ان دنوں اس خاک پر بارش تھی جیسے نور کی
آنکھ کا سرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی
میل کلومیٹروں میں بدلے تو جناب عبدالقادرحسن نے لکھا میٹرک نظام اوزان کے رواج پذیر ہونے سے جہاں تاجر طبقے کو ڈنڈی مارنے اور فوری فوائد حاصل کرنے کے مواقع میسر آئے ہیں۔ وہاں کچھ لوگوں کو فوری نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ان لوگوں میں محض صارفین ہی شمار نہیں ہوتے بلکہ وہ مورخین بھی شامل ہیں۔ جو جذبات واحساسات کی تاریخ لکھتے ہیں اورعرف عام میں شاعر کہلاتے ہیں اورمیٹرک نظام اوزان ے رائج ہونے سے نقصان انہیں یہ ہوا ہے کہ اب وہ اس طرح کے شعر نہیں لکھ سکیں گے۔
طے کرے گی چکور کیا ماجد
چاند تک فاصلہ ہے میلوں کا
اس لئے کہ اب میلوں کی جگہ کلومیٹروں نے لے لی ہے۔وقت نے پانسہ پلٹا تو شہروں کے نام بھی بدل گئے۔ لائل پور، فیصل آباد ہوگیا۔ اور کیمبل پور، اٹک کہلانے لگا لیکن جس طرح ممکن نہیں کہ 1964ء میری زندگی میں دوبارہ آئے اورمیں لائل پور چلا جاؤں یا 1966ء میری زندگی میں لوٹ کر آجائے اور میں کیمبل پور کا رخ کروں۔ اسی طرح یہ بات بھی اب حد امکان سے باہر ہے کہ میں اپنے مذکورہ بالا شعر کوکیبمل پور کے نئے نام کی رعایت سے اسی لگن کے ساتھ از سر نو تخلیق کروں، جس لگن کے تحت یہ شعر کہا گیا تھا۔ تاہم میرے دیوان میں اس شعر کی موجودگی اس امر کی دلالت ضرور کرتی ہے کہ اٹک اور اہل اٹک سے میری وابستگی ایسی نہیں ہے جسے فراموش کیا جا سکے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ‘سرسنگیت’ شائع ہو یا ‘لہر لہر دریا’، ‘غیرعلامتی کہانی’ شائع ہو یا ‘کیہ جاناں میں کون ‘مجھے کیمبل پور سے چھپنے والے کسی بھی مجمو عہ نثرونظم کی اشاعت پر اتنی ہی طمانیت حاصل ہوتی ہے جتنی اپنی کسی کتاب کے چھپنے پر ۔ اور میری یہی نسبت ان رهروان راہ سخن سے ہے، جن کا تعلق اٹک سے ہے۔ لہذا طے ہے کہ سلطان محمود بسمؔل سے بھی میرا ناطہ دل و جان کا ہے لب و زبان کا نہیں۔
یہ اتفاق تھا کہ جن دنوں میں اٹک نہیں تھا۔ سلطان محمدبسمؔل یا تو اٹک سے باہر تھے۔ یا مجھ پر منکشف نہ تھے، اور ان سے میرا پہلا تعارف محبی آفتاب احمد شاه کے ذریعے تلہ گنگ میں ہوا۔ ان سے بعد میں جتنی ملاقاتیں بھی ہوئیں، مشاعروں میں ہوئیں اور اگر چہ ان ملاقاتوں کا دورانیہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ تاہم بسمؔل صاحب کی موثر شخصیت ذہانت اور فراخدلانہ میل ملاپ رفتہ رفتہ دل میں اترتے گئے اور اب کچھ مدت سے یوں ہے کہ بسمؔل صاحب اور میں ایک ہی شہرمیں ہیں لیکن دونوں جانب عالم کچھ ایسا ہے، جیسے میں انہیں ملوں تو میرے ہونٹوں پر یہ شعر ہوتا ہے۔
تلاش رزق سے ہٹ کر کہیں نہ چلنے دیں
ضرورتیں کہ جو چھالا بنی ہیں پاؤں کا
اور وہ مجھے ملیں تو چھوٹتے ہی کچھ اس طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
میں تیرے لئے ہوں مانتا ہوں
مجھ کو غم روزگار بھی ہے
سلطان محمود بسمؔل کا کہنا ہے کہ شاعری سے ان کی نسبت ان دنوں سے جب وہ ضلع اٹک کے ایک گاؤں میں پرائمری جماعتوں کے طالب علم تھے اور ان کے صاحب ذوق ہیڈماسٹر انہیں اسمبلی میں اخلاق آموز نظمیں گانے کے لئے خصوصی طور پر تیار کرتے تھے۔ پھرجب وہ کالج میں آئے تو گورنمنٹ کالج اٹک میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق اورسید ضمیر جفری جیسے اصحاب کی چھوڑی ہوئی ادبی روایات اور فتح محمد ملک، شورش ملک ،شفقت تنویر مرزا اور منو بھائی جیسے نوجوانوں کی کالج میں موجودگی ان کی شعری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوئیں۔ ان کا کہناہے۔ کہ اسی دوران میں ان کی زندگی میں ایک ایسا جذباتی بحران پیدا ہوا جس کے باعث جوانی کے ان دنوں میں بھی جب ہرنظر مناظر کی تازگی اور ہر خیال حقائق کی دریافت کے لطف میں غرق ہو ہوجاتا ہے۔ زندگی کی رنگینی ان کے لئے بے معنی ہو کر رہ گئی اور جذباتی بحران ان کے ایک ہم جولی کی اچانک خودکشی کے واقعے سے سامنے آیا۔ اور ایک مدت تک آسیب کی طرح ان کے درپے رہا۔ لیکن اس بحران نے اتنا ضرور کیا کہ دنیاداری کے بے شمار قابل نفرت جذبات سے بسمل صاحب کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پلہ چھوٹ گیا اور وہ ایک آسودہ زندگی گزارنے لگے جس میں آلا ئشیں کم اور آسائشیں زیادہ ہوتی ہیں۔
سلطان محمود کی نکلتی قد و قامت اور غزالی آنکھیں ان کی چھیل چھبیلی جوانی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے کی دعوت بھی دیتی ہے لیکن اگر اس شک کو الفاظ کا روپ مل بھی جائے تو وہ ایسے سوالات کو اپنی اس مخصوص مسکراہٹ کی کرنوں میں دبا دیتے ہیں جو مسکراہٹ کسی بھی صاف ستھرا ذہن رکھنے ولے شخص کے چہرے کا سنگھار ہوتی ہے۔
سلطان محود بسمؔل نے اپنے جذ بہ عشق کو کہیں آزمایا ہے یا نہیں ۔ لیکن انہیں اس جذبے سے یکسر عاری بھی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس لئے کہ اس عظیم جذبے کی گرفت میں وہ اب بھی پوری طرح غرق دکھائی دیتے ہیں ۔ اضطراب ان کی طبیعت کا خاصہ اور سفر عشق ان کا مستقل نصیبہ ۔ وہ اپنے محبوبوں سے دور ہوں تو پارے کی طرح بے چین رہتے ہیں ۔ ان کا کھانا پینا اور ہنسنا مسکرانا حرام ہوجاتا ہے ۔ لیکن جونہی انہیں اپنے بندھنوں سے رہائی پانے میں کامیاب ہونے کا موقع میسر آتا ہے، زندگی کی کوئی بھی مصروفیت یا موسم کی کوئی بھی سنگینی ان کا راستہ نہیں روک سکتی اور احباب کی محفل ہو یا کسی مہربان کی دعوت ولیمہ، وہ ہر امرضروریہ کو پس پشت ڈال کر پیڑ کے بازوؤں سے پکے ہوئے پھل کی طرح نکل کر یہ جا وہ جا کسی کے ہاتھی نہیں آتے ۔ لیکن ان کا یہ عشق بھی ان کی طبیعت کی طرح قطعی جداگانہ نوعیت کا ہے۔ وہی عشق جو خون کے رشتوں کاعشق کہلاتا ہے اور عرف عام میں جسے شفقت پدری کا نام دیا جاتاہے۔
سلطان محمودبسمؔل یاروں کے یار ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا کمال یہ بھی ہے کہ ان کے انہی یاروں میں ایک یار ان کامنصبی عہدہ بھی ہے۔ لہذاجس طرح وہ اپنے کسی حبیب سے آنکھ چرانے کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اسی طرح وہ اپنے منصب سے بھی ہمیشہ یوں منسلک رہتے ہیں جیسے کسی کم بجلی والے علاقے میں الیکٹرک ریگولیٹری ٹی وی سیٹ یا ریفریجریٹر پیر کے ساتھ منسلک رہتا ہے اورکبھی کوئی نخرہ دکھانے کا چارہ نہیں کرتا۔
سلطان محمود بسمؔل کو غالب اور اقبال کے بعد فیض اور فراز جیسے شعرا سے بھی نسبت ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کسی اخبار کے ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا اسی طرح فیض اور فراز کے نظریات سے ان کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔
تاہم وہ بعض پہلوؤں سے اپنے شعری سفر میں ان سے اکتساب بھی کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فکری محفلوں سے دور رہنے کے باوجود ان کی اپنی شاعری میں بھی متعدد ایسے نقوش ابھرنے لگتے ہیں جن کا تعلق محض غم ذات سے نہیں ہوتا۔
سلطان محمود بسمؔل غزل اور قطعہ کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اورنظم کا پیمانہ وہ صرف اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انہیں اپنے وطن یا اپنے عقائد کے حق میں کچھ کہنا ہو لہذا وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس میں محض سلاست اور روانی ہی نہیں ہوتی، معنوی گہرائی بھی ہوتی ہے اور کچھ ایسی پرتیں بھی جو کسی بھی شاعر کی انفرادیت کو ابھارتی اور اسے استوار کر تی ہیں اور اس کے شعروسخن کو ایک خاص ذائقه بخشتی ہیں اور جن کی گواہی ان کے آیندہ سطور میں دیئے گئے اشعار سے ہمیں جا بجا ملتی ہے۔
جنہیں اپنے اثاثوں کی پڑی ہے
انہیں کہہ دو قضا سر پہ کھڑی ہے
یہ نکتہ جان لیں اہلِ گلستاں
سزا جرمِ ضعیفی کی کڑی ہے
دشمنِ حرفت آدمی، آدمی
دوستو! انتہائے ستم ہوگئی
پہلے دھرتی کے روگ ختم کرو
پھر بسیرا کرو خلاؤں میں
وہ میرا کرب کیا جانے کہ جس نے
مرا زخم جگر دیکھا نہیں ہے
جو پہلے تھا اب اس جیسا نہیں ہے
یہ میرے باغ کا نقشہ نہیں ہے
حیات گردش پیہم کا نام ہے بسملؔ
بچھڑ کے ملنا اور مل کے پھر بچھڑنا ہے
اُسی نے مجھ کو رُلایا بھی اور ہنسایا بھی
وہ شخص جو میرا قاتل اور مسیحا بھی
ٹوٹ کے میں اُس دن رویا تھا
جس دن مجھ سے تو بچھڑا تھا
یہ کون سی منزل ہے رہِ شوق میں یارو
بے ساختہ رہزن کو دعا دینے لگے ہو
اک داغ تھا کہ جس کا نشاں تک نہیں رہا
اک زخم تھا کہ گردشِ دوراں سے بھر گیا
کہتا ہے کہ حق بات کا اظہار کرے گا
یہ دل مجھے رسوا سرِ بازار کرے گا
ذرّوں میں بھی ظہور ہے تیری ہی ذات کا
مشکل یہ آپڑی ہے کہ سجدہ کہاں کروں
یہ امتیاز آقا و محتاج تا بہ کے
یہ نفرتیں دلوں سے مٹاؤ تو بات بنے
اظہارِ حقیقت نہ ہوا آپ سے واعظ
یہ کام تو ہم سا کوئی مے خوار کرے گا
ماجد صدیقی
خیابان سرسیّد کالونی، راولپنڈی
یہ تبصرہ جناب ماجد صدیقی نے جناب سلطان محمود بسملؔ کی پہلی کتاب ‘ ساغر سم ‘ کے لئے لکھا تھا
آغا جہانگیر بخاری
آغا سیّد جہانگیر بخاری
چیف ایگزیکٹو، بانی مدیر
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔