روح کیا چیز ہے، سائنس اور اسلام کی روشنی میں؟

روح کیا چیز ہے، سائنس اور اسلام کی روشنی میں؟

Dubai Naama

روح کیا چیز ہے، سائنس اور اسلام کی روشنی میں؟

جب خام لوہے کے کسی ٹکڑے کو حصار نما مقناطیس سے رگڑا جاتا ہے تو اس میں بھی مقناطیسی صلاحیت و طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جب لوہے، پیتل یا تانبے کی بنی ہوئی کسی چیز یا سوئی وغیرہ کو اس ٹکڑے کے پاس لایا جاتا ہے تو وہ بھی مقناطیس کی طرح اسے فورا اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اصل یا مقنائے گئے مقناطیس کے اندر ننگی آنکھ سے نظر نہ آنے والے ایسے زرات یا الیکٹرو میگنیٹک ویوز (Electro Magnetic Waves) وغیرہ ہوتی ہیں جو اس کے گرد ایک موہوم مقناطیسی حلقہ ( Non Visible Magnetic Field) بناتے ہیں اور اس میں جونہی لوہے، پیتل یا تانبے وغیرہ کی کوئی چیز داخل ہوتی ہے تو وہ فورا مقناطیس کے ساتھ چپک جاتی ہے۔ جنرل سائنسی اصولوں کے مطابق بھی ہر بڑا جسم ہر چھوٹے جسم کو اپنی طرف کھنچتا ہے۔ زمین کی کشش ثقل بھی انہی سائنسی اصولوں کے تحت فضا میں سہارے کے بغیر چھوڑی جانے والی ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ویسے تو زمین کی کشش ثقل کی حد بھی کائنات کی عمر کے برابر یعنی 4اعشاریہ 5ارب سال تک یے
مگر مقناطیس کے فیلڈ کی مانند زمین کی کشش ثقل (Gravitational Pull) بھی خلا میں دو اجسام کے درمیان پائے جانے فاصلے اور کمیت (Distance and Density) کے تناسب کی مساوات F=GMm/r² کے مطابق ایک مخصوص دوری تک زیادہ اثر انداز ہوتی ہے جس کے بعد خلا میں موجود دوسرے ستاروں کی کشش ثقل کی وجہ سے چیزیں خلا میں ہمیشہ کے لیئے ساکن یا حرکت میں رہتی ہیں۔

پوری کائنات کے اجسام کی اپنے محور اور ستاروں کے گرد حرکات انہی سائنسی اصولوں کے تحت روبعمل ہوتی ہیں جن کو ابتدائے کائنات کے وقت مخصوص کیا گیا تھا جنہیں قوانین فطرت یا فزکس کے قوانین کہا جاتا ہے اور جن کے بغیر کائنات ایک بال برابر بھی سکون یا حرکت میں نہیں رہ سکتی ہے۔

فزیکل کائنات کے کسی ستارے اور زمین پر زندگی کا آغاز بھی انہی سائنسی اصولوں کے مطابق ہوا جن کی وجہ سے کائنات آج بھی مسلسل کام کر رہی ہے اور جس میں ہر لمحہ "ارتقاء” بھی پیدا ہو رہا ہے۔ ایک لمحہ کے لیئے کائنات کے اس آغاز اور زمین پر زندگی کی شروعات پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ انسانی زندگی بھی کائنات میں اللہ تعالی جیسی عظیم ہستی سے مقنایا گیا وجود ہے جس میں قرآن پاک کے مطابق جان تب ظاہر ہوئی جب اللہ تعالٰی نے مٹی کے جسم میں اپنی روح پھونکی، کچھ عرصہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا ؑ جنت میں رہے (جو زمین کے علاوہ کوئی دوسری جگہ یا ستارہ تھا) اور بعد میں انہیں زمین پر منتقل کیا گیا (اب جدید سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہو رہا ہے کہ زمین پر پانی اور زندگی کے آثار دوسرے ستاروں سے دیوقامت برف کے گولوں کی برسات سے نمایاں ہوئے)۔

انسان کی زندگی کی اس عظیم الشان مقناطیسی نسبت کے بارے میں قاری حنیف ڈار صاحب فرماتے ہیں کہ روح ایک مکمل وجود رکھتی ہے، سوچتی بھی ہے، جسم سے نکلنے کے بعد کلام بھی کرتی ہے اور اس کی یادداشت یعنی میموری بھی قائم رہتی ہے، درد و راحت بھی محسوس کرتی ہے، بھیجی بھی جاتی ہے اور واپس بلا بھی لی جاتی ہے۔ گو کہ روح کی ایسی تفصیل کے لئے قرآن پاک میں کوئ آیت موجود نہیں ہے سوائے کسی آیت کی کوئی تاویل کر لی جائے۔ اس سے قطع نظر لوگ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ، "جب روح ایک مکمل مخلوق ہے تو اسے مادی جسم کی کیا ضرورت تھی؟” سوچنے کی بات ہے کہ جب جنات کو اور فرشتوں کو مادی جسم کی ضرورت نہیں ہے تو پھر روح کو ایک مادی جسم کیوں دیا گیا؟ قرآن فہمی کے دلدادہ حضرات اس کا جواب قران مجید سے درکار کرتے ہیں۔

اس سوال کا ایک صحیح جواب یہ ہے کہ "روح” ہمارے مادی وجود سے پہلے بھی موجود ہوتی ہے "کما قال تعالی و کنتم امواتا” یعنی روح اور بدن کی جدائی ہی موت ہے مگر ” کنتم” بتا رہا ہے کہ "تھے تم” اسی طرح مرنے کے بعد بھی روح اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ اب اگر انہی سائنس قوانین کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو قانون بقائے مادہ جسے قانون بقائے انرجی (Law of Conservation of Energy) بھی کہا جاتا ہے کے مطابق کائنات میں انرجی کی مقدار ہمیشہ برابر رہتی ہے یعنی مادہ اور انرجی ایک دوسرے میں تبدیل تو ہوتے ہیں مگر ان دونوں کی مقدار کم یا زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے بدن اور روح کا بھی یہی معاملہ ہے کہ بدن اپنی جگہ گلتا یے اور مر بھی جاتا ہے مگر اس کا مادہ روح کی شکل میں ہر حال میں اور ہمیشہ قائم رہتا ہے (اور روح زندگی کے مراحل ہمیشہ طے کرتی رہتی ہے)۔ اس اعتبار سے قرآن پاک موت کو مرنے کے معنوں میں استعمال نہیں کرتا بلکہ قرآن پاک میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ "کل نفس ذائقتہ الموت”۔ اسی لیئے موت کو انتقال سے بھی موسوم کیا جاتا ہے: "کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا، میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا”۔
کہ موت کے بعد روح کسی اور جہان میں منتقل ہو جاتی ہے یا وہ وہاں واپس چلی جاتی ہے جہاں سے وہ آتی ہے۔

روح اور جسم دونوں کے ملاپ کو "بعثت” بھی کہا گیا ہے اور روح کے مکالمے اللہ تعالیٰ نے روح نکلنے کے بعد بیان کیئے ہیں جس کا ذکر سورہ العمران اور سورہ یٰسین میں موجود ہے۔

اگر ہم آسان زبان میں روح کو سمجھنے کی کوشش کریں تو روح (یا زندگی) مادی جسم سے پیدا ہونے والی ترتیب وار انرجی ہے، بقول چکبست برج نرائن کہ: "زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب، موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا”، جسے اپنے محسوسات کے اظہار کے لئے مادی جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرشتے نور یعنی روشنی کی انرجی ہیں اور جنات آگ کی اور چونکہ آگ اور روشنی مادی وجود نہیں رکھتے ہیں اس لئے انہیں اپنے اظہار کے لئے مادی جسم کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے جبرائیل علیہ السلام فرشتے ہیں تو ان کی انرجی روشنی کی انرجی ہے جبکہ مادی اجسام کی انرجی ان کے جسم کا حصہ ہے جیسا کہ روشنی کا مادی جسم نہیں ہے لیکن وجود ہے۔ یہ بحث اس وقت کے فلسفے کا حصہ ہے جب سائنس نے روشنی اور مادے کا باہمی تعلق دریافت نہیں کیا تھا۔ آئن سٹائن کی ماس انرجی ایکویشن E = mc2 کی دریافت کے بعد تو "وحدت الوجود” کی توثیق بھی ہوتی ہے۔ یوں اگر ماس اینڈ انرجی متبدل (Convertible) ہیں تو یہ سائنسی تجربات سے ثابت ہو گیا ہے کہ روح انرجی ہے تو مادہ اس کی شکلوں میں سے ایک شکل ہے۔

روح کو جدید کوانٹم سائنسی زبان میں "شعور” (Consciousness) کہا جاتا ہے جو اللہ تعالی کا امر ہے مگر یہ سائنس دانوں کے لئے اتنا ہی مشکل اور پیچیدہ سوال ہے (جس پر بات کسی اور کالم میں اٹھا رکھتے ہیں) کہ خود سائنس دان شک و شبہ میں مبتلا ہیں، جن کے بقول شعور ایک پراسرسر چیز یے جس کو ایک کوانٹم سائنس جیسی دوسری پراسرار چیز سے سمجھنا کوئی دانشمندی کا کام نہیں ہے۔

Title Image by Gerd Altmann from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

جمعہ جنوری 26 , 2024
پاکستان میں اردو ادب کے منظر نامے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا شمار ممتاز ماہرین اقبالیات، محققین اور سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

مزید دلچسپ تحریریں