یوپی سے کیمبل پور
کیمبل پور ذہین، طباع، باادب اور حاضر جواب لوگوں کی دھرتی ہے۔ ایسے ایسے نابغہ یہاں سے اُٹھے اور زمانے پر چھا گئے کہ دنیا دنگ رہی۔ آپ دیکھ لیجئے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کو ، کیا ہی شاہ دماغ شخصیت تھے۔ حکیم تائب رضوی ، نذر صابری ، رفیق بخاری ، سلطان محمود بسمل اور بیشمار ایسے نام جو علم و ادب کے روشن چراغ تھے۔ میرے دوست وقاص اسلم صاحب اکثر تشریف لاتے ہیں اور ہم کچھ گھڑیاں ان لوگوں کے تذکرے میں بِتاتے ہیں۔
یہ واقعہ جو انہیں یاد تھا حاضر جوابی اور ادب کا خالص لکھنوی اور دہلوی انداز ہے جو کیمبل پور میں پیش آیا ۔ بابا اذکار عرف مولانا اختر شادانی مرحوم تقسیم ہند کے وقت یو پی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو کیمبل پور کو اپنا مسکن بنایا۔ گویا اس مردم شناس دھرتی نے انہیں اپنی طرف کھینچ لیا۔ فارسی ، اردو کے استاد اور شاعر تھے سب سے بڑی بات یہ کہ انتہائی وضع دار اور نفیس شخص تھے۔ تب ٹیوشن کا رواج تو نہیں تھا لیکن بچے شام کو ان کے پاس پڑھنے آتے تھے ، اسے پچھلی پڑھائی کہا جاتا تھا۔ بچے تو ہر دور میں بچے ہی ہوتے ہیں ، ٹافی کے بہانے نکلتے اور گھنٹہ غائب۔ مولانا نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنے پاس ہی ٹافیاں رکھ لیں منافع کے لیے نہیں بلکہ بچوں کو قابو رکھنے کے لیے اب سب وہیں سے ٹافی لیتے تھے اور یوں آوارہ گردی بند ہوگئی۔ کچھ عرصے بعدایک دن ٹافیاں سپلائی کرنے والا رقم لینے آگیا اور مولانا سے کہا ،جناب ! آپ کے چار سو روپے ہوگئے ہیں، ادا کردیں تو مہربانی ہوگی۔ مولانا نے فورا جیب سے چار روپے نکالے اور اس کو تھما دیے ؛ اب وہ حیران و پریشان بولا مولانا چارسو بنتے ہیں۔ اس پر مولانا نے برجستہ کہا
بنتے ہیں تیرے چارسو، فی الحال چار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔