یہ بات بالکل واضح ہے کہ حق عربی زبان کا لفظ ہے ، مگر فارسی ، اُردو پنجابی میں بھی اس کے معانی و مطالب عربی سے چنداں مختلف نہیں ہیں، آپ عربی زبان کی تمام چھوٹی بڑی لغات دیکھ لیجیئے اس کے جتنے بھی معانی بیان ہوئے ہیں اُن پر اگر گہرائی میں غور کیا جائے تو ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ یہ کہ جو واقعیت اور حقیقت رکھنے کی بنیاد پر استوار اور پائیدار ہو، اور لفظِ ,, حق ،، باطل کی ضد ہے ,, باطل ،، یعنی ڈگمگانے والی اور ناپائیدار چیز جو بے حقیقت و واقعیت ہو
اللسان العرب اور دیگر ماہرین لغت کے اقوال کا ما حصل کچھ یوں ہے کہ ,, ہر وہ چیز جو ایسی واقعیت و حقیقت رکھتی ہو کہ جس کا نتیجہ استحکام، تیقن، اور دوام ہو وہ حق ہو گی جبکہ جو واقعیت و حقیقت نہ ہونے کی بنیاد پر تھوڑی سی نمائش کے بعد ختم ہو جائے وہ باطل ہو گی،،
قُرآنِ مجید نے حق و باطل کے مسئلہ کو بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، آپ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیجیئے کہ لفظِ ,, حق ،، اپنے تمام تر مشتقات کے ساتھ قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں 287 مرتبہ اور لفظِ ,, باطل ،، 35 مرتبہ آیا ہے، اور قُرآن نے حقِ مطلق پس اللہ تعالیٰ ہی کی ذاتِ والا صفات کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ ھُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ھُوَالْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللهَ ھُوَالْعَلِیُّ الكَبِيْرُ *
یہ اس بناء پر ہے کہ وہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے علاوہ جس کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ باطل ہے اور بےشک اللہ ہی بزرگ و برتر ہے
یہی آیت اسی مضمون کے ساتھ سُورۃ لقمان 30 میں بھی وارد ہوئی ہے مگر سورۃ لقمان میں (ھُوَ البَاطِلُ) کی جگہ (البَاطِلُ) بیان ہوا ہے یہ بظاہر معمولی فرق عربی زبان و ادب کی ایک اعلیٰ و ارفع مثال ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی الوہیت اور ربوبیت کو ذاتِ واجب الوجود میں منحصر کرتا ہے اور ان دونوں مقامات پر یعنی سورۃ حج اور سورۃ لقمان میں ان آیات سے پہلے کائنات کے وجود، گردشِ لیل و نہار ، سورج اور چاند کی تسخیر اور گردش کا ذکر ہوا ہے یعنی یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن کا بطلان کوئی ثابت کر ہی نہیں سکتا ،
ہاں البتہ اگر حق کی نسبت الوہیت و ربوبیت نہ ہو بلکہ اس کی وجہ یا نسبت کسی معدوم شے سے مقابلہ ہو تو پھر وہ حق حقِ نسبی ہو گا جس کی نسبت ذاتِ لایزال سے ہو گی حقِ مطلق بہر صورت اللہ تعالیٰ ہی کی ذاتِ والا صفات ہے اس کے علاوہ سورۃ یونس کی آیت 32 میں سورۃ نور آیت 25 میں، سورۃ کہف آیت 42 میں سورۃ مومنوں کی آیت 116 میں بھی اللہ تعالیٰ کو حقِ مطلق قرار دیا گیا ہے،
بالذاتہ قرآن حکیم سے بڑھ کر اور کیا بڑی پائیداری و استواری کے ساتھ قائم و دائم حقیقت بھلا اور کیا ہو گی قرآن ایسا حق ہے کہ جس کی طرف باطل کی کوئی راہ نہیں ہے، قُرآن ہر طرح کے باطل سے مبری و منزہ ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَأءَھُمْ ج وَ اِ نَّه، لكِتٰبٌ عَزِيْزٌ * لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ ط تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ * سُورَة حٰم السجدة آیت 41 42
یہ عزت والی کتاب ہے جس میں باطل کے لیے کوئی راہ نہیں ہے، یہ اس حکیم کی طرف سے بھیجی گئی جو لائقِ حمد ہے،
اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ کی ذات حقِ مطلق ہے، اسی طرح اللہ کی کتاب بھی حقِ مطلق ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات جاودانی ہے ویسے ہی اللہ کی کتاب (قُرآن) ابدی و جاودانی ہے
سورۃ بقرہ آیت 91 ، سورۃ یونس آیت 94 ، 108، 109 سورۃ سجدہ آیت 3 ، سورۃ سباء آیت 6، 48.، سورۃ فاطر آیت 31 میں بھی قُرآن کو حق قرار دیا گیا ہے،
جب طویل اور مشکل و تکلیف دہ ترین جد و جہد اور گراں قدر قربانیوں کے بعد کفر و شرک کا قلعہ نابُود ہوا اور مکہ فتح ہوا تو پیغمبرِ گرامی صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ وحی ترجمان پر سورۃ اسراء کی آیت 81 کے یہ الفاظ جاری تھے
وَ قُل جَأءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَھُوْقاً *
اور اے میرے رسول کہہ دیجیئے کہ حق فتح مندی کے ساتھ جلوہ افروز ہوا اور باطل نابود ہو گیا اور بےشک باطل تو نابُود و نامراد ہی ہونے والا ہے
یہ آیت اگرچہ اپنے اندر مطالب و معانی کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہے مگر ہمارے موضوع کی واضح اور مکمل وضاحت کرتی ہے کہ حق سے مراد یکتا پرستی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات تمام صفات کے ساتھ قائم و دائم ہے اور قائم و دائم رہے گی اور ہر دور میں نئے نئے انداز سے ظاہر ہوتا رہا ہے، باطل کے معبود ہمیشہ نابودی کا شکار ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے
اسلام ایک مکمل ضابطہءِ حیات ہے اور توحید اس کی اساس ہے اور یہی حق ہے چنانچہ سورۃ انفال کی 8 ویں آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ
لِیُحِقَّ الحَقَّ وَ یُبطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَو کَرِہَ المُجرِمُونَ *
تاکہ حق کو پائیدار اور باطل کو ناپائیدار کر دے ، چاہے گنہگاروں کو یہ بات اچھی نہ لگے
اور سورۃ سباء 49 ویں آیت میں یوں فرمایا کہ
قُلْ جَأءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ *
اے حبیب ان سے کہہ دیجیئے کہ حق تو آ چکا ہے اور باطل نہ ابتدا میں کچھ کرنے کے قابل تھا اور نہ انتہا میں کچھ کرنے کے قابل ہو گا
یعنی اُن کے باطل خُدا نہ کچھ پیدا کرنے کے قابل تھے، نہ اپنا دفاع کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی آئندہ کسی بھی شکل میں خُدا بن کر حق کے مقابل آئیں گے تو کسی قابل ہوں گے کیونکہ پائیداری اور استواری فقط حق کو حاصل ہے
اعجاز یا معجزہ کو بھی قُرآن حق قرار دیتا ہے، اور اس کے مقابلے سحر اور جادو کو باطل قرار دیتا ہے، کیونکہ معجزہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت وقوع پذیر ہوتا ہے، اور حق کی ناقابل بُطلان حقیقت ہونے کے بیان کے لیے ہوتا ہے چنانچہ سورۃ رعد کی آیت 38 میں ارشاد ہوا کہ
وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اَن یَّاتِیَ بِآیَاتِہ اِلَّا بِاِذنِ اللہِ *
کسی بھی پیغمبر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ کے اِذن کے بغیر کوئی معجزہ لے آئے،
پس یہی وجہ ہے کہ سورۃ یونس کی آیت نمبر 76، 77 میں معجزہ کو حق کہا گیا ہے
فَلَمَّا جَأءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا اِنَّ ھٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ * قَالَ مُوْسٰی اَتَقُوْلُوْنَ لِلحَقِّ لَمَّا جَآءَ كُمْ ط اَسَحْرٌ ھٰذَا ط وَلَا يُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ *
جب ہماری طرف سے حق آیا تو کہنے لگے کہ یہ تو وہی کھلا جادو ہے، تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیا تم حق(معجزے) کو جادو کہتے ہو اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے،
چونکہ معجزہ اپنے اندر حقیقت استواری اور یائیداری لیے ہوئے ہوتا ہے اس لیے اسے حق کہا گیا ہے اور جادو آنکھوں کا دھوکہ، جزوقتی اور ناپائیدار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادہءِ قاہرہ سے فناء ہو جاتا ہے اس لیے اسے باطل کہا گیا ہے چنانچہ سورۃ یونس کی آیت 8 میں ارشاد ہوا کہ
مَا جِئتُم بِہِ السِّحرُ اِنَّ اللهَ سَیُبطِلُہ،.
جو کچھ تم لائے ہو وہ تو جادو ہے اور اللہ اسے نابُود کر دے گا
فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطلَ مَا کَانُوا یَعمَلُون سورۃ اعراف؛ 118
حق ظاہر ہو گیا اور ان کے کام باطل ہو گئے
…………….. جاری ہے
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔