پہلی قسط میں یہ بیان کر دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی حقِّ مطلق ہے، جس کی حقیقت میں کسی بھی طرح کے ذرہ برابر بُطلان کی گُنجائش نہیں ہے، پس حق کُلی طور پر ذاتِ واجبُ الوجود میں ہی منحصر ہے اللہ تعالیٰ نے انبیاؑء کو پیغمبر گرامی صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو بھی حق قرار دیا ہے کیونکہ پیغمبروں کی نبوت بھی حقِّ مطلق کی طرف سے واقعیت اور حقیقت کی حامل ہے اور سورۃ قصص کی آیت 47، 48 میں پیغمبر کا حق کے مصداق کے طور پر تعارف ہوا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
رَبَّنا لَولآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلاً فَنَتَّبِعَ آيٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ * فَلَمَّا جَآءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْ لَا اُوْتِیَ مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی ط اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ج
وہ کہتے ہیں اے پروردگار ! تونے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا تاکہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اس پر ایمان لے آتے ، لیکن جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق (محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ گیا تو کہنے لگے کہ وہ موسیٰ جیسا معجزہ لے کر کیوں نہیں آیا، کیا انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا بھی انکار نہیں کیا تھا
یہاں نبی اور معجزہ دونوں کو حق قرار دیا گیا ہے
قُرآنِ مجید روزِ قیامت کو حق قرار دیتا ہے کہ قبروں سے اُٹھنا، اعمال کا حساب و کتاب ، ایک نئی، مکمل اور ابدی زندگی کا آغاز ایسے حقائق ہیں جن کی تمام پیغمبروں نوید دی ہے، اور اس پر یقینِ کامل کے بغیر دین معنوی لحاظ سے تکمیل نہیں پاتا سورۃ شوریٰ کی 18 ویں آیت میں قُرآن یُوں گویا ہوا کہ
يَسْتَعْجِلُ بِھَاالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِھَا ج وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْھَا وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّھَاالْحَقُّ ط
کافر لوگ قیامت کے برپا ہونے کا انکار کرتے ہیں اور ایمان لانے والے اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ حق ہے،
اور سورۃ یونس کی آیت 53 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
وَيَسْتَنبِعُوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ ط قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّه، لَحَقٌّ ط وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ *
اے رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم) وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا قیامت حق ہے کہہ دیجیئے کہ مجھے اپنے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ (قیامت) حق ہے اور تمہارے لیے گریز کی کوئی راہ نہیں
اور حلال مال جو مقروض کے ذمہ واجب الادا ہے اسے قرض خواہ کا حق قرار دیتا ہے اور یہ حقِّ نسبی ہے کیونکہ اس مالِ حلال کے حاصل کرنے میں اس کے مالک نے جو کوشش اور محنت کی اُس نے اُسے اس مال کا حقدار بنایا ورنہ مالکِ حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے چنانچہ سورۃ بقرۃ کی آیت 282 میں اسے حق قرار دیا گیا،
یہ تو ہوگئی حق و باطل کی تفصیل اب یہاں میرے ذہن میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ کیا حقوق و فرائض بھی اسی زمرے میں داخل ہیں تو مجھے اس بات کا جواب بہت سی قُرآنی آیات سے ملا مثلاً سورۃ النساء آیت 17 میں ارشاد ہو رہا ہے کہ
یَا اَھلَ الکِتَابِ لَا تَغلُوا فِی دِینِکُم وَلَا تَقُولُوا عَلَی اللهِ اِلَّا الحَقّ
اے اہلِ کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو، اور اللہ کی طرف حق اور واقعیت کے علاوہ کوئی اور نسبت نہ دو،
اور سورۃ لقمان کی آیت 33 یوں راہنمائی کر رہی ہے کہ
اِنَّ وَعدَاللہِ حَقُُ فَلَا تَغُرَّنَّکُم الحَیاۃُ الدُّنْيَا
بےشک اللہ کے وعدے سچ اور واقعیت رکھتے ہیں، دنیاوی زندگی تمہیں کہیں دھوکہ نہ دے
ان آیات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ دنیاوی معاشرتی زندگی میں بننے والے قوانین کی بنیاد کہیں اپنی یا عوام کی خواہشات کے مطابق نہ رکھ لینا بلکہ وہ قوانین اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ انسانی سعادتوں کے امین ہوں جو فطرت و آفرینش کے خلاف نہ ہوں یعنی انسان کی ہر خواہش کو اس کا حق نہیں قرار دیا جا سکتا ، نشہ آور اشیاء چاہے تمام انسانوں کی خواہش ہو ان کا حق نہیں قرار دی جا سکتیں بلکہ ایسا قانون حقِّ مطلق اللہ کے ہاں باطل قرار پائے گا، قُرآن جس مقام پر بھی اللہ واحد و یکتا کی پرستش کے بارے میں بات کرتا ہے تو بلا فاصلہ فطرت و آفرینش کی بات کرتا ہے جیسا کہ سورۃ روم کی آیت 30 میں ارشاد ہوا
فَاَقِمْ وَجْھَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفاً ط فِطْرَةَ اللهِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَيْھَا ط لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللهِ ط ذَالِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَالنَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ *
اللہ کے سچے دین کی طرف رُخ کرو، وہ سچا دین جو اللہ کی آفرینش و خلقت ہے اور اُس نے اسی بنیاد پر انسانوں کو خلق کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، یہی محکم اور استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
یہ وہ منزِل ہے جہاں قُرآن و اسلام حقوق کے دیگر اداروں سے جُدا ہو جاتا ہے ہر وہ عمل جس سے قُرآن نے روک دیا اس سے رُک جانے میں ہی بھلائی ہے بےشک وہ کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگے، اور ہر وہ کام جس کے کرنے کا حکم قُرآن نے دے دیا اُس پر عمل میں بھلائی اور خیر ہے چاہے وہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے، قُرآن کی نظر میں وہی قانون حق ہے جس پر عمل سے انسان اپنے رب کی قُربت کا حقدار ٹھہرے، اور وہی قانون فطرت پر مبنی ہو گا اور انسان کی سعادت اور خُوش بختی کا ضامن ہو گا، تو پس میرے محترم قاری قُرآنی قوانین، حقوق و فرائض کا منبع و مآخذ بھی حقِّ مطلق کی طرف سے انسانی سعادتوں کے لیے ہے اور منزل اُخروی و ابدی کامیابی ہے
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔