ایرانی حوثیوں کے خلاف امریکی کاروائی کا فیصلہ
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ خلیج میں بہت جلد نیا محاذ کھولنے جا رہے ہیں۔ اس سے امریکہ عرب ممالک کو ایک نئی سیاسی آزمائش سے دوچار کر سکتا ہے۔ شائد ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی اسٹیبلشمنٹ اسی مقصد کی تکمیل کے لیئے لائی ہے۔ پہلے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو طاقتور سمجھا جاتا تھا جو سیاست میں من مرضی کی مداخلت کرتی تھی مگر اب یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ کو لانے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے "مقتدرہ” کا کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ اپنے سپر پاور کے مردہ گھوڑے میں ممکنہ طور پر دوبارہ جان ڈالنا چاہتا ہے جس کے تحت اس دفعہ ڈونلڈ ٹرمپ کو آزمایا گیا ہے۔ جیسا کہ محاورہ ہے کہ، "ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں،” آنے والے کچھ ہی دنوں اور ہفتوں بعد خلیجی ریاستوں میں "ہارس پاور” بڑھانے جیسی تبدیلی آنے والی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن میں حوثیوں کے خلاف فیصلہ کن فوجی ایکشن لینے کے احکامات جاری کیئے ہیں۔ اگر ایسا عملی طور پر ہو جاتا ہے تو پھر ٹرمپ کا یہ فیصلہ ایرانی حکومت کی بقا کے لیئے بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہو گا۔ یہ ایک ایسی ہی بڑی تبدیلی ہو گی کہ اکیلے ایران ہی نہیں بلکہ یہ پورے خلیجی ممالک میں ایک نئی عہد سازی کا آغاز ہو سکتا ہے۔
ایک عرصہ سے یمن میں ان حوثی باغیوں کو ایران کی سپورٹ حاصل رہی ہے جس وجہ سے سعودی عرب کو ٹرمپ کے گزشتہ دور میں امریکہ سے اسلحہ خریداری کی تاریخی ڈیل کرنا پڑی تھی۔ اس بار امریکہ نے براہ راست حوثی باغیوں کو سبق چکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی پاکستانی سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر غلام مجتبی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ امریکہ نے حوثیوں کے خلاف اپنی تاریخی طاقت آزمانے کا حکم جاری کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ غیر معمولی فیصلہ ریڈ سی میں انٹرنیشنل شپنگ پر بڑھتے ہوئے حملوں کے جواب میں کیا ہے جس سے خطے کے امن و امان اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیئے ایران کا ایک واضح کردار نظر آتا ہے۔ اس مد میں حوثیوں کو سزا دینے کا یہ فیصلہ خود ایرانی حکومت اور اس کے حامیوں کی بقا کے لیئے ایک چیلنج کی سی حیثیت رکھتا ہے۔
امریکہ کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں ہمیشہ خدشات رہے ہیں۔ امریکہ کی رائے میں دنیا کسی نئی ایٹمی طاقت کے اضافہ کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔ ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی یہ ضد عالمی امن اور سلامتی کے لیئے بھی ایک نیا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیئے ماضی میں صدر ٹرمپ ایران سے مذاکرات کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ لیکن ایران کے اپنے موقف پر قائم رہنے کے مقابلے میں ٹرمپ ایران پر نئی عالمی سفارتی و تجارتی پابندیاں لگانے کے حامی ہیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ ایران کی بالسٹک میزائل کی صلاحیت اور اس کا دہشتگردی کو سپانسر کرنا عالمی طاقتوں اور دیگر امن پسند دنیا کو ناقابل قبول ہے۔
لیکن ایرانی حکومت اس امریکی الزام کو سختی سے مسترد کرتی ہے بلکہ وہ اس ضمن میں امریکہ سے کسی قسم کے مذاکرات کرنے کے لیئے بھی تیار نہیں ہے۔ ایران اس بارے میں سخت موقف رکھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں امریکہ کا کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خومینی کے خیال میں ٹرمپ کی یہ پالیسی وقت آنے پر مردہ گھوڑا ثابت ہو گی۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی مذاکرات کے لیئے امریکی آفر کو رد کر دیا ہے بلکہ انہوں نے اعادہ کیا ہے کہ خطے میں ایران کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اس کے خلاف سخت مزاحمت کرے گا۔
ڈاکٹر غلام مجتبی عالمی امور میں ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ دور میں ان کے سیاسی مشیر تھے اور اس دفعہ بھی وہ ٹرمپ کے سیاسی امور میں ان کی معاونت کر رہے ہیں، ان کی رائے میں ایران حوثی باغیوں کی مدد کے روپ میں خلیج کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کیونکہ حوثی باغی گروہ اسی صورت میں تواتر سے حملوں میں ملوث پائے جاتے ہیں کہ انہیں ایرانی انقلاب کے گارڈز کارپس (آئی آر جی سی) کی مکمل فوجی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حوثی ایران کی "پراکسی فورس” (گماشتہ طاقت) ہیں جن کے زریعے ایران اپنی جاریت قائم رکھنے کے لیئے انہیں ایک ہتھیار (ٹول) کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ سویلین اور فوجی اہداف پر وہ اپنے میزائل اور ڈرون حملے جاری رکھ سکے۔
ایران کی دیدہ دلیری پر مبنی اس جاریت کے خلاف امریکی ہوائی حملوں کا مقصد حوثیوں کے اسلحہ کے ذخیروں اور ان کی نقل و حرکت کے نظام کو تباہ کرنا ہے اور ایران کی حماقت پر مبنی اس کھلی جارحیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے۔ ایران ایک عرصے سے ردعمل کے نتائج سے بچنے کے لیئے براہ راست جنگ کی بجائے اس پراکسی وار پر عمل پیرا ہے۔ اگر ٹرمپ اپنے اس فیصلے پر جلد عمل کرتے ہیں تو اس سے ایران کو ایک واضح پیغام جائے گا کہ وہ خطے میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے باز آ جائے جو خود اس کی تباہی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ اس سے ایران کی اپنی سالمیت کو قائم رکھنے کی طاقت کا بھی پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی حیثیت ایران کے لیئے ایک "لٹمس ٹیسٹ” کی سی ہو گی۔
اگر تو ایران نے امریکی دباؤ میں آ کر حوثیوں کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا تو اس کی اپنی عوام اور اپنے اتحادیوں کے سامنے قلعی کھل جائے گی۔ ایران پہلے ہی عالمی اقتصادی پابندیوں اور اندرون خانہ کشمکش کی وجہ سے اپنے ڈگمگاتے اقتصادی حالات سے نبرد آزما ہے اور اسے سوچنا ہو گا کہ حوثی باغیوں کی مدد جاری رکھ کر وہ اس نئی صورتحال سے کیسے نبرد آزما ہو سکتا ہے۔ ادھر ایران دیدہ دلیری سے شام، عراق اور لبنان میں حزب اللہ کی پشت پناہی بھی کرتا ہے۔ ایران کو امریکہ کے ہاتھوں حوثیوں کے معاملے میں ہزیمت اٹھانی پڑی تو مشرق وسطی اور بحر ہند کے ساتھ منسلک بحیرہ احمر (بحیرہ قلزم) کے سیاسی، اقتصادی اور انتظامی ماحول میں بھی بہت بڑی تبدیلی رونما ہو گی جس سے عالمی تجارت کے رخ میں بھی ایک دم بدلاو آئے گا۔ بحیرہ قلزم کے پانیوں کو محفوظ رکھنا امریکہ اور سیکورٹی کے حوالے سے خود خلیجی ممالک کے لیئے بھی انتہائی اہم ہے۔
اس معاملے میں امریکہ نے اپنے اتحادی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل وغیرہ کو بھی اس فیصلے سے کسی ممکنہ خطرے سے محفوظ کرنے کی سعی کی ہے جو عالمی امن اور تجارت کے لیئے مشترکہ کوششیں کرتے ہیں۔ لھذا ایران ٹرمپ کے اس فیصلے سے ایک گو مگو کی کیفیت میں چلا گیا ہے۔ اس پر اگر ایران پراکسی وار یا براہ راست فوجی ردعمل ظاہر کرتا ہے تو اس کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے سرحدوں کے حوالے سے براہ راست ٹھن جائے گی۔
اس سے قبل ایران اسرائیلی حملے اور قاسم سلیمانی کے قتل کی صورت میں نتائج بھگت چکا ہے کہ اس بار ایران نے بدلہ لینے یا قصاص کی کوشش کی تو خطرناک نتائج کی صورت میں یہ اسے بہت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایران خطرناک نتائج اور بڑی جنگ سے بچنے کے لیئے یمن میں حوثیوں کی فوجی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے۔ یہ صورتحال تہران کے اتحادیوں کے لیئے بھی ایک چیلنج ہے جن میں روس، چین اور یورپی یونین کے کچھ ممالک شامل ہیں جو اس کی ڈھارس بندھاتے رہے ہیں۔ اگر ایران کے یہ اتحادی حوثیوں کی امریکہ کے ہاتھوں سرکوبی کے وقت خاموش رہے تو اس سے ایران مزید تنہا ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ باغی حوثیوں کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے اس عملی اقدام سے مشرق وسطی کے ممالک مثلا عراق اور قطر وغیرہ جنہوں نے ماضی میں ایران کی جارحیت کو سہا اور خصوصی طور پر سعودی عرب جسے کچھ عرصہ پہلے تک چین ایران کے قریب لا رہا تھا وہ ایران کے بارے میں اپنی پوزیشن کو ازسرنو مرتب کرنے پر مجبور دکھائی دیں گے۔
Title Image Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |