نَصرٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ
انسانی تاریخ نے کسی آقا و حکمران کی ایسی انوکھی مثال ابھی تک پیش نہیں کی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسلمانوں کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح کے موقع پر قائم کی تھی۔ روایات میں مذکور ہے کہ بیت المقدس کی فتح کے وقت جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یروشلم کے شہر میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا غلام اونٹنی پر سوار تھا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی باری پر اونٹنی کی مہار پکڑ کر اس کے آگے آگے چل رہے تھے۔ اس وقت یروشلم دنیا کا اہم ترین شہر تھا جس کے حاکم کا فاتح فوج کے سپہ سالار سے معاہدہ یہ طے ہوا کہ شہر کا چارج سنبھالنے کے لئے شہر کی چابیاں فاتح فوج کے حکمران (یا خلیفہ) کو دی جائیں گی۔ اس وقت "خلافت راشدیہ” کے حکمران حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔
چنانچہ حاکم وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی آمد کی اطلاع کر دی اور لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔
جس روز حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شہر میں داخل ہونا تھا، اس دن صبح سویرے ہی لوگوں کا ایک جم غفیر استقبال کیلئے شہر کے باہر جمع ہونا شروع ہو گیا۔ جب سورج طلوع ہوا تو دور سے گرد کا غبار اٹھا اور لوگوں کو لگا کہ حاکم کی سواری آ رہی ہے۔ جونہی غبار چھٹی تو آسمان نے کیا دیکھا کہ ایک اونٹنی کی نکیل تھامے ایک شخص پیدل چلا آ رہا ہے اور دوسرا شخص اس اونٹنی پر سوار ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ پیدل چلنے والے شخص کے جسم پر جو پوشاک تھی، اس پر پیوند لگے ہوئے تھے، پاؤں پر دھول اور خشک کیچڑ جمی تھی۔ اس پیدل چلنے والے شخص نے اپنے ایک ہاتھ میں جوتے پکڑ رکھے تھے اور دوسرے ہاتھ سے وہ اونٹنی کو کھینچتا چلا آ رہا تھا۔
اس کے برعکس اونٹنی پر سوار حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام کا لباس بھی اچھا تھا اور وہ اونٹنی پر سواری کرتے ہوئے خوش باش بھی نظر آ رہا تھا۔
یروشلم کے سپہ سالار نے جب اونٹنی کو آتے دیکھا تو وہ پکار اٹھا، "اے بیت المقدس کے لوگو، تیاری کر لو، ہمارا حاکم عمر فاروق پہنچنے والا ہے”۔
بیت المقدس کے سابقہ حکمران رومی حکمرانوں کے ٹھاٹھ باٹھ سے واقف تھے۔ یہ منظر ان کے لئے قابل یقین نہیں تھا۔ انہوں نے اندازہ لگایا اور فاتح مجاہدین سے پوچھا کہ، "کیا عمر وہ ہے جو اونٹنی پر سوار ہے”؟ جواب ملا، "نہیں، اونٹنی پر سوار تو ان کا خادم ہے۔ عمر وہ ہے جو اونٹنی کی نکیل پکڑ کر پیدل چلا آ رہا ہے”۔
استقبالیہ ہجوم میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں، یروشلم کے سپہ سالار نے اپنے سامان سے قیمتی پوشاک نکالی اور گھوڑا دوڑا کر تصدیق کرنے کی غرض سے اونٹنی پر سوار شخص سے پوچھا، "عمر کون ہے۔” جب پتہ چلا کہ عمر پیدل چلنے والا شخص ہے تو اس نے عرض کی، "یہ پوشاک پہن لیں تاکہ شہر والوں پر رعب جم جائے”۔ اس پر آدھی دنیا کے فاتح حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے جواب دیا کہ "عزت کا معیار اس پوشاک میں نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے”۔
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ شہر میں داخل ہو چکے تو لوگوں نے پوچھا کہ غلام اونٹنی پر سوار کیوں تھا؟ جواب آیا کہ سفر طویل تھا، ہمارے پاس سامان کے کچھ تھیلے تھے جن میں ستو، پانی اور کھجوریں شامل تھیں، اونٹنی ایک تھی اور ہم مسافر دو تھے اور ایک وقت میں سامان کے ساتھ صرف ایک ہی بیٹھ سکتا تھا، اور ہم اونٹنی پر زیادہ بوجھ بھی نہیں لادنا چاہتے تھے۔ ہمارے درمیان یہ شرط طے پائی کہ ایک منزل ایک مسافر اونٹنی پر سوار ہو گا اور دوسری منزل دوسرا مسافر سوار ہو گا۔ اتفاق یہ ہوا کہ جب ہم بیت المقدس داخل ہونے لگے تو اونٹنی پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی، اس نے کہا بھی کہ وہ پیدل چل لے گا لیکن میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ اس سے ناانصافی کی جائے۔
یہ تھے بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلے رقبے اور آدھی سے زیادہ دنیا کے فاتح و حکمران حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جن کی تربیت خود نبی پاک ﷺ نے فرمائی تھی۔ اللہ تعالی "حماس” کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق اور طاقت عطا فرمائے، آمین!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔