تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری
جنرل ایوب کی آمد کے وقت میری عمر 10 برس تھی اور یوں کہیئے کہ ہم دور ایوبی میں پل کر جوان ہوئے اور ان کی اقتدار سے علیحدگی سے پہلے گریجویشن کرچکے تھے ۔ ان کی حکومت کا ہر لمحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ اس کہانی کے واقعات کو سمجھنے کے لئے اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ، کہ پاکستان کو بنے ابھی صرف 11 برس گزرے تھے ۔ لٹا پٹا ، دو حصوں میں منقسم ، مشرقی اور مغربی پاکستان ۔ ہندوستان کے ان صوبوں اور علاقوں سے آئے مہاجرین ، کہ جو پاکستان کا حصہ نہ بن سکے ۔ ان کی آباد کاری کا مسئلہ ، روزگار ، تعلیم اور صحت کے مسائل ۔ صنعتیں نہ ہونے کے برابر ، فوج کی تنظیم و تربیت اور اسے مسلح کرنا ۔ پڑھے لکھے ، تربیت یافتہ اور ہنر مند افراد کی کمی جیسے بڑے بڑے مسئلے ابھی حل کرنا باقی تھے کہ سیاست دان لڑتے لڑتے ایوب خان تک آگئے ۔ پاکستان کی بدنصیبی کہ ، قائداعظم محمد علی جناح کے بعد حکمرانی کے دعویدار تو بہت پیدا ہوئے لیکن ان جیسا راہنماء نہ مل سکا ۔ قائد نے آنکھیں بند کیں اور اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی ۔ میں قطعا یہ بات نہیں کہ رھا کہ ہماری قوم میں قحط الرجال تھا ، ایسی بات نہیں ، قائد کے ساتھیوں میں ایسے افراد موجود تھے جو پاکستان کو اوج ثریا پہ لیجاتے لیکن انہیں موقع نہیں دیا گیا بلکہ خود غرض اور نااہل لوگ چھا گئے ۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ شیر بنگال نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری اور انگریزوں سے وفاء داری نبھاہنے والے میرجعفر کا پڑپوتا ، میجر جنرل اسکندر مرزا ، پاکستان کا صدر بن بیٹھا ۔ میرے خیال سے تو یہ اللہ کی مہربانی تھی کہ ایوب خان نے اسے چلتا کیا ورنہ اردو محاورہ ہے
باپ پر پوت اور تخم پر گھوڑا ، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
بزرگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ تخم تاثیر سات نسلوں تک دکھائی دیتی ہے ۔ اگر ایوب خان نہ آتے تو نہ جانے اسکندر مرزا جن کی بیگم ناہید کا تعلق ایران سے تھا ، ہمیں کہاں پہنچادیتے ۔ ایوب خان کا تعلق ہری پور ( ہزارہ ) کے گاوں ریحانہ سے تھا اور وہ ایک فوجی میرداد خان کی دوسری بیوی کے پہلے بیٹے تھے ۔ ابتدائی تعلیم سرائے صالح میں حاصل کی اور پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے لیکن وہاں سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ برطانیہ چلے گئے ۔ دوسری جنگ عظیم میں بحیثیت کپتان برما کے محاز پر خدمات سرانجام دیں اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان آرمی میں شامل ہوگئے ۔ آپ پاکستان آرمی کے وہ آفیسر تھے کہ جنہیں کم عمری میں ترقی کے مواقع نصیب ہوئے اور تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف کی کرسی تک آن پہنچے ۔ آج ہمیں ایک نئے انداز سے تاریخ پڑھائی جارہی ہے ۔ جو سیاست دان اقتدار سے محروم ہوتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے نام سے فوج کو گالیاں بکنا شروع کردیتا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا باقائدہ صدر میجر جنرل اسکندر میرزا ایک برطانوی فوجی تھا ۔ اس سے قبل برطانوی رواج اور قانون کے مطابق گورنر جنرل ہوا کرتا تھا۔ ملک غلام محمد آخری گورنر جنرل تھے ۔ خرابئ صحت کی بنیاد پر انہوں نے 1956میں اسکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل بنایا تو مرزا صاحب گورنر جنرل سے چھلانگ لگا کر صدر پاکستان بن بیٹھے اور غلام محمد کو فارغ کردیا ۔ اقتدار کا مزہ اور نشہ ہی ایسا ہے کہ ایک بار لگ جائے تو چھوٹتا نہیں لھذا اسکندر مرزا چاہتے تھے کہ وہ تاحیات صدر رہیں لھذا کم و بیش 4 وزرائے اعظم کو گھر بھجوایا لیکن آخر کار مکافات عمل کے قانون کے تحت اپنے یار غار جنرل ایوب کے ہاتھوں معزول ہوکر لندن پدھارے ۔ چونکہ یہ اس میر جعفر کے پڑپوتے تھے کہ جس نے سراج الدولہ سے غداری کرکے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا لھذا لندن میں ان کے قیام و طعام کا تاحیات خرچہ ملکہ برطانیہ اپنی جیب خاص سے ادا کرتی تھیں ۔ وفات کے بعد اسکندر مرزا اپنی وصیت کے مطابق تہران میں دفن ہوئے ۔ عجیب ملک ہے ۔ سابق صدر طہران میں دفن ہونے کی وصیت کرتا ہے توسرخ پوشوں کو بابا جلال آباد افغانستان میں سپرد خاک ہونے کو ترجیح دیتا ہے لیکن پیشاور ائرپورٹ کا نام باچا خان انٹرنیشل ائرپورٹ ہے ۔ کیا یہ ہوائی اڈہ افغانیوں نے بنایا تھا ۔
( جاری ہے )
سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست اٹک ای میگزین
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔