ہماری گزشتہ بحث میں ضمنی طور پر یہ سوال اُٹھا تھا کہ اصل میں عزت اور نعمت کے معانی کیا ہیں آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ مضمون گزشتہ سے پیوستہ ہی ہو گا
نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خُوشنودی ہی ہے کیونکہ وہ اللہ جس سے راضی ہو جائے اُسے اپنی سرپرستی میں لے لیتا ہے، اپنے بندے کا ولی ہو جاتا ہے، ثابت قدم رکھنے کا وعدہ کر لیتا ہے؛ اپنے بندے کی مدد کا وعدہ کرتا ہے اور دائمی زندگی میں ہر طرح کی آسائشوں ، نعماتِ عمومی و خصوصی سے بہرہ مند فرمانے کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ سے بڑھ کر بھلا کون وعدہ وفا ہو سکتا ہے
لفظِ عزت کے عمومی طور پر معانی زیادہ ہیں مگر قُرآن مجید میں یہ لفظ غرور و تمکنت و فخر و تکبر کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ سُورۃ البقَرۃ کی آیت 206 میں ارشاد ہوا کہ
وَاِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُه، جَهَنَّمُ ط وَلَبِئْسَ الْمِھَادُ *
اور جب اُنہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو غرور و تکبر اُنہیں گناہ پر اُبھارتا ہے پس اُن کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے
یعنی وہ لوگ اپنے ظاہری دکھاوے کو قائم رکھنے کے لیے تقویٰ کی طرف مائل نہیں ہوتے اُنہیں اپنی ظاہری شان و شوکت پر فخر و غرور ہوتا ہے کہ یہ تو شاید اس کے پاس سدا رہے گا، مگر یہ تو فانی ہے
اور اسی طرح جاہ جلال اور تمکنت کے لیے بھی عمومی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ سُورۃ الشعراء کی آیت 44 میں قُرآن یوں گویا ہے کہ
فَاَلْقَوْا حِبَالَھُمْ وَ عَصِيَّھُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ *
اس پر جادوگروں نے اپنی رسیاں اور چھڑیاں ڈال دیں اور کہنے لگے کہ فرعون کے جاہ و جلال کی قسم ہم ہی غالب رہیں گے
قُرآن مجید میں بیان ہونے والے واقعات اور قصے بھی دراصل انسانوں کو یہ باور کروانے کے لیے ہی ہیں کہ ان سے سبق حاصل کیا جائے ، بڑے بڑے طاقتور ظالموں اور جابروں کا انجام جو اپنے جبروت و دبدبے کے بل پر خُدائی کے دعویدار بن بیٹھے تھے مگر انجام کیا ہوا، یہی تو وہ غفلت ہے جس میں آج کا انسان بھی مبتلا ہے ، اور اس فانی دنیا کو اپنی منزل تصور کئے بیٹھا ہے
قُرآن حکیم میں حقیقی عزت و تکریم؛ مقام و مرتبے کے لیے جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا (ا ل) کے حصار میں یعنی بطور معرفہ کے استعمال ہوا ہے جوکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہی سزاوار ہے اور اللہ کی طرف سے مومنین کو اعمالِ صالح کے نتیجے میں عزت عطا ہوتی ہے
جیسا کہ سورۃ فاطر کی 10 ویں آیت میں فرمایا گیا کہ
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰلهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعاً ط اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الْطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الْصَّالِحُ يَرْفَعُه، ط
جو کوئی بھی عزت کا خواہاں ہے تو وہ جان لے کہ عزت تو بس اللہ ہی کی طرف سے ہے ، اُس کی بارگاہ تک اچھی باتیں بلند ہو کر پہنچتی ہیں اور اچھے کام کو تو وہ خُود بلند فرماتا ہے،
گویا کہ حقیقی عزت کا مالک و مُختار اللہ رب العزت ہی ہے، اور بندوں کے لیے عزت و بلندی و مرتبہ فقط اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مضمر ہے، یہ بھلا دنیا کی فانی بادشاہت میں کیسے مل سکتی ہے، میٹھا بول، اللہ کے بندوں کے ساتھ نرم گوئی اور اُن کے ساتھ جانی و مالی امداد کے نتیجے میں عزت دربارِ خُدا وندی سے حاصل ہوتی ہے
سورۃ یونس کی 65 ویں آیۃ میں اپنے حبیب محمدِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے اللہ رب العزت فرما رہا ہے کہ
وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُھُمْ م اِنَّ الْعِزَّةَ للهِ جَمِيْعاً ط ھُوَالْسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ *
اے( میرے رسول) ان (کفار) کی باتوں کا رنج نہ کیجئے، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ساری عزت تو اللہ کی ملکیت ہے وہ سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے،
یہ کفار جو آپ کی ذلت کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں؛ آپ کے ساتھ مزاق اور ٹھٹھہ کرتے ہیں یہ دکھ اور حُزن و ملال وقتی و عارضی ہے جبکہ اللہ دنیا و آخرت میں جو مقام و مرتبہ اور عزت عطا فرمائے گا وہ ابدی ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اور سورۃ النساء کی 139 ویں آیۃ نے تو عزتِ حقیقی کے معنی اور ذلت کی وجوہات کو بالکل واضح کر دیا ہے ارشاد ہو رہا ہے کہ
اَلَّذِيْنَ يَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَأءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ط اَيَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ
الْعِزَّةَ للهِ جَمِيْعاً *
جو لوگ مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا سرپرست بنا لیتے ہیں، کیا اُن (کفار) کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں ، تو پس عزت تو ساری کی ساری ہے ہی اللہ کے لیے ؛
اس آیت نے تو مسلمانوں کی موجودہ ذلت کی اصل وجہ بالکل واضح کر دی، ہم عزت کو دولت؛ طاقت، جاہ و جلال میں تلاش کرتے ہیں اور اس کے لیے کفار کا سہارا لیتے ہیں چند لوگوں کی لالچ اور ہوس اور نام نہاد عزت کی طلب نے اسلام کی عزت کو نیلام کر کے رکھ دیا ہے، اور
اس کی ایک بڑی وجہ اکثریتی مسلمانوں کی بے عملی ہے، دنیا کی اندھی ہوس اور لالچ نے ، جھوٹی شان و شوکت اور عارضی عزت اور جاہ و جلال کی خواہش نے مسلمانوں کو اندھا کر دیا ہے اور قُرآن سے راہنمائی لینے سے گریزاں ہو چکا ہے ایسے ہی مسلمان کے لیے قُرآن نے منافق کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی جو زبان سے دعویٰ تو کرتا ہے مگر عمل سے دشمنانِ اسلام کی جھولی میں عزت کا متلاشی ہے، چنانچہ سورۃ منافقون کی آٹھویں آیۃ میں فرما رہا ہے کہ
وَللهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَ لِلمُؤْمِنِيْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ *
اور عزت تو بس خاص ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کے لیے لیکن منافقین نہیں جانتے ،
منافقین کی موجودہ زمانے میں پہچان یہ ہے کہ عزت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے مگر یہ لوگ بادشاہوں کے درباروں میں یہود و نصارٰی کے ایوانوں میں تلاش کرتے ہیں بھلا کیونکر مل پائے گی ،؟ علم و حکمت خالی پیٹ اور بھوک میں ملتی ہے یہ لوگ شکم سیری میں تلاش کرتے ہیں ، کیسے مل سکتی ہے.؟ تونگری کا راز قناعت میں مضمر ہے یعنی جتنا بھی مالک نے عطا کیا اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد باقی حق داروں میں تقسیم کر دو اور ملے گا، مگر یہ نام نہاد مسلمان دولت جمع کرنے اور گننے میں لگے رہے یہاں تک کہ قبریں جا دیکھیں ، پھر عزت کو بھلا کیسے پا سکتے ہیں.؟ اللہ کی رضا و خُوشنودی تو خواہشاتِ نفسانی کی مخالفت میں ہے، مگر یہ ہوا و ہوس کے پُجاری بنے بیٹھے ہیں، شیطان کے پُجاری بن کر شہوت کے تابع ہو کر خالصتاً اللہ کی ملکیت عزت کے طلب گار بنے بیٹھے ہیں اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان منافقین کو عزت ملے ؟
میرے قابلِ احترام قاری ! میں اپنی آج کی اس گفتگو کو اس امید کے ساتھ سمیٹتا ہوں کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ کہہ پایا ہوں اور میری بات آپ تک پہنچ گئی ہے ، میں آپ کے خیالات جاننے کا خواہشمند رہوں گا اور اختتام سورۃ الصافات کی آخری تین آیات سے کرتا ہوں کہ جو برموقع و برمحل ہیں
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمّا يَصِفُوْنَ * وَ سَلٰمٌ عَلَی الْمُرسَلِيْنَ * وَالْحَمْدُ
لِللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ *
یہ لوگ جو باتیں اللہ کے بارے میں کرتے ہیں تمہارا پروردگار عزت کا مالک پاک صاف ہے ، اور پیغمبروں پر درود و سلام ہو ، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے
از قلم : مُونِس رضا
5 دسمبر 2020ء
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔