازوں کا ایسا کوئی انجن ایجاد نہیں کیا تھا جو اس گلوبل وارمنگ سے زمین پر بسنے والے انسانی معاشرے کو اس مہلک گلوبل وارمنگ سے نجات دلا سکے۔ سارہ قریشی کی اس کامیابی کا کریڈٹ ان کے والد کو بھی جاتا ہے، جو خود ایک ماہر فزکس ہیں اور دونوں باپ بیٹی نے مل کر ایک کمپنی بھی بنائ ہے جس سے وہ اپنی ایجاد کو دنیا میں پہنچا رہے ہیں۔
ڈاکٹر سارہ کو 22 سے زیادہ ملکی اور غیرملکی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ مگر شاید ان کی کامیابی اتنی مشہور نہیں ہے کہ انہیں صدارتی تمغہ امتیاز سے بھی نوازا جاتا۔
23 مارچ کو ایک اداکارہ کو "تمغہ امتیاز” وصول کرتے دیکھا تو حسرت ہوئی کہ ہماری ترجیحات میں جدید دور کے علمی تقاضوں کے مطابق ابھی تک ترقی کرنے کا کوئی خواب شامل نہیں ہے۔ اس اداکارہ کے لاکھوں فالورز ہیں۔ خیر مجھے اس اداکارہ کے تمغہ امتیاز سے بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن میرے خیال میں98 ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے کہ ہم ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں آگے لائیں جو عہد حاضر کی ضرورتوں اور تقاضوں کے
مطابق دوسروں کی سوچ و فکر پر بھی اثرانداز ہو سکیں۔
Title Image by ArtActiveArt from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔