کامرہ کلاں – حصہ دوم
ذریعہ معاش:
کثیر تعداد میں لوگ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس میں ملازم ہیں ۔محکمۂ تعلیم میں بھی ان کی کثیر تعداد ہے۔پاک فوج سے بھی وابستہ ہیں۔وکالت اختیار کرنے کا رجحان بھی بڑھنے لگا ہے ۔اس کے باوجودگاؤں کی اکثریت کا پیشہ محنت مزدوری ہے۔
مساجد:
کامرہ میں ایک امام بارگاہ ہے؛اس کے علاوہ دیوبندی،بریلوی اور اہلِ حدیث حضرات کی مساجد ہیں۔یہاں کی ایک قدیم مسجد "مسجد زین العابدین”کو یہ خاص فضلیت حاصل ہے کہ یہاں شیعہ،وہابی،دیوبندی ایک جگہ نماز پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔اھل تشیع حضرات کی جماعت کے بعد سنیوں کی جماعت کھڑی ہو جاتی ہے۔مسجد کا مجموعی ماحول پر امن ہے۔اس مسجد میں کسی کو بھی اپنے مسلک کی تبلیغ کی اجازت نہیں۔
تعمیرات:
تیس پینتیس سال پہلے گاؤں کے لوگوں کےمکانات کچے ہوا کرتے تھے۔اگر سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات کریں تو یقیناً لوگ غاروں(بھُرا) میں بھی رہتے ہوں گے۔گاؤں کے چند ٹیلوں میں راقم نے غار(بھرے)دیکھے تھے۔دم تحریر شاید ہی کوئی کچا مکان ہو۔لوگ پختہ تعمیرات کو اپنانے لگے ہیں۔
گلیاں:
گلیاں پختہ لیکن تنگ ہیں۔گاؤں کی جو مرکزی گلی ہے اس میں سے بھی دو چھوٹی گاڑیاں بہ یک وقت نہیں گزر سکتیں۔دوسری گاڑی کے لیے راستہ بنانےکا یہ حل نکالا گیا ہے کہ ایک گاڑی کو کسی گلی میںڈال دیا جاتا ہے۔
ریگستان:
اٹک میں کسی گاؤں سے ملحق اتنا بڑا ریگستان دیکھنے میں نہیں آیا۔یہ ریگستان شمالاً جنوباً گاؤں کی مغربی سرحد پر سویا ہوا ہے۔گاؤں والوں کی ریت کی ضرورت اسی ریگستان سے پوری ہوتی ہے۔مقامی زبان میں اسے "سیتھ” کہتے ہیں۔
کھیلیں:
کسی زمانے میں جب کرکٹ یہاں نہیں کھیلی جاتی تھی،تو یہاں کا معروف کھیل کبڈی تھا۔مقامی ریگستان”سیتھ”میں دور دراز سے ٹیمیں کبڈی کھیلنے آیا کرتی تھیں۔گاؤں کے کھلاڑیوں کا ضلع میں ایک نام تھا۔والی بال کی ٹیم بھی اچھی تھی۔کرکٹ آنے کے بعد کبڈی اور والی بال کے کھیل دم توڑ دے۔اب گاؤں کے لڑکے کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہیں۔حال ہی میں کبڈی کی بھی ایک ٹیم سامنے آئی ہے،جو خوش آئند بات ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ گاؤں میں بچوں کے کھیلنے کے لیے کوئی گراؤنڈ نہیں۔البتہ نہر کے آس پاس کی زمین پر بچوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی خوب صورت گراؤنڈ بنا رکھے ہیں۔گاؤں کی پرانی ٹیموں میںسے صرف شاہین کرکٹ کلب کی سرگرمیاں جاری ہیں۔اس کرکٹ کلب کی بنیاد 1985۔1984 میں رکھی گئی تھی۔
چشمے:
جہاں آج کل کامرہ بیس کا رن۔وے ہے،عین اسی جگہ پانی کا ایک چشمہ تھا،اس چشمے کا پانی اتنا زیادہ تھا کہ ایک چھوٹی سے ندی کی شکل اختیار کر لیتا تھا لیکن اس کی گہرائی نہیں تھی۔اس چشمے میں مچھلیاں بھی ہوتی تھیں۔راقم اس بات کا چشم دید گواہ ہے کہ گاؤں کے لڑکے وہاں مچھلیاں پکڑنے جایا کرتے تھے۔ایک اور چشمہ کامرہ پڑی کے دامن سے نکلتا تھا۔اس کا پانی بھی اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ گاؤں کے مشرقی حصے سے اکثر خواتین کا وہاں کپڑے دھونا روزانہ کا معمول تھا۔
آثار قدیمہ:
(1)پنڈ سلیمان مکھن کے ایک کنویں سے مجلس نوادرات علمیہ نے ایک کتبہ دریا فت کیا۔جس کی عبارت سے معلوم ہوا کہ یہ کنواں "اشوک”بادشاہ کی پیدائش کی خوشی میں کھودا گیا تھا۔اس سے گاؤں کی قدامت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
(2)کامرہ گاؤں کے جنوب میں ایک قدیم کنواں تھا،جسے :کھنڈا کھو” کہتے تھے۔قیاس ہے کہ کامرہ کی قدیم آبادی اسی کنویں سے پانی ضرورت پوری کرتی تھی۔
گاؤں کے شمال میں جی۔ٹی روڈ پر ایک قدیم باؤلی تھی جسے چٹی باؤلی کہا جاتا تھا۔یہ باؤلی بھی قدیم کنواں تھا جو مسافروں کی پانی کی ضرورت کے پیش نظر مغل بادشاہوں میں سے (3)کسی نے کھدوایا تھا کیونکہ ایسی باولیاں پورے برصغیر میں موجود ہیں اور ایسی باولیاں کھدوانا مغلوں کا خاصہ تھا۔
(4)آج کل جہاں ایف۔سکس کالونی میں "رتی جناح”پارک ہے ،اس کے بالمقابل پہاڑی کے پہلو میں راقم نے پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی قدیم سرنگ دیکھی تھی۔اس سرنگ مقاصد معلوم نہیں ہو سکے۔
(6)موضع ٹھیکریاں میں بھی کھدائی کے دوران میں ٹوٹے پھوٹے برتن اور سکے آج بھی ملتے رہتے ہیں۔
(7)پنڈ سلیمان مکھن میں بھی کھدائی کے دوران میں ٹھیکرے ملنے کی شہادت موجود ہے۔
پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ:
"پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ "کا نام "کامرہ گاؤں”کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔جس وقت اس پراجیکٹ کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے لیے جو زمین استعمال کی گئی وہ ساری کی ساری کامرہ گاؤں کے لوگوں کی ملکیت تھی۔بعد میں اس ادارے میں وسعت ہوتی گئی اور ہٹیاں اور قطبہ گاؤں کی اراضی بھی اس میں شامل ہوتی گئی۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جہاز سازی اور جہازوں کی اوور ہالنگ کا یہ کارخانہ آرگنائزیشن آف اسلام(O.I.C)کی منظوری اور تعاون سے لگایا گیا ؛اس سے پہلے اسلامی ممالک کے جہاز اوور ہالنگ کے لیے امریکہ،روس،فرانس وغیرہ جایا کرتے تھے۔کانفرنس کی میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ کسی اسلامی ملک میں کوئی اس قسم کا کارخانہ لگایا جائے تاکہ غیروں کی محتاجی اور بلیک میلنگ سے جان چھوٹے ۔یہ بھی طے ہوا کہ جس ملک میں یہ کارخانہ لگایا جائے گا،زمین اس کی ہو گی لیکن سرمایہ مسلمان ممالک فراہم کریں گے۔فوری طور پر اس مقصدکے حصول کے لیے عراق کا نام سامنے آیالیکن ذوالفقار بھٹو کی رائے تھی کہ یہاں اسرائیل قریب ہے اور وہ اس پراجیکٹ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا،چنانچہ بھٹو صاحب کی حاضر دماغی اور مسلمان ممالک کی حتمی منظوری کے بعد یہ منصوبہ پاکستا ن منتقل ہوا۔شاید حکومتِ پاکستان نےکامرہ کا علاقہ اس لیے منتخب کیا،کیونکہ دوسری جنگِ عظیم میں اس علاقے کو برٹش ایئر فورس اپنے استعمال میں لا چکی تھی ،اور جس وقت 1975 میں جب یہاں رن ۔وے کے لیے کام کا آگاز ہوا تو یہاں قدیم رن ۔وے کے آثار موجود تھے۔
اگرچہ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کی بنیاد ستر کی دہائی کے وسط میں رکھی جا چکی تھی لیکن اس کا باقاعدہ افتتاح1980 میں اس وقت کے وزیرِ دفاع میر علی احمد خان تالپور نے کیا۔ایئر مارشل شیخ محمد سعید اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے جنھیں اگست 1975 میں یہاں کامرہ میں تعینات کیا گیا تھا؛ 80 کی دہائی میں بھی اس کے ستر فی صد پراجیکٹ ادھورے تھے۔پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میںسب سے پہلے میراج طیاروں کی اوور ہالنگ کا کام شروع کیا گیا،بعد ازآں 6۔Fطیاروں کی اوور ہالنگ کا کام بھی شروع کردیا گیا۔دم تحریر 16۔Fطیاروں ہالنگ کے ساتھ ساتھ JF .Thunder کی مینو فیکچرنگ کا کام بھی جاری ہے۔یہاں کے رن۔وے پر سعودی عرب،متحدہ عرب عمارات کے جہاز بھی دیکھے گئے ہیں؛جس کا مطلب یہ ہے کہ خلیجی ممالک کے جہاز بھی اوور ہالنگ کے لیے یہاں بھیجے جاتے ہیں۔اس وقت پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کوچار زون ((1) ایف۔6 ،(2)میراج ری بلڈ فیکٹری،(3)ایم ۔آر۔ایف،(4)ریڈار فیکٹری ) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
نہر:
مارچ 1993 میں نواز شریف نے غازی بروتھا نہر کا سنگ بنیا درکھا۔یہ نہر کامرہ گاؤں کو چھوتی ہوئی آگے حاجی شاہ کی طرف بڑھ جاتی ہے۔کامرہ کے مقام پر اس کی دل کشی دیدنی ہوتی ہے۔ایک طرف سرسبز و شاداب کامرہ پڑی(پہاڑی)اور اس کے دامن میں صاف شفاف پانی سے لب ریز نہر ایسا دل ربا منظر پیش کرتے ہیں جو اس سے پہلے صرف تصویروں ہی میں دیکھا تھا۔تمام غازی بروتھا نہر کسی مقام پر اتنی خوب صورت نہیں جتنی کامرہ کے مقام پر ہے۔نہر کا پانی صاف اور بہت ٹھنڈا ہے۔گرمیوں میں یہ نہر گاؤں والوں کے لیے پکنک پوائنٹ کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔نہر کے ٹھنڈے پانی کے اثرات گاؤں کی فضا پر بھی اثرانداز ہورہے ہیں۔میرا ایک مرحوم دوست محمد زبیر قوم ملیار م،جس کا گھر نہر کے بالکل قریب ہے،مجھے بتایا کرتا تھا کہ جون جولائی کے مہینے میں بھی میں کمبل کے بغیر چھت پر نہیں سو سکتا؛اس بات کی تصدیق ماسٹر محسن شاہ مرحوم نے بھی کی تھی؛ان کا مکان بھی نہر کے کنارے پر واقع تھا۔اس نہر کی وجہ سے کئی قیمتی جانوں کا نقصان بھی گاؤں والوں کو اٹھانا پڑا ہے۔اس نہر کی خوب صورتی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ خاص طور پر نوجوان احتیاط سے کام لیں
روحانی شخصیات:
پیازی بابا:ان کی قبر پنڈ سلیمان مکھن کے پہلو میں واقع قبرستان میں ہے ۔جن کے چہرے پر دھدر ہوا کرتے تھے،وہ لوگ یہاں سے تیل لے کر منہ پر لگاتے تھے۔
، کرم حسین شاہ:ان کے متعلق مشہور ہے کہ انھوں نے سات حج پیدل سفر کر کے کیے تھے۔گاؤں کے لوگ دولھا کو اس قبر کی سیر کراتے اور اس کے کلے پر یہاں کی بیری یا کسی درخت کی چار پانچ انچ لمبی ٹہنی لگاتے ہیں؛اس عمل کو شادی میں برکت قرار دیا جاتا ہے۔پہلے پہل گاؤں کے اکثر لوگ ایسا ہی کرتے تھے لیکن اب یہ رسم صرف چند سادات گھرانوں تک محدود ہے۔
جاری ہے ….
ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔