کامرہ کلاں – آخری حصہ
ٹھیکریاں والا بابا:نصراللہ بن عبدالسلام بھیری اٹکی
یہ مزار ٹھیکریاں میں واقع ہے ۔آنکھوں کی بیماری میں مبتلا مریض دور دراز علاقوں سے یہاں آتے ہیں۔ یہاں یوں تو ہر اتوار کو میلہ ہوا کرتاہے لیکن سال میں ایک بارمارچ کے مہینے میں کسی ایک اتوار کو بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔اس اتوار کو جھلا اتوار کہتے ہیں ۔ بابا جی کے حالات زندگی کے بارے میں عارف نوشاہی لکھتے ہیں: "نصر اللہ بن عبدالسلام بن تاج الدین بن بہا الدین محرم یا صفر 1076 ھ(مطابق جولائی یا اگست1665)میں پیدا ہوئے۔ان کے تین بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:بدر الدین محمد،عظیم الدین محمد،محمد قدرت اللہ۔ان کی قوم نسبت”کھوکھر”اور وطنی نسبت "بھیری” تھی۔مرآۃ فی شرح اسما ء المشکوۃ "کے کاتب نے ان کی وطنی نسبت "اٹکی "لکھی ہے؛جس کی شہادت ان کے کتابت کردہ دیگر رسائل سے بھی ملتی ہے۔وہ قادریہ سلسلہ میں شاہ محمد اسماعیل گیلانی کے مرید تھے،جو 1113 میں حیات تھے۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تعلیمات سے بہت متاثر تھے۔ان کی کتابیں پڑھتے اور کتابت کرتے تھے۔اٹک کے معروف محقق نذر صابری کے مطابق نصراللہ کا خاندان قدیم اٹک میں مقیم تھا؛وہاں سے کامرہ کلاں سے متصل چھوٹے سے گاؤں ٹھیکریاںمیں آبسے ۔یہاں اپنے عرفی نام”میاں ولی”کے نام سے مشہور ہوئے۔آخری عمر میں مجذوب ہو گئے تھے۔یہیں وفات پائی1128ھ اور1147 ھ کے درمیان کسی سال میں فوت ہوئے ،یہیں ٹھیکریاں میںمدفون ہیں۔ان کے مزار کی نسبت سے ٹھیکریاں گاؤں کو”زیارت”بھی کہا جاتا ہے۔انھیں علمِ لغات سے خصوصی دل چسپی تھی۔محققین کے مطابق وہ معلم/مدرس اور محتاط کاتب تھے۔عربی اور فارسی کے معتبر لغات ان کے مطالعہ میں رہتے تھے ۔”مرآۃ فی شرح اسما ء المشکوۃ "کے علاوہ "تاج المصادر”اور "مہذب الاسماء فی مرتب الحروف والاشیا”کے حواشی لکھے۔مسودے پر”الا ان نصر اللہ قریب”کی مہر بھی لگاتے تھے تا کہ سند رہے۔شعر بھی کہتے تھے۔”مرآۃ فی شرح اسما ء المشکوۃ "کے خاتمے پر اُن کے 58 شعردرج ہیں۔اب تک اُن کی ایک تالیف،ایک رسالے کی ترتیب نو اور سات کتب و رسائل کی کتاب سامنے آ چکی ہے،جن کا مختصر احوال درج ذیل ہے:
"مرآۃ فی شرح اسما ء المشکوۃ ":دسمبر 1714 میں تالیف کرنا شروع کی اور جون 1716 میں اسے مکمل کیا۔جب نسخے کی تسوید مکمل کر لی تو خواب میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔
تاج المصادر:یہ ابو جعفر احمد بن محمد مقری بیہقی کا عربی سے فارسی لغت ہے۔جس کے نصراللہ نے حواشی لکھے ہیں۔
"مہذب الاسماء فی مرتب الحروف والاشیا”:یہ محمود بن عمر بن منصور قاضی زنجی سجری شیبانی کی تصنیف کردہ عربی سے فارسی فرہنگ ہے۔جس کےنصر اللہ بن عبدالسلام نے حواشی لکھے۔
مثلثات بدیعی:یہ ایک منظوم نصاب ہے جس کے قلمی نسخے عام ملتے ہیں۔طلبہ کی سہولت کے لیےنصراللہ نے اس کی ترتیب بدل کر اسے حروف تہجی کی ترتیب سے مرتب کیا۔
مرج البحرین و جامع الطریقین:شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تصنیف ہے۔
مجموعہ رسائل /اول:یہ دو رسائل کا مجموعہ ہے اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تصنیف ہے۔
رسالہ اصولِ حدیث:یہ میر سید شریف جرجانی کا عربی رسالہ ہے۔
مجموعۂ رسائل /دوم:یہ تین رسائل کا مرقع ہے:”آدابِ لباس،رسالۂ عربی ( ص 14 تا 23 )،رسالۂ عربی(ص 24تا28)
ماخذ:نقدِ عمر،عارف نوشاہی،،اپریل 2005،ص55
خرقی بابا:
ٹھیکریاں اور کامرہ کے درمیان روڈ کے جنوب میں "سیتھ "کے ایک چھوٹے سےٹکڑے پر ایک چھوٹی سی بستی ہے(یہ بستی کامرہ گاؤں کا حصہ ہے)؛اس آبادی کی مغربی سمت میں ایک بزرگ "خرقی بابا”دفن ہیں۔یہاں کالی کھانسی(کھر کھگ)میں مبتلا بچے لائے جاتے ہیں۔
مشاہیرِ کامرہ:
کامرہ بابا:(عالمِ صرف)
کامرہ بابا کا اصل نام محمد حسین ہے۔کامرہ گاؤں میں سکونت کی وجہ سے ان کے شاگرد انھیں کامرہ بابا کہا کرتے تھے ؛بعد ازآں ان کا اصل نام پس منظر میں چلا گیا اور وہ کامرہ بابا ہی کے نام سے مشہور ہو گئے۔علمِ ’’صرف ‘‘اور اس کی تدریس پر کامل دست گاہ کی وجہ سے انھیں صرفی بابا بھی کہاجاتا تھا ۔آپ کے والد کا نام جلال الدین ہے۔کامرہ بابا نے سرائے سعد اللہ اور حطار میں صرف و نحو کی تعلیم حا صل کی۔آپ کے ہاں کابل سے دہلی تک کے طلبہ پڑھنے کے لیے آتے تھے۔طلبہ کی کثرت کی وجہ سے آپ انھیں گاؤں کی تمام مساجد(جن کی تعداد چھے تھی)میں تقسیم کر دیتے۔طلبہ گاؤں کے متمول گھروں سے روٹی سالن مانگ کر لاتے جسے وظیفہ کہا جاتا۔ایک بار صوبہ سرحد کے ایک امیر آدمی نے مستقل لنگر اور چارپائیوں کی پیش کش کی لیکن آپ نے یہ کہ کر اس کی پیش کش مسترد کر دی کہ اس بے سروسامان مدرسے میں اس وقت جو طالبِ علم بھی آتا ہے وہ خالص پڑھنے کی نیت سے آتا ہے لیکن اگر لنگر جاری ہو گیا تو پھر یہ بھگوڑوں کی سیر گاہ بن جائے گا۔آپ کی تدریس کا یہ طریقہ تھا کہ ادارے سے مانوس کرنے کے لیے نووارد طالبِ علم سے تین ماہ کوئی علمی کام نہیں لیتے تھے۔سال میں ایک بار اٹک خرد میں دریا کے کنارے شاگردوں کی دعوت کرتے تھے ۔آپ کی تدریس کی دارالعلوم دیو بند تک شہرت تھی۔’’صرف‘‘پر آپ کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے شاگردوں کا دارالعلوم دیو بند میں علم صرف کا امتحان نہیں لیا جاتا تھا۔ آپ کو دارالعلوم میں’’صرف‘‘کی تدریس کی دعوت بھی دی گئی لیکن آپ یہاں کے طلبہ کی علمی محرومی کے پیشِ نظر وہاں نہیں گئے۔آپ کے تیار کردہ’’قانونچہ ٔ کامروی‘‘سے اب بھی سیکڑوں مدارس اور اساتذہ استفادہ کر رہے ہیں۔فارسی،عربی،پشتو،پنجابی اور سرائیکی زبان جانتے تھے ۔سر پر پگڑی اہتمام سے باندھتے تھے۔آپ ۱۹۵۸ء میں ٹانگوں کے ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوئے اور یہی مرض آپ کا مرض الموت ثابت ہوا۔آپ پنڈ سلیمان مکھن،کامرہ میں آسودۂ خاک ہیں۔
اعجاز حسین بخاری:(سیاست دان)
اعجاز بخاری کے نام سے شہرت ہے۔کامرہ کلاں کی سادات فیملی سے تعلق ہے۔5 /مارچ 1941 میں کامرہ میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید مرتضیٰ بخاری ہے؛جنھوں نے کامرہ گاؤں میں تشیع کی بنیاد رکھی۔اعجاز بخاری نےگورنمنٹ ہائی سکول اٹک(حال پائیلٹ سیکنڈری سکول)سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اسلامیہ کالج کراچی سےایف اے اور بعدازآں بی اے کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔1966 میں کراچی یونی ورسٹی سے ایل ۔ایل۔ بی کی سند لی اور اسی یونی ورسٹی سے ہسٹری میں ایم ۔اے کا امتحان پاس کیا۔آپ اٹک سٹی میں وکالت بھی کرتے رہے۔ضلع کونسل اٹک کے مجلہ” اٹک فیسٹیول "کی ادارت کی ۔ستر کی دہائی میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور کئی بار کامرہ یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔1983 میں ضلع کونسل کے وائس چیئر مین منتخب ہوئے؛1985 میں ضلع کونسل کے چیئر مین کے لیے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔2002 میں متحدہ مجلسِ عمل کی طرف سے انتخابی حلقےپی پی 15 میں الیکشن میں شریک ہوئے اور کامیابی حاصل کی ۔2013 کے انتخاب میںپاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر اٹک سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔آپ نے کئی ممالک کے دورے کیے۔2004 میں مصر کا سرکاری دورہ کیا۔2006 میں کاروبار کے سلسلے میںایران گئے۔ 2008 میں عراق اور 2009 میں شام کا دورہ کیا۔سید اعجاز بخاری انتہائی سادہ اور ملنسار سیاست دان ہیں۔سیاست آپ کو ورثے میں نہیں ملی بلکہ آپ نے ذاتی محنت ، ایمان داری اور اخلاص سے موروثی سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے اپنا آپ منوایا۔آپ نے ضلع اٹک کی سیاست کو نیا رنگ دے کر عوامی بنایا۔آپ سے پہلے سیاست دان ووٹ لے کر اگلے الیکشن تک غائب ہو جاتے تھے لیکن آپ کے دروازے ہر وقت ہر ایک کے لیے کھلے رہتے تھے۔آپ اپنے ووٹروں کو ہمہ وقت دستیاب تھے۔بعد میں آپ کی دیکھا دیکھی اٹک میں ہر سیاست دان نے یہی عوامی انداز اپنا لیا۔آپ ہزاروں غریبوں ،محتاجوں اور بیماروں کے کفیل ہیں۔ 2018 میں سیاسی میدان اپنے بھتیجے اور داماد یاور بخاری کے سپرد کر کے بہ ظاہر سیاست سے علاحدہ ہو گئے۔
واجد حسین بخاری،سید:(سیاست دان)
سیدواجد حسین بخاری کامرہ کے سادات قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں14/فروری 1945 کو پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم سے بی اے تک کی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔آپ معروف سیاست دان سید اعجاز بخاری کے بھائی ہیں۔عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کے والد ہیں۔والد کا نام سید مرتضیٰ بخاری ہے۔امریکہ میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر کام کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق کے ایڈوائزر رہے۔پرویز مشرف کے دور میںمحمدمیاں سومرو کی کابینہ میں اِنوائرمنٹ ،لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈیویلپمنٹ کے وزیر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی اہم شخصیت شمار کیے جاتے ہیں اور کور کمیٹی کے ممبر ہیں ۔شپنگ، پراپرٹی ،ڈیویلپمنٹ اور کنسٹرکشن جیسے ذاتی کاروبار ہیں۔مستقل قیام اسلام آباد میں ہے۔
یاور عباس بخاری،سید:(سیاست دان)
سید یاور عباس بخاری اٹک کے معروف سیاست دان اعجاز حسین بخاری کے بھتیجے اور داماد ہیں ۔ سابق وفاقی وزیر سید واجد حسین بخاری بھی آپ کے چچا ہیں۔یاور عباس دوستانہ مزاج رکھنے والی شخصیت ہیں۔مشہور سیاسی خاندان کا چشم و چراغ ہونے کے باوجود سیاسی ورکروں کی طرح کام کرتے ہیں،جس کی وجہ سے ہر دل عزیز شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔یاور عباس 10/اکتوبر 1964 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید منظور حسین بخاری ہے۔آبائی گاؤں کامرہ کلاں ہے۔ابتدائی تعلیم برن ہال ایبٹ آباد میں حاصل کی۔اسی ادارے سے 1980 میں O level کا امتحان پاس کیا۔برن ہال کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔Seaford College(England)سےA Levelاوریورپ سے BBAکی ڈگریاں حاصل کیں۔کرکٹ کے عمدہ کھلاڑی رہے ہیں۔انگلینڈ کی کاؤنٹی کےجونیئر گروپ میں منتخب ہو گئے تھے لیکن والدین کے ساتھ پاکستان چلے آئے ۔1990 میں اپنے خاندانی کاروبار(Consultancy)سے وابستہ ہوئے۔ بعد ازاں عباس پیپرز اینڈ بورڈز کے منیجنگ ڈائریکٹر بنائے گئے۔یہ ادارہ بھی ان کےذاتی کاروبار کے زمرے میں آتا ہے۔1998 میں پہلی بار سیاسی افق پر نمودار ہوئےاور اٹک شہر کے ایک حصے وارڈ نمبر6سےکونسلر کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔2005 میں تحصیل اٹک کی نظامت کے لیے قاضی خالد محمود کا سامنا کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔2011 میں اٹک کی یہ بخاری فیملی پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہو گئی ۔ آپ اور آپ کا خاندان تحریک انصاف کی قیادت(عمران خان)کے بہت قریب ہے اور بالخصوص پاناما گیٹ سکینڈل میں نواز شریف کی حکومت گرانے والے گروہ کے مرکزی کرداروں میں شمار ہوتے ہیں۔جولائی 2018 میں یاور بخاری اپنے چچا اعجاز بخاری کی جگہ میدان میں اترے اور پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ستمبر 2018 میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیر مقرر ہوئے۔مارچ 2019 ء میں پاکستان تحریک انصاف(پنجاب) کی حکومت نے انھیںچیئرمین پبلک اکاؤنٹ کمیٹی بنا دیا۔دسمبر 2020 کو پنجاب کی وزارت کا قلم دان بھی ان کے سپرد ہوا۔سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ذاتی کاروبارسے منسلک ہیں؛اور اٹک شہر میں سکونت پذیر ہیں۔
زلفی بخاری:(سیاست دان)
اصل نام ذوالفقار بخاری ہے۔دسمبر 1980 میں پیدا ہوئی۔عمران کے قریبی ساتھی ہیں۔والد کا نام سید واجد حسین شاہ بخاری ہے جو پرویز مشرف کے دور حکومت میں نگران حکومت کے وزیر تھے۔کامرہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان سید اعجاز بخاری کےبھتیجے اور سید یاور بخاری کے چچا زاد بھائی ہیں۔عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی طلاق کے بعد ان کا نام عمران خان کے دوست کی حیثیت سے نمایاں طور پر سامنے آیا۔سفر پر پابندی کے باوجود جب عمران خان انھیں جب جون 2018 میں عمرہ پر ساتھ لے گئے تو بھی ان کا نام "بریکنگ نیوز”کے طور پر نشر ہوتا رہا۔نواز شریف کے دور حکومت میں آف شور کمپنیوں کے جن مالکان کی فہرست جاری کی گئی تھی،ان میں زلفی بخاری کا نام بھی شامل تھا۔ستمبر 2018 میں ان کاSpecial Assistant to the Prime Minister on Overseas Pakistanis and Human Resource Developmentکی حیثیت سے تقرر ہوا۔انگلینڈ میں جائیداد کی خریدو فروخت کا کروبار کرتے ہیں ۔
اشرف الحسینی،ڈاکٹر:(ماہرِ لسانیات)
اصل نام محمد اشرف ہے۔25/فروری1930ء میں کامرہ کلاں میں ملک روشن دین کے گھر پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم لوئر مڈل سکول کامرہ کلاں سے حاصل کی۔شمس آباد کے ورنیکلر سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔گورنمنٹ پائیلٹ سیکنڈری سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔گورنمنٹ پولی ٹیکنیک رسول سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔ دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی میں دور تفسیر کی سند حاصل کی۔بلدیہ لاہور میںبلڈنگ انسپکٹر کے طور پر کام کیا۔لاہور کوآپریٹو ڈویلپمنٹ بورڈ میں ڈرافٹس مین کی حیثیت سے رہے۔ایم اے انگریزی کے بعدقبولہ میں ایک پرائیویٹ انٹر کالج میں پڑھاتے رہے۔بعد ازآں ایم اے اردو کے امتحان میں بھی کامیاب ہوئے۔جنوری 1965ء میں انٹر کالج بھکر میں تقرر ہوا۔اس کے بعد انٹر کالج جہلم چلے آئے۔جہلم کالج کے مجلے’’دی جہلم ‘‘کے مدیر رہے۔گورنمنٹ کالج اٹک کے مجلے ’’مشعل‘‘کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھائی۔1990ء میں گورنمنٹ کالج اٹک سے سبک دوش ہو گئے ۔ 1942ء میں ادب سے وابستہ ہوئے ۔ابتدا میں سیف تخلص اختیار کیا ؛بعد ازآں پولی گلوٹ اورایم اشرف کے نام سے بھی لکھتے رہے۔دنیا کی چھبیس(26)زبانوں پر دسترس کا دعوی ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعداٹک چھوڑ کر لاہور کو مستقل مسکن بنا لیا تھا۔14۔جولائی 2019کو وفات پائی۔لاہور میں دفن ہوئے۔
مہر حسین شاہ:(محقق)
10/جنوری1954ء میں کامرہ گاؤںمیں پیدا ہوئے۔والد کا نام فضل حسین ہے۔1971ء میں گورنمنٹ پائیلٹ سکول اٹک سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد کچھ عرصہ خواجہ گلاس فیکٹری حسن ابدال میں کام کرتے رہے۔1973ء میں میونسپل کمیٹی حسن ابدال میں ملازمت مل گئی۔1999ء میں وہیں سے سبک دوش ہو گئے۔1974ء سے لکھنے کا آغاز کیا۔خاص رنگ دینیات ہے۔اہلِ بیت کرام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ان کی تحریروں میں انھیں شخصیات کا تحفظ اور مدح سرائی کا رنگ دکھائی دیتا ہے؛ا ن کی تحریر میں مناظرانہ انداز کا غلبہ دکھائی دیتا ہے؛اسی لیے کئی بار "واجب القتل”فتوے کی زد میں آئے۔بھٹو دورِ حکومت میں نصرت بھٹو کے خلاف’’خاتونِ اول‘‘کے عنوان سے مضمون لکھے اوراکوڑہ خٹک کے مجلے ’’الحق‘‘کے اس ماہ کے مجلے کی ضبطی کا باعث بنے۔کئی کتب کے مصنف ہیں ۔ 7/مارچ 2015 کووفات پائی ۔آبائی گاؤں کامرہ کلاں میں دفن ہوئے ۔
سیّد رفیق احمد شاہ بخاری(استاد، ماہر تعلیم،مصنف اور محقق)
اکتوبر 1938ء کو کامرہ کلاں میں پیدا ہوئے، والد سید شاہ علی حیدر بخاری برطانوی فوج میں تھے ۔ والدہ ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ شاہ عنایت اور شاہ ولایت شمس آبادی کے خاندان سے تھیں ۔ آپ نے آٹھویں تک تعلیم کامرہ کلاں سے حاصل کی اور پھر کیمبل پور آگئے اور اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔کامرہ کلاں کی تاریخ کے اولین گریجوئیٹس میں سےتھے۔ اٹک کی مجلس نوادرات علمیہ کے بانی اراکین اور معروف مورخ شاعر اور سابقہ لائبریرین نذر صابری مرحوم کے قریبی دوست تھے۔ دیوان شاکر اٹکی دونوں نے مرتب کی تھی۔ محکمہ تعلیم خیبر پختونخواہ سے بحیثیت پرنسپل ریٹائر ہوئے۔ آپ ایک بہترین خطاط ، شاعر، محقق ، مصنف اور ماہر تعلیم تھے۔ کیمبل پور کی جغرافیائی کتاب ” معاشرتی علوم”آپ کی لکھی ہوئی ہے جو کئی سال نصاب میں شامل رہی ۔مارچ 2012ء کو وفات پائی ۔اٹک شہر میں مدفون ہیں۔
ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔