تحریر : سیدزادہ سخاوت بخاری
تاریخ کا یہ جبر ہے کہ ، وہ جو ہے سو ہے ، آپ یا میں اسے بدل نہیں سکتے البتہ اسے بیان کرتے ہوئے ، اس کی تصویر کشی کے دوران اس کے بعض حصوں کو اپنی پسند کے رنگوں میں رنگ سکتے ہیں ۔ مورخ یا قلمکار جس قدر چاہے ڈنڈی مار لے لیکن بنیادی حقائق کو بدلنا ممکن نہیں ہوتا ۔ مثلا ایوب خان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے مارشل لاء لگاکر جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اتارا اور آمریت کی بنیاد رکھی ۔ جی ہاں ، یہ بات آدھی درست ہے ۔ مارشل لاء نافذ ہوا اور ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے ، صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم فیروز خان نون کو رخصت کردیا گیا لیکن یہ کہنا کہ مارشل لاء ایوب خان نے لگایا ، سراسر الزام ہے ۔ مارشل لاء اس وقت کے صدر پاکستان جناب اسکندر مرزا نے اپنے حکم سے لگاکر پاک فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا لھذا ریکارڈ درست کرلیں مارشل لاء ایوب خان نے نہیں لگایا ۔ البتہ اگر آپ خود کسی کو تخت پر بٹھاکر شور مچانا شروع کردیں کہ یہ شخص تخت سے اتر نہیں رہا ، تو اسے کیا نام دیا جائے ۔ اقتدار چیز ہی ایسی ہے ۔ ایک مرتبہ ہاتھ آجائے ، کون خوشی سے چھوڑتا ہے ۔
تاریخ ہند میں جس بادشاہ کو نہایت دیندار اور متقی گردانا جاتا ہے اور جس کے بارے میں یہ بھی مشہور کردیا گیا کہ وہ ٹوپیاں بُن کر روزی کماتا تھا ، اس اورنگ زیب عالمگیر نے محض اقتدار کی خاطر اپنے باپ شاہ جہاں کی آنکھیں نکلواکر آگرہ کی ایک کوٹھڑی میں نظر بند کردیا تھا اور اکثر کہتے سنا گیا کہ میرے باپ کے سر سے ابھی تک بادشاہت کا بھوت نہیں اترا ۔ یہی نہیں بلکہ اپنے بھائیوں داراشکوہ اور مراد کو قتل کرادیا تاکہ وہ بغیر شرکت غیرے ہندوستان پہ حکومت کرسکے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو پہلے ، چیتھڑے پہنائے اور ایک خارش زدہ ہتھنی پر بٹھاکر دلی کی گلیوں میں گھمایا ۔ اس کے بعد قتل کرکے اس کا سر ایک کھمبے پر لٹکادیا ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار ایک ایسا نشہ ہے جو بڑے بڑے پارساؤں کو اندھا کردیتا ہے ۔ جب آپ نے خود مارشل لاء کی لاٹھی ایوب خان کے ہاتھ میں دیدی تو گلہ اور شکوہ کیسا ۔ رہی یہ بات کہ اس نے جمہوریت کو پٹری سے اتار دیا اور آمریت کی بنیاد رکھی ، تو عرض ہے کہ جمہوریت تھی کہاں جو اس نے پٹری سے اتاری ؟ ایوب خان تو 1958 میں منظرعام پر آیا جبکہ 1951 میں آپ پہلے منتخب وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قتل کرکے کراچی میں دفن کرچکے تھے ۔ یہاں یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا انہیں کسی فوجی نے قتل کیا تھا ؟ آگے بڑھئیے ، لیاقت علی خان کو ، سید اکبر نامی افغانی نے گولی ماری اور وہ شہید ہوگئے لیکن ان کے بعد کیا ہوا ۔ اوپر تلے 5 وزراء اعظم ،
1. خواجہ ناظم الدین ۔
2. محمد علی بوگرہ
3. چودھری محمد علی
4. حسین شہید سھروردی
5. اسماعیل ابراھیم چندریگر
ان سب کو کس نے اور کیوں گھر بھیجا ؟
کیا یہی وہ جمہوری ناٹک نہ تھا جسے آپ جمہوریت کہتے اور اس کے پٹری سے اترنے کا الزام ایوب خان کو دیتے ہیں ؟
تاریخ کو درست کیجئے ، کیوں نئی نسل کو گمراہ کررہے ہیں ۔ کوئی جمہوریت نہیں تھی بلکہ چوھے اور بلی کا کھیل کھیلا جارہا تھا کہ ایوب خان ڈنڈا لیکر آئے اور ملک کو استحکام کی راہ پر ڈالا ۔
میری اس تحریر کو ایوب خان کا قصیدہ نہ سمجھا جائے ۔ میں انہیں فرشتہ یا کوئی ولی اللہ نہیں مانتا ۔ ان سے بیشمار غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن جس طرح سے آج کے بعض فوج دشمن طبقات ، نئی نسل کو فوج سے متنفر کرنے کی غرض سے ، ایوب خان کے فوجی پس منظر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی کے پٹری سے اترنے کا واویلہ کرتے ہیں اس میں رتی بھر صداقت نہیں ۔ اگر ایوب دور سے پہلے جمہوری نظام بہ خوبی چل رہا ہوتا تو ناقدین کے الزام کو صحیح مانا جاسکتا تھا ۔ تحریک پاکستان کے اہم راہنماء اور پہلے ہی وزیراعظم کو گولی ماردی اور اس کے بعد ایک نہیں ، دو نہیں ، پورے 5 وزراء اعظم کی چھٹی کرانے کے بعد جمہوریت کشی کا الزام جنرل ایوب پر ۔
( جاری ہے )
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست
اٹک ای میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔