تاریخ خود رقم کرنا پڑتی ہے
انسان کی انفرادی زندگی ہو یا معاشرے اور اقوام کے حالات و واقعات ہوں، اگر انہیں ماضی کی زبان میں لکھا اور پڑھا جائے تو اسے "علم تاریخ” کہتے ہیں۔ تاریخ کا علم ماضی کے حالات و واقعات، تعلقات، کیفیات، جغرافیے اور میسر امکانات وغیرہ کا ایسا انمٹ اور غیر متبدل علمی احاطہ ہے کہ جسے ماضی میں واپس جا کر تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر انسان کو قدرت حاصل ہو کہ وہ واپس ماضی میں سفر کر سکے جیسا کہ آجکل "ٹائم ٹریول” (Time Travel) کا تصور ہے تو تب بھی ماضی کے واقعات کو تبدیل کرنا ناممکن ہے۔
نوع انسان کا گزرے ہوئے ماضی کے وقت پر بس اتنا سا ارادہ و اختیار ہے کہ وہ ماضی کے سارے کرداروں اور حالات و واقعات سے سبق تو سیکھ سکتا ہے مگر انہیں نئے سرے سے رونما نہیں کر سکتا ہے۔ وقت کو واپس لانے یا "ریورس” کرنے کا خواب دیکھنا افراد اور اقوام میں پچھتاوے اور بے عملی کی بیکار عادات و اطوار پیدا کرتا ہے۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو افراد، معاشرے اور اقوام ماضی میں کھوئے رہتے ہیں یا اپنے آباو’ اجداد پر بے جا فخر کرتے ہیں یا ان کے بارے میں تفاخر میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کا جہاں حال زیادہ قابل فخر نہیں رہتا ہے وہاں ان کا مستقبل بھی مخدوش ہو جاتا ہے۔
یوں تاریخ کا علم زمینی حقائق کے اعتبار سے ایسا ایک سچا آئینہ ہے جس میں اہلِ بصیرت مستقبل کی تصویر بآسانی دیکھ سکتے ہیں، مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ایک ایسا نصابِ تعلیم ترتیب دیا ہے کہ جس میں تاریخ اور جغرافیئے کی بہت کم گنجائش ہے اور اگر ہے تو ہمارا تدریسی نظام اتنا کج رو ہے کہ ہم نے تاریخ سے ذرا برابر بھی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اِس کا نتیجہ بلآخر یہ نکلا ہے کہ ہم قیام پاکستان سے اب تک اندھیروں میں زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں حتی کہ ہماری قوم نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر سقوطِ ڈھاکہ جیسے المناک حادثے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور ہم بحیثیت قوم بدقسمتی سے غلطیوں پر غلطیاں دہراتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک مضبوط وفاق ہونے کے باوجود وطن عزیز کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہماری قومی قیادتیں اور اہم ملکی ادارے مستقبل کی "پیش بینی” کے جوہر سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں جس کے باعث ہماری ملکی سلامتی، امن و امان اور معاشی و سیاسی استحکام کو ہر طرف سے "چیلنجز” درپیش ہیں۔ ہمارا ملک صحیح معنوں میں ایک بند گلی میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس اعلی پائے کے وہ محب وطن، اہل اور مخلص لیڈران کا بھی قحط الرجال ہے کہ ان کو قیادت کا موقع دیا جائے تو وہ ملک و قوم کے لیئے "نجات دہندہ” ثابت ہو سکیں۔
ہمارے ہاں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف و حقوق کی عدم فراہمی کی وجہ سے اور خاص طور پر "بیڈ گورننس” کی بنا پر ملکی مسائل اتنے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صوبوں میں بظاہر ایک ناختم ہونے والی دہشت گردی کا آغاز ہو چکا ہے جس کا دائرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع اور حددرجہ خطرناک ہوتا چلا جا رہا ہے۔
کئی لحاظ سے ہمارے ملک کا حالیہ سیاسی بحران، 1971ء کے بحران سے زیادہ سنگین ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ قوموں اور ملکوں کے عروج و زوال کا سیاسی استحکام اور عدم استحکام سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عروج و زوال ایک تاریخ ساز عمل ہوتا ہے جو چند مہینوں یا برسوں پر محیط نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ برسوں کے حالات و واقعات، اہل اقتدار کی اہلیت، نفسیات اور ان کی کارکردگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ سچی تاریخ سو سال کے بعد لکھی جاتی ہے جب اس کے حقیقی کردار دنیا سے روپوش ہو جاتے ہیں۔ تاریخ نویس بددیانتی بھی کر سکتے ہیں۔ کوئی قوم، ملک، معاشرہ یا فرد کسی کے لیئے اتنا زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کہ ان کی ایک قابل فخر تاریخ بن جائے ۔ لھذا زندہ قوموں کو اپنی تاریخ خود لکھنا پڑتی ہے نہ کہ وہ تاریخ نویسوں کو لکھنے کی اجازت دیتی ہیں یعنی ان تشویشناک حقائق کے تناظر میں پاکستانی مقتدرہ اور قیادت کو غیر معمولی طور پر مستقبل بینی سے کام لینا چایئے اور پیش آمدہ حالات کے مطابق بےپایاں تاریخی شعور کا ثبوت دینا چایئے۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اپنی تقدیر دوسروں کو لکھنے کی ذمہ داری سونپ دیں۔
اس بات کو ہم بطور فرد اپنی ذات پر لاگو کر کے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہراتے ہیں یا ان سے کوئی سبق نہیں سیکھتے ہیں تو ہمارا حال نہ صرف مستقبل کی کوئی تاریخ رقم کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے بلکہ یکسر تباہ بھی ہو جاتا یے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |