جمہوریت کی تاریخ، ہم نے کیا سبق سیکھا؟
پاکستان کا آئینی اور سرکاری نام "اسلامی جمہوریہ پاکستان” ہے۔ 14اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اگلے ہی روز کراچی میں 15اگست 1947ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے متفقہ طور پر پاکستان میں "پارلیمانی جمہوری نظام” رائج کرنے کا فیصلہ کیا جس کے مطابق کراچی میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے اتفاق رائے سے لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیراعظم چن لیا۔ اس کے بعد 1956ء کے پہلے آئین میں باضابطہ طور پر پاکستان کا نام "اسلامی جمہوریہ پاکستان” لکھا گیا اور 1973ء کے آئین میں بھی پاکستان کے اسی نام کو بحال رکھا گیا. آئین کے مطابق پاکستان کا یہی سرکاری نام آج تک جاری ہے۔ لیکن اچھنبے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں پاکستان میں مکمل طور پر کبھی اسلامی پارلیمانی جمہوری نظام کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ پاکستان کے نام کی یہ نسبت تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان میں ایسا جمہوری نظام نافذ کیا جانا مقصود ہے جس کی بنیاد میں فقط اسلامی اقدار کی تعلیمات اور اصولوں و ضوابط کارفرما ہوں۔
قدیم یونان کو جمہوریت کی جنم بھومی متصور کیا جاتا ہے جس کے آثار 600سال قبل از عیسوی اور ’’بدھا‘‘ کی پیدائش (564 ق م) سے جا ملتے ہیں۔ تب ہندوستان میں بنیادی جمہوری ریاستیں موجود تھیں جن کو "جانا پداس” کہا جاتا تھا۔ ان میں سب سے پہلی نیم جمہوری ریاست ’’وشانی‘‘ کے نام سے قائم ہوئی جو کہ اب ’’بہار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح یونانی دانشوروں کے مطابق سکندر اعظم کے دور میں 400قبل از عیسوی "سابا ستائے” اور "سبارا کائے” کی ریاستیں بھی موجودہ تھیں۔ جہاں شاہی حکومتوں کی بجائے جمہوری حکومتیں تھیں۔
اہل یونان کے ہاں "کونسل” اور "اسمبلی” کا تصور بھی موجود تھا۔مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے "دی ریپبلک” کے عنوان سے کتاب لکھی جس کے اردو معنی "جمہوریہ” کے ہیں جس میں انہوں نے بتایا کہ بادشاہوں کو انصاف قائم کرنے کے لئے فلسفی ہونا چایئے یا فلسفیوں کو حکومتی معاملات سونپے جانے چایئے تاکہ وہ عوام کی امنگوں کے مطابق حکومتی نظام کو انجام دے سکیں۔ پہلی بار "رومن ایمپائر” جولیئس سیزر اور سینٹ کے سربراہ پونپے کے درمیان خانہ جنگی کے بعد 49 ق م میں وجود میں آئی جس نے بہت حد تک جمہوری نظام کی راہ ہموار کر دی۔ انگلستان میں "انتخابی پارلیمنٹ” اور ’’کامل جمہوریت‘‘ کی طرف پہلا قدم 1265ء میں اٹھایا گیا۔ 1517ء میں مارٹن لوتھر نے یورپ کی "نشاۃ ثانیہ” اور "اصلاح” کے نام پر اپنے مقالے چرچ کے دروازے پر نصب کر کے چرچ سے آزادی کا اعلان کیا۔ یہی نظریہ 1688ء کی’’انگلش سول وار‘‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جبکہ ’’سینٹ‘‘ کے لیڈر کروم ویل نے انگلستان کے بادشاہ ہنری1 کو شکست دیکر سولی پر چڑھا دیا۔ اس انقلاب کو ’’گلوریئس ریولیوشن‘‘ کہا جاتا ہے، جس کے بعد "بادشاہت” کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ جبکہ لبرل ڈیموکریسی کا آغاز انقلاب فرانس (1789ء- 1799ء) کے 100سال بعد ہوا جس میں والٹیئر (1778-1694) اور جان روسو (1778-1712) وغیرہ کے فلسفوں اور نظریات کو بنیادی اہمیت حاصل تھی جس کے بعد مغرب میں مذہب ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ قرار پایا اور مغربی اقوام نے لامذہبیت (سیکولرازم) کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
اس جمہوری نظام حکومت کی کوکھ سے مغرب میں 14ویں سے 17ویں عیسوی صدی میں "تحریک احیائے علوم” نے جنم لیا جس کے نتیجے کے طور پر امریکہ، کنیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ اور دیگر پورے مغرب میں "سائنسی انقلاب” برپا ہو گیا جس کی وجہ سے آج مغربی دنیا نہ صرف باقی ماندہ اقوام پر حکمرانی کر رہی ہے بلکہ اس کا پھل پوری دنیا بھی کھا رہی ہے۔
حیرانی ہے کہ جمہوریت کی ان قدیم روایات اور پاکستان کی 76سالہ تاریخ سے پاکستان نے ابھی تک کیوں کوئی سبق نہیں سیکھا ہے؟ ہمارے ملک میں مکمل اسلامی جمہوری نظام کے نفاذ کے لئے کبھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں مکمل جمہوریت ہے اور نہ ہی مکمل بادشاہت ہے۔ دنیا کی دس بہترین جمہوری اقوام میں بالترتیب ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، آئرلینڈ، کنیڈا، ڈینمارک، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں جس میں پاکستان ہی نہیں کسی دوسرے مسلمان ملک کا نام بھی شامل نہیں ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بھارت ہے مگر جمہوری معیار کے اعتبار سے 176ممالک کی فہرست میں بھارت 85ویں نمبر پر ہے۔ افسوس ہے کہ ملک خدادا پاکستان کا 123واں نمبر ہے۔
گو کہ برطانیہ کا کوئی تحریری آئین نہیں مگر وہاں جمہوری روایات کی بنیاد پر دنیا کا بہترین جمہوری نظام رائج ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے اس ناقص معیار کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں "خونریز مسلم تاریخ”، "مطالعہ پاکستان”، "نیم جمہوری” و "نیم فوجی” حکومتوں کی کشمکش اور "اشرافیہ” کی حاکمیت سرفہرست ہیں۔ اس وجہ سے یہاں کبھی مثالی جمہوری روایات قائم ہی نہیں کی جا سکی ہیں۔ جو "اشرافیہ” شروع سے پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہے، وہ ملک کو لوٹنے کے حوالے سے بادشاہت تو درکنار "آمریت” سے بھی بدتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں نہ تو مکمل طور پر جمہوریت اور نہ ہی بادشاہت رائج ہے۔ ہم اسلامی (مذہبی) ہیں اور نہ سیکولر (لادین) ہیں۔ ہم خود کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان” تو کہتے ہیں مگر ہمارے اندر "اسلامیت” یا "جمہوریت” نام کی ہرگز کوئی چیز نہیں ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔