پانی زندگی ہے
کہانی کار: سید حبدار قائم
والدین نے بچے کا نام اشرف رکھا تھا گاوں میں سب اس کو اچھو کہتے تھے اچھو سارے گاوں کی آنکھوں کا تارا تھا اچھو نے گاوں کے سکول میں داخلہ لے لیا تھا ۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بہت سارے دیہاتی کھیل کھیلتا تھا ۔ جن میں گلی ڈنڈا کانچے اور دیہات کے دوسرے کھیل شامل تھے ۔ باقی دوستوں کی طرح اچھو پاپڑوں مُرنڈے اور ٹافیوں پر خرچ نہیں کرتا تھا۔ بلکہ وہ اپنے پیسے خزانے (مٹی کا برتن جس میں بچے پیسے ڈالتے ہیں ) میں جمع کرتا تھا۔ اس کے ماں باپ حتٰی کہ جتنے رشتہ دار بھی اسے پیسے دیتے تھے ۔ وہ خزانے میں محفوظ کر لیتا تھا۔ اچھو کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پاس کتنی رقم جمع ہو چکی ہے۔
یونہی دن گزرتے رہے اچھو نے گاؤں میں ہونے والے اچھے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اچھو اپنے دوستوں کے گھروں میں جاتا تھا۔ اس لیے اسے سارے دوستوں کے گھر کے حالات پتہ تھے۔ اچھو پاکستان ٹی وی کے سارے پرگرام بہت شوق سے دیکھتا تھا۔ وہ طارق عزیز شو بہت غور سے دیکھتا تھا۔ جس میں معلومات کا اک خزانہ تھا۔ اس پروگرام کو دیکھ دیکھ کر اچھو کے علم میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ اچھو کو طارق عزیز شو کے جو سوال یاد ہوجاتے تھے وہ اپنی ڈائری میں لکھ لیتا تھا اور وہی سوال دوسرے دن اپنے دوستوں سے پوچھا کرتا تھا۔ اس کے دوست اکثر وہ جواب نہیں دے پاتے تھے۔ اچھو آٹھویں جماعت میں پہنچ چکا تھا۔ ایک دن اچھو نے جونہی ٹی وی آن کیا تو اس نے یہ خبر سنی کہ زمین میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے گاؤں میں بور کیے گۓ نلکوں میں بھی پانی کم ہو گیا تھا۔ اس لیے اچھو کو یہ فکر کھاۓ جا رہی تھی۔ کہ پانی کی کمی کو کیسے ختم کیا جاۓ ۔ گورنمنٹ آف پاکسان نے گاؤں کو پانی مہیا کرنے کے لیے گاؤں میں ایک ٹینکی بنائی ہوئی تھی جس کا پانی دن میں ایک بار کُھلتا تھا ۔ اچھو جب سکول سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ گاؤں کی گلیوں میں واٹر سپلائی کا پانی بہہ رہا ہے وہ بستہ گھر میں رکھ کر دوستوں کے گھروں میں گیا ۔ تو اس نے دیکھا کہ بہت سارے گھروں کی ٹونٹیاں لیک تھیں اور پانی ضائع ہو رہا ہے اور کچھ گھروں کی ٹونٹیاں بلا وجہ کھلی ہوئی تھیں جن کی وجہ سے پانی بلاوجہ گلیوں میں بہہ رہا ہے۔ اچھو نے اپنے سارے دوستوں کو بلایا پانی کے متعلق بتایا کہ زمین کی سطح میں پانی کم ہو گیا ہے اس لیے اپنے گھروں کی ٹونٹیاں ٹھیک کرائیں اس کے دوستوں نے اسے بتایا کہ غریبی کی وجہ سے وہ نئی ٹونٹی نہیں خرید سکتے اس لیے ان کے گھروں میں پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اچھو سب کی بات سن کر گھر چلا گیا اور ساری بات اپنے ابو جان کو بتائی۔ اس کے ابو جان گاؤں کی جامع مسجد میں خطیب تھے اس کے ابو نے پوچھا کہ بیٹا اس کا کیا حل کرنا چاہئے تواچھو نے انہیں جواب دیا کہ گاؤں میں جو غریب لوگ ٹونٹی نہیں لگوا سکتے انہیں ہم ٹونٹی لگوا کر دیں گے اس کے ابو نے کہا کہ بیٹا یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اتنی رقم ہم کہاں سے لیں گے ۔ یہ سن کر اچھو نے جواب دیا کہ یہ ساری رقم اچھو دے گا ۔ اچھو کے والد صاحب حیران ہو گئے اور کہا کہ اتنی رقم تو کہاں سے لے گا؟ تو اچھو نے جواب دیا کہ بچپن سے لے کر اب تک اس کو جتنی رقم دی گئی ہے وہ اس کے پاس محفوظ ہے۔ اس کے والد نے کہا کہ گاؤں میں بخشو چاچا پلمبر کا کام کرتا ہے میں کل اس سے بات کروں گا کہ وہ گاؤں کے ہر گھر میں جاکر نئی ٹونٹی لگا دے تاکہ پانی ضائع ہونے سے بچ جائے چناں چہ طے شدہ پروگرام کے مطابق سارے گاؤں میں نئی ٹونٹیاں لگا دی گئیں جن کی رقم اچھو نے دی گاؤں کا ایک محلہ جو اونچائی پر تھا۔ اس کو اکثر پانی نہیں ملتا تھا جس کی وجہ سے وہ لوگ بہت تنگ تھے جب گاؤں میں نئی ٹونٹیاں لگ گئیں تو پانی ضائع ہونے سے بچ گیا اور اونچائی پر واقع گاؤں کے محلے کو بھی پانی زیادہ مقدار میں ملنے لگا۔ اچھو کی اس نیکی کی وجہ سے سارا گاؤں اسے دعا دینے لگا جمعہ کے خطبہ میں اچھو کے والد جو عالم دین تھے انہوں کی اچھو کی مثال دے کر لوگوں سے کہا ایک چھوٹے سے بچے نے ہمیں بتا کر کس طرح پانی ضائع ہونے سے بچایا اب ہمیں بھی مل کر گاوں کے پانی کو محفوظ بنانا چاہیے
لوگوں نے پوچھا کہ ہم کیسے یہ کام کر سکتے ہیں تو مولانا صاحب نے کہا کہ ہر سال بارشیں ہوتی ہیں ہمیں مل کر ایک ڈیم بنانا چاہیے جس سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے
چوں کہ گاوں کی شمال کی جانب گہری کھائیاں تھیں اس لیے ان کی دوسری جانب ایک بند باندھا گیا جو بارشوں سے بھر گیا گاوں والوں نے اس ڈیم کانام اچھو ڈیم رکھ دیا ڈیم کے ساتھ زمینوں میں سبزی لگائی گئی جو پورے گاوں میں سستی بیچی جاتی تھی ایسا کرنے سے گاوں میں خوشحالی آ گئی اور لوگ خوش ہو گۓ
سچ ہے پانی زندگی ہے
پیارے بچو! ہمیں پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے پانی ضائع کرنے سے منع کیا ہے اور انسانوں سے بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہمیشہ نیکی کرنی چاہیے
جب تک گاوں کے اچھو ڈیم سے پانی لے کر لوگ کھیتی سیراب کرتے رہیں گے اچھو کو ثواب ملتا رہے گا اس لیے ہمیں بھی اپنے شہروں اور گاوں میں دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنی چاہیے تا کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے نبی حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم ہم سے راضی ہو جائیں تو یہی کامیاب زندگی ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔