ہم آپ کے مشیر ہیں بینگن کے نہیں
ضیاءالحق کے بعد دسمبر 1988ء میں پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت آئی تو وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید نے ضیاءالحق متاثرین کی بحالی کے لیئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں ایک سیل قائم کیا۔ اس سیل کے انچارج سابقہ سی ایس پی آفیسر خالد احمد خان کھرل مرحوم تھے جو بعد میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بھی مقرر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں وہ ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ تھے جن پر ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے 1977 کے عام انتخابات میں بھٹو کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے امیدوار عباسی کو اغواء کروا کر بھٹو کو بلامقابلہ کامیاب کروایا تھا۔ یہ کہانی کہاں تک سچی ہے یہ تو چشم دید راوی ہی جانتے ہیں مگر اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ بے نظیر بھٹو شہید خالد کھرل کی بہت عزت کرتی تھیں اور انہیں انکل کہہ کر پکارا کرتی تھیں۔ وزیراعظم بننے پر انہوں نے خالد کھرل کو مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن لگایا تو ان کی مہربانی سے الذوالفقار تنظیم جسے ضیاءالحق نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا اور جس پر پی آئی اے کا جہاز اغواء کر کے کابل لے جانے کا الزام تھا، اس کے تمام ملزمان نہ صرف رہا ہو گئے بلکہ ان کے کچھ مجرمان کو مختلف وفاقی و صوبائی حکومتوں میں وزیر کے برابر مراعات دے کر مشیر برائے فلاں در فلاں محکمہ لگایا گیا، کچھ کو پلاٹ الاٹ ہوئے اور باقیوں کو نقد رقوم دی گئیں یا انہیں نوازتے ہوئے عمرے وغیرہ کی سعادت پر بھجوایا گیا۔
وفاقی سیکریٹریٹ کے ہر محکمہ اور ڈویژن میں بے نظیر بھٹو نے مشیروں کی فوج ظفر موج بھرتی کی جن کا اس کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا تھا کہ وہ وفاقی سیکرٹریوں یا وزراء وغیرہ کو کوئی مفید اور کارآمد مشورہ دینے کی بجائے فقط تیار شدہ فائلوں پر سائن کریں، پیپلزپارٹی سے ہمدردیاں رکھنے والے بے روزگاروں کو نوکریوں کے لیئے سفارشی "ڈی او لیٹر” دیں یا زیادہ سے زیادہ سبز جھنڈوں والی سرکاری گاڑیوں پر جھوٹے لیں اور سرکاری رہائش گاہوں میں مفت قیام کریں۔مراعات کے لیئے نوازے جانے والے یہ مشیران مہربان مشورہ بھی کیا دیتے، ان میں کچھ مشیر وہ سیاسی امیدوار تھے جو الیکشن میں تو ہار گئے تھے مگر ان کو "مشیر” لگا دیا گیا تھا اور ان میں کچھ ایسے ان پڑھ مشیر بھی شامل تھے جو فائلوں پر سائن کرنے میں بھی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے تھے۔
اس دور میں پیپلزپارٹی کے ایک وفاقی مشیر کے بارے یہ لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا کہ وہ ایک ریک سے فائلیں اٹھا اٹھا کر سائن کر رہے تھے کہ اس دوران ان کا ایک مہمان آ گیا۔ جب مہمان چلا گیا تو انہوں نے فائلیں دوبارہ اٹھا کر سائن کرنا شروع کر دیں۔ کچھ فائلوں پر سائن کرنے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ان فائلوں پر تو پہلے ہی ان کے سائن ہو چکے تھے۔ اس مشیر بے نظیر نے فورا 18ویں سکیل کے اپنے سیکرٹری کو بلایا اور پوچھا کہ میری فائلوں پر کس بے وقوف نے میرے جعلی سائن کیئے ہیں۔ ان کے سیکرٹری نے تھوڑی جانچ پڑتال کی اور پھر مشیر صاحب کو بتایا کہ جناب یہ آپ ہی کے سائن ہیں اور آپ غلطی سے اس ریک سے فائلوں کو اٹھا کر سائن کر رہے ہیں جن پر آپ پہلے ہی سائن کر چکے ہیں۔
وفاقی حکومت کے پاس ان دنوں اتنے وزیر نہیں تھے جتنے ان کے پاس مشیر تھے۔ ان مشیران کرام کا اپنی وزیراعظم، وفاقی سیکریٹری یا وزراء وغیرہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ کی دعوت اس کے ایک مشیر خاص نے کی اور اس کے کھانے میں بینگن کا بھرتا بھی رکھ دیا۔ بادشاہ کو بھرتے والی یہ ڈش بہت پسند آئی تو اس کے مشیر نے بیگن کے فوائد گنوانا شروع کر دیئے اور بیگن کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کو بڑے انعام و کرام سے نوازا۔ کچھ ہی عرصے بعد اس مشیر نے بادشاہ کی دوبارہ دعوت کی اور بیگن کا بھرتا کھانے کے ٹیبل پر دوبارہ دھر دیا۔ جب بادشاہ نے ایک بار پھر بیگن کا بھرتا چکھا تو بادشاہ سلامت غصے میں آ گئے اور اپنے مشیر کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کر دی۔ اس پر مشیر باتدبیر نے فورا پینترا بدلا اور بیگن کی بدتعریفی کرتے ہوئے کہنے لگا، "بھلا بیگن بھی کوئی ڈش ہے، نہ اس کی کوئی شکل ہے اور نہ اس کا کوئی ٹیسٹ ہے، ایسے ہی اس کا کالا سا رنگ ہے، اور یہ پودے کے ساتھ الٹا لٹکا رہتا ہے۔”
اس پر بادشاہ کو اور زیادہ غصہ آ گیا اور مشیر سے پوچھا کہ اس دن تو آپ بینگن کی بڑی تعریف کر رہے تھے اور آج یکایک اس کی برائی کیوں کر رہے ہو؟ اس پر چالاکی سے کام لیتے ہوئے مشیر نے فورا کہا: "بادشاہ سلامت، ہم آپ کے مشیر ہیں بینگن کے نہیں۔” بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں کے بعد 90 کی دہائی میں نون لیگ کی حکومتوں نے بھی اپنے اپنے دور میں مزید مشیر بھرتی کیئے۔ اب جو نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت ہے اسے وزیراعظم، وزراء اور مشیران تو چلا ہی رہے ہیں مگر ان کا "بادشاہ” وہ وزیراعظم ہے یا آرمی چیف ہے ان سب پر بھاری دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف آرمی چیف نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سمیت تین بڑے سابق فوجی افسران کو گرفتار کیا ہے، پی ٹی آئی کے 9مئی کے مجرمان کے خلاف حتمی فیصلہ ہونے جا رہا ہے، یہ حکومت سیاسی ساکھ کا اپنا بھرم بھی گوانا نہیں چاہتی ہے۔ یہ حکومت برملا طور پر شاہی دور میں جی رہی ہے۔ وہ ہاں میں ہاں ملاتی ہے تو تب مرتی ہے اور نہیں ملاتی ہے تو تب بھی مرتی ہے۔ وہ زندہ رہنا چاہتی ہے تو بیگن کے بھرتے والی مثال کی طرح بس پینترے ہی بدلتی رہے۔
Title Image by Microsoft Designer
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔