جب انبیاءؑ چھوٹے سے چھوٹے پیشوں سے وابستہ رہے، تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔۔۔؟
جب انبیاءؑ چھوٹے سے چھوٹے پیشوں سے وابستہ رہے، تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔۔۔؟
تحریر: جوسف علی
قرآن مجید نے ہاتھ سے کام کرنے والے محنتی کو خدا کا دوست کہا ہے (الکاسب حبیب اللہ)، جبکہ کام کی اہمیت کے حوالے سے حقیقی خوشی کے موضوع پر آخری مصدقہ فلسفی برٹرینڈ رسل نے ایک مشہور زمانہ کتاب لکھی جس کا نام ہے:
"The Conquest of Happiness”
جس میں مختلف زاویوں سے حقیقی خوشی کی وجہ ‘کام’ کو بتایا گیا ہے۔ رسل کا ایک اور مشہور قول ہے کہ، "عزت؍نفس کے بغیر حقیقی خوشی کا حصول انتہائی مشکل ہے، اور جو شخص کام کرنے سے شرماتا ہے اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ عذت نفس کو قائم رکھ سکے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دنیا میں عزت و تکریم کا صحیح حقدار صرف وہی انسان ہے جو کام کرنے سے محبت کرتا ہے۔
انبیاء کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے سے بھی نفرت نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش پیغمبروں کو بھیجا۔ سب پیغمبر ہاتھ سے کام سے پیار کرتے تھے، کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ جتنا زیادہ کام کریں گے وہ اللہ کی قربت اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے اتنے ہی زیادہ حقدار قرار پائیں گے۔
حضرت آدمؑ تمام بنی نوع کے باپ ہیں۔ حضرت آدم جب زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے کھیتی باڑی کو اپنا پیشہ بنایا۔ حضرت شیثؑ نے دنیا میں سب سے پہلے کپڑا تیار کیا اور سب سے پہلے کپڑے کی صنعت کی بنیاد رکھی۔
حضرت ادریسؑ نے سب سے پہلے سوئی ایجاد کی جس کی مدد سے انہوں نے کپڑوں کو سلائی کرنا شروع کیا اور یوں وہ درزیوں کے کام سے منسلک ہوئے۔حضرت نوح ؑ ایک ماہر بڑھئی تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بڑی کشتی تیار کرنے کا حکم دیا تاکہ اپنی قوم کے نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکیں، جبکہ حظرت نوحؑ ایک ماہر ملاح بھی تھے۔ حضرت ھود ؑ تجارت کے شعبہ سے منسلک تھے اور ایک ماہر تاجر تھے۔ حضرت صالحؑ کے پاس اونٹوں کے ریوڑ تھے۔ وہ اونٹوں کے دودھ کی تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت صالحؑ کی اونٹی کا واقع قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔
حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کی، انہیں ایک ماہر تعمیرات بھی مانا جاتا ہے۔حضرت اسماعیلؑ ایک ماہر شکاری اور ماہی گیر تھے۔
حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ ایک چرواہا تھے۔حضرت یوسفؑ، حضرت ایوبؑ اور حضرت شعیبؑ
زراعت کے شعبہ سے منسلک تھے یعنی کسان تھے۔
حضرت موسیٰ ؑ بھی ایک چرواہا تھے۔ حضرت داؤدؑ ایک لوہار تھے اور لوہےکے ہتھیار بنانے کے ماہر تھے۔
حضرت سلیمانؑ ایک بادشاہ تھے مگر انہوں نے ہی سب سے پہلے پیتل کی کان کنی کا آغاز کیا۔
حضرت ذوالکفلؑ ایک نان بائی تھے۔انہیں ایک ماہر نانبائی (ماہر پکوان) بھی مانا جاتا ہے۔
حضرت الیاسؑ کپڑا بننے کے ماہر تھے اس کے علاوہ وہ دھاگہ چُننے کے بھی ماہر تھے۔
حضرت یونس ؑ ایک ماہر ماہی گیر تھے۔ حضرت عزیرؑ ایک ماہر مالی تھے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے لوگوں کو پھلدار درختوں کی قلم کاری کرنا سکھایا تھا۔ حضرت ذکریاؑ ایک ماہر بڑھئی تھے۔
حضرت عیسیٰ ؑشکاری پیشہ سے تعلق رکھتے تھے۔
جبکہ حضرت محمدﷺ
بکریاں چرایا کرتے تھے اور ایک نہایت ہی بہترین اور ایماندار تاجر بھی تھے۔
اہل مغرب کی انفرادی اور اجتماعی ترقی کا راز بھی یہ ہے کہ وہ کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یورپئین ممالک کے وزرائے اعظم اور وزراء وغیرہ کی سادگی اور کام کرنے کا یہ عالم ہے کہ وہ گھروں اور دفتروں کی صفائی تک خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ وہاں گھروں اور دفتروں میں ہماری طرح نوکر چاکر رکھنے کا رواج نہیں ہے۔ جبکہ ہم یورپ جا کر تو گوروں کی طرح چھوٹے سے چھوٹے کام بھی کر لیتے ہیں مگر وہی کام اپنے ملک میں کرنے کو عار سمجھتے ہیں
یوں ہمارے ہاں انگریزوں کے کتے نہلانے کا محاورہ مشہور یے مگر یہ حقیقت کم اور محاورہ زیادہ ہے کیونکہ ان ممالک میں اسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو کام سے نفرت نہیں کرتا، چاہے وہ کتنا ہی گھٹیا ہو حالانکہ انگلینڈ میں تو کسی بھی کام کو گھٹیا سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔ وہاں کام کی عظمت کا تصور عوام الناس کے دلوں میں خصوصی طور پر بٹھایا گیا ہے، وہاں بڑے بڑے طرم خان فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ باربر یا بچر وغیرہ کا کام کرتے ہیں اور ہمارے ملک کی طرح وہاں کوئ بھی ان کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا یے۔
دراصل ہم نفسیاتی طور پر ابھی بھی غلام ہیں اور خود پر آزادی کی جھوٹی ملمع کاری کرنے کے لئے ایسی ایسی چالیں چلتے ہیں اور لمبیاں لمبیاں چھوڑنے کی غلطی کرتے ہیں کہ جس کا حقیقت سے دور دور کا بھی کوئ تعلق نہیں ہوتا۔ میں نے لندن کناری وارف میں بنک آف نیویارک میں چار سال تک کام کیا اور ایک دن بھی ایسا نہیں دیکھا جب کوئی سینئر افسر اپنے ماتحت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ اس کاروباری ادارے کا دفتر گلنگل برج، لندن ایرینا میں بھی ہے۔ یہ ایک بڑا عالمی کاروباری ادارہ یے جس میں لگ بھگ 5 ہزار ملازمین ہیں اور میں نے اس کے چیئرمین کو مشین سے اپنے ہاتھوں سے چائے نکالتے اور اپنے میز پر ڈسٹر مارتے دیکھا ہے۔
ان قوموں کی ترقی کا راز کام سے نفرت نہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں ان کی خصوصی ذہنی تربیت کی گئ ہے جیسا کہ انگلینڈ کے معروف فلسفی رسل (جس کا پہلے ذکر آیا ہے) اور دیگر لکھاریوں نے عوام الناس کی خصوصی زہن سازی کی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں اس مد میں کوئی کام نہیں ہوا۔ بلکہ ہمارے معاشرے میں چھوٹے کام کرنے والوں مثلا کسان، لوہار، نائ، حلوائی، قصائ، درزی اور نان بائی وغیرہ کو ‘کمی کمین’ سمجھا جاتا ہے بلکہ ان سے نفرت کی جاتی ہے، حالانکہ یہ تمام پیشے ہمارے پیارے انبیاءؑ کی ‘سنت’ ہیں اور اسی لئے اس کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن میں ہاتھ سے مزدوری کرنے والے کو ‘خدا کا دوست’ کہا گیا ہے۔ لیکن ہم قرآن اور انبیاء کی سنت کے برعکس چھوٹے کاموں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم بھی کام کی اہمیت سمجھ جائیں تو ہم بھی کام چوری کے جھوٹے خول سے باہر آ سکتے ہیں اور کام کی طاقت کو اپنا کر دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے برابر کھڑے ہو سکتے ہیں:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر،
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔