چھٹیاں مسئلے کا حل نہیں
تحریر ۔۔۔۔عقیل ملک
پنجاب میں حالیہ سموگ کی وجہ سے سکولوں کی بندش کا فیصلہ ایک عارضی حل کے سوا کچھ نہیں۔ یہ فیصلہ سموگ کی شدت کو کم کرنے یا بچوں کی صحت کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا، لیکن اس کا کوئی دیرپا اثر نہیں ہوگا۔ سموگ ایک موسمی مسئلہ ہے جو ہر سال آتا ہے اور اس کا مکمل حل صرف سکولوں کو بند کرنے میں نہیں ہے۔ اس طرح کے فیصلے نہ صرف تعلیمی سلسلے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں بلکہ بچوں کے تعلیمی مستقبل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ جب سکول بند کیے جاتے ہیں تو بچے تعلیم میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں میں کمی آتی ہے۔
یہ فیصلہ تب اور بھی زیادہ مسئلہ بن جاتا ہے جب ہم اس حقیقت کو دیکھتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ کچھ برسوں میں جو تجربہ کیا وہ بھی مکمل طور پر ناکام رہا۔ کرونا کے دوران جب تعلیمی ادارے بند ہوئے تھے تو آن لائن تعلیم کا آغاز کیا گیا تھا۔ مگر اس تجربے کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ آن لائن تعلیم کے دوران بچوں کو درپیش مشکلات جیسے انٹرنیٹ کی سست رفتار، ٹیکنالوجی کی کمی اور اساتذہ کی تربیت میں کمی یہ سب مسائل ہمیں اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ محض ٹیکنالوجی کی موجودگی یا کلاسز کو آن لائن منتقل کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں بچوں کے پاس کمپیوٹر یا اسمارٹ فون جیسی ضروری ٹیکنالوجی نہیں تھی اور کئی بچوں کو انٹرنیٹ کی سست رفتار یا عدم دستیابی کی وجہ سے کلاسز میں شامل ہونے میں مشکلات پیش آئیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی تربیت کا فقدان بھی تھا جس کی وجہ سے تدریسی معیار متاثر ہوا۔ اس کے باوجودپنجاب حکومت نے یہ سمجھاہے کہ آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیمی عمل جاری رکھا جا سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آن لائن تعلیم نہ صرف طلباء کی صلاحیتوں میں کمی کا باعث بنے گی بلکہ اس میں ان کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی ترقی بھی نہیں ہوسکے گی۔ جب تک بچوں کو اپنے ہم جماعتوں سے ملنے اور استاد سے براہ راست بات کرنے کا موقع نہیں ملے گااس وقت تک ان کی شخصیت کی نشوونما میں خلل لازمی آئے گا ۔سابقہ ہائی بریڈ تجربات سے ہمیں سیکھنا چاہئے کہ چھٹیاں یا آن لائن تعلیم جیسے عارضی حل کبھی بھی طویل مدتی مسائل کا حل نہیں ہو سکتے۔ اگر ہمیں سموگ یا کرونا جیسی وباؤں کے دوران بچوں کی تعلیم کو متاثر ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں ایک مؤثر اور دیرپا حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ صرف چھٹیوں یا آن لائن کلاسز کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنے سے ہم ان مسائل کا حل نہیں نکال سکتے۔جب ہم سموگ کے مسئلے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سموگ سے بچاؤ کے لیے حکومت کو صرف سکولوں کی بندش کے بجائے ایسے طریقے اپنانے ہوں گے جن سے بچوں کی صحت کی حفاظت کی جا سکے اور ان کی تعلیم بھی جاری رہ سکے۔ آن لائن تعلیم کی حکمت عملی بھی ابھی تک مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہوئی لیکن اس کا حل یہ بھی نہیں کہ ہم اس کو مکمل طور پر ترک کر دیں بلکہ اس کا بہتر استعمال کرنے کے لیے بچوں کو ضروری ٹیکنالوجی فراہم کرنی ہوگی روزانہ مشق کے لئے سکول ایک اسی ایپ متعارف کراسکتے ہیں جس میں ملٹی پل چوائس اور شارٹ آنسر سے طلبا کو تعلیمی سرگرمی میں مصروف کرکے قدرے بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں سے تربیت دینا ہوگی تاکہ وہ آن لائن ماحول میں بھی مؤثر تدریس فراہم کر سکیں۔ ان اقدامات کے ذریعے ہم آن لائن تعلیم کو ایک کامیاب نظام بنا سکتے ہیں۔
اگر ہم سموگ اور آن لائن تعلیم کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں کرتے تو یہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے اور آئندہ آنے والے دس سالوں میں ہماری افرادی قوت غیر معیاری تعلیمی قابلیت کے بنا پر خود اداروں کے لئے بھی مؤثر نہیں ہوں گے۔ تعلیمی اداروں میں سموگ کی شدت کی وجہ سے بندش بچوں کے مستقبل کو مزید خطرات میں ڈال رہی ہے۔ اس کے بجائے ہمیں سموگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ماحول دوست پالیسیز پر عمل کرنا چاہیے ساتھ ہی ساتھ تعلیمی اداروں میں بہتر تدابیر اپنانی ہوں گی تاکہ بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو۔سموگ اور اس سے جڑے مسائل کا حل صرف چھٹیوں میں نہیں، بلکہ ایک مکمل حکمت عملی میں چھپا ہے۔ اس کے لیے ہمیں حکومت، تعلیمی اداروں اور والدین کو مل کر ایک مشترکہ کوشش کرنی ہوگی۔ بچوں کی تعلیم کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سموگ کے دوران اگر اسکول بند کیے جائیں تو ساتھ ہی ساتھ مؤثر تدابیر اپنانا ہوں گی تاکہ تعلیم کا تسلسل برقرار رہے۔ تب ہی ہم سموگ جیسے مسائل سے بچتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ان کے مستقبل کو محفوظ کر سکتے ہیں۔سموگ اور تعلیمی بحران کی اس گہری دھند میں ہمیں اپنی نسلوں کی تعلیم کا تحفظ کرنا ہوگا۔ جب تک ہم ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائیں گے ہمارے بچے اس بحران کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ ان کی امیدوں کو مٹی میں دفن نہ ہونے دیں ان کے خوابوں کو سچ کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ تعلیم ایک چراغ ہے جو ہر تاریکی کو روشنی میں بدل سکتا ہے اور ہمیں یہ روشنی بچوں کے ہاتھوں میں دینی ہوگی۔ اگر ہم آج قدم نہیں اٹھائیں گے تو کل اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی اور ایک پوری نسل تباہ ہوجائے گی۔
عقیل ملک
Title Image by WOKANDAPIX from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔