ہم کو تو فقط اپنے ہی حالات کا دُکھ ہے
کچھ تم بھی بتاؤ تم کو کس بات کا دُکھ ہے
بھر جائیں گے یہ زخم تو دو چار دنوں میں
جو دل پہ لگائی ہے اسی گھات کا دُکھ ہے
بستر کی سلوٹیں بھی یہی کہہ رہی ہیں اب
بیتی جو بنا تیرے اُس رات کا دُکھ ہے
پیمان سبھی ضبط کے تھے یاد مگر اب
محفل پہ جو برسی تھی اس برسات کا دُکھ ہے
تاعمُر جسے پوجا خدا جان کے اپنا
اُس کو بھی فقط اپنی ہی بس ذات کا دُکھ ہے
دیکھا تجھے تو جھوم اُٹھا کیسے مرا دل
سینے میں اسؔد میرے جو جذبات کا دُکھ ہے
کلام: عمران اسؔد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔