کسی بھی معاشرے میں اُستاد Teacher کا کِردار اہم ترین اور بنیادی ترین ہوتا ہے , اُستاد اپنے شاگردوں کے لیئے Role.Model کی حیثیت رکھتا ہے , طالبِ علم غیر محسوس مگر فطری طور پر اپنے اُستاد سے Inspire ہوتا ہے , اور استاد جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے , میرے اس بیانیئے کی دلیل اور زندہ مثال مُحترم جناب پروفیسر انور جلال ملک صاحب ہیں , جن کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے , اور ان کا ادبی و جمالیاتی ذوق ان کے استاد کی جھلک دکھاتا ہے ,
میرے ذاتی خیال میں ایک استاد کو ممکن حد تک تمام انسانی خُوبیوں کا مرقع ہونا چاہیئے مگر تین بنیادی خصوصیات کا ہونا تو ازبس لازم ہے
1 اپنے شعبے کا وسیع تر علم
2 آواز و اندازِ بیاں , اور شاگرد کے دل و ذہن تک اپنا مافِی الضَّمیر پہنچانے بلکہ اُتارنے کی صلاحیت
3 استاد کی شخصیت یعنی personality
میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ان تمام خُوبیوں کا مرقع ہیں مُحترم پروفیسر انور جلال ملک صاحب ! اُن کا علم , اندازِ بیاں , آواز و گفتگو کا جادو سامع پر سحر طاری کر دیتا ہے , اور شخصیت , خُوش لباسی , رہن سہن ,نشست و برخواست کا سلیقہ تو بس قابلِ تقلید حد تک مثالی ہے , یہی وجہ ھے کہ ان کے شاگرد اور چاہنے والے آج بھی اُن سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں
میرے لیئے یہ بات بے حد خُوش کُن ہے کہ میری خواہش اور بےحد اسرار پر محترم پروفیسر محمد انور جلال ملک صاحب کے افسانوں کا پہلا مجموعہ (صبح کا انتظار) کے عُنوانِ سے میرے ہاتھوں میں ہے، بہت ہی پیارے اور مہربان دوست جنابِ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب کے ہاتھوں بصد شکریہ وصول پایا،
پروفیسر انور جلال ملک صاحب کیمبل پُور کے مایہ ناز سپوت ہیں، ایک بہترین، مکمل اور پرکشش و سحر انگیز شخصیت؛ ایک ایسا قابل اور ماہر اُستاد کہ شاگرد جسے کبھی فراموش نہیں کر پاتا، اپنے شاگردوں میں اُردو ادب سے ایسی محبت پیدا کی کہ اس وقت اٹک کے نامی اساتذہ ؛ ادیب ؛ محقق؛ شاعر بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اُن کے شاگردوں کی اکثریت ہے، گورنمنٹ ڈگری کالج اٹک کے ادبی مجلّہ مشعل کے ذریعے انور جلال صاحب نے اپنے شاگردوں میں لکھنے کا شوق اُبھارا؛ شاگردوں کی شاعری؛ افسانوں کی نوک پلک سنوارتے سنوارتے اکثر خود ہی نئی چیز لکھ ڈالی اور اکثر اپنے افسانے شاگردوں کے نام سے شائع کر دیئے،
ملک صاحب کے افسانے ایسی کہانیاں ہیں کہ جو سچے واقعات اور کرداروں کی حامل ہیں بلکہ یُوں کہئے کہ افسانوی انداز میں لکھی گئی یادداشتیں ہیں تو شاید غلط نہ ہوگا جنہیں قاری جب پڑھنے لگتا ہے تو کہانی اور کردار اُسے جکڑ لیتے ہیں، اور تا آخر ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے؛ ,, مثلاً داغِ ناتمامی،، میں اچھو کا کردار چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے،,, اپنا گھر ،، تو جیسے معاشرے کے ہر کی کہانی ہے، افسانے میں چُھپا حُزن و درد محسوس ہونے لگتا ہے،
گو کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے؛ مگر شُکر ہے پھر بھی آئے تو؛ مجھے یقین ہے کہ پروفیسر صاحب کے پاس ابھی مزید بھی خزانہ موجود ہے اور اِن شآء اللہ جلد ہی ہم ایک اور مجموعہ دیکھ سکیں گے،
جنابِ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب کی محنت سرِ ورق تا ورق ورق دیکھی جا سکتی ہے؛ سرمد اکادمی اٹک نے اپنی کاوشوں سے ان خُوبصُورت تخلیقات کو اشاعت آشنا کیا اور بہت خُوب کیا، اور ناشاد صاحب سے توقع رکھوں گا کہ وہ پروفیسر صاحب سے مزید شہ پارے بھی حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے اور جلد ہمیں ایک نئی کتاب کا تحفہ دیں؛
پروفیسر محمد انور جلال ملک صاحب اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب کی محبتوں کے لیئے مشکور ہوں؛ سلامت رہیئے اور اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی و سلامتی کے ساتھ طولِ عمر عطا فرمائے اور آپ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم فرمائے ؛
آمین ثم آمین
سیّد مونس رضا
معلم، مدبر، مصنف
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔