مردان میں اردو ادب پر لکھنے سے بیشتر اپنے حوالے سے ذرا وضاحت درکار ہوگی تاکہ ان کاوشوں کو سمجھنے میں آسانی رہے جو یہاں اردو ادب کے حوالے سے ہورہی ہیں۔یہ 1997 ء کی بات ہے جب ہم اس خوش فہمی کے شکار تھے کہ گویا ہرسو پھیلے ہوئے پشتو ادب کے ہم ہی وہ پہلے باغی ہیں جو اس بحر ادب سے انحراف کرکے قومی ادب کے دھارے میں شامل ہوگئے ہیں ۔کچی پکی خامہ فرسائی کے لیے نزدو بعید کوئی استاد میسر نہ آیا کہ اصلاح لے سکیں اور جو گنے چنے اردو سے جڑے لوگ تھے وہ بھی صاحب مضمون پیشہ ورپروفیسر یا فارسی ادب سے متاثر تھے مگر باقاعدہ نہ شاعر تھے نہ اصلاح کار۔مضمون اردو پر دست رس کافی نہیں ہوتی جب تک آپ باقاعدہ شاعر یا ادیب نہ ہوں اس لیے اپنا کچا پکا کلام لے کر ہر اس جگہ گئے جہاں سے اصلاح کی شنید تھی۔ مگر ہائے افسوس اس دشت کی سیاحی میں ہم شاید اکیلے مسافر تھے ۔پھر ثانوی کے بعد غربت نے باقاعدہ کے بجائے بے قاعدہ یعنی پرائیویٹ تعلیم پر لا کر اردو ادب سے مزید دور کردیا۔چاہے آپ اردو میں ایم اے کرلیں، خود اکتسابی سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جو باقاعدہ کسی تعلیمی ادارے سے منسلک ہو کر حاصل ہوجاتے ہیں۔طرہ اس پر یہ کہ جامعہ پشاور کے شعبہ اردو والے ایک پرائیویٹ خوگر کو باربار وایوا میں فیل کرکے اس سلسلے کو نہ پاس نہ فیل پر الل ٹپ کرنے میں پیش پیش رہے۔اور ایک متمنی کو مزید مایوسیوں میں دھکیل دیا۔پھر زمانے نے نئی صدی کی بانسری بجادی اور فورایٹ سکس کمپیوٹر سے آئی فون تک آتے آتے سماجی رابطے بھی یاہو اور ایم ایس این سے ترقی کرتے کرتے فیس بک، ٹوئیٹر، وٹس ایپ پر دنیا کو جوڑنے اور سماجی رابطے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔ دریں اثنا ایک پرائیویٹ سکول کھولنے اور انگریزی کے پیچھے بھاگنے میں اردو ادب سے دوری بڑھی، جس سے یہ جذبہ ٹھنڈا ضرور ہوا لیکن مرا بالکل بھی نہیں ۔دوہزار گیارہ سے اس تگ و دو میں تھا کہ مردان اور قرب و جوار میں کوئی ایسا بندہ ڈھونڈ سکیں جو ہماری اردو کاوشوں کو دیکھ کر اصلاح کریں۔ تب تک کمپیوٹر پر سارا مواد کمپوز بھی کرچکے تھے یعنی کتاب لانے کی دیرتھی مگر اصلاح کون کرتا اگرچہ چھپوا بھی سکتے لیکن شکر ہے نہیں چھپوایا کیونکہ وہ کلام صرف بطور یاد محفوظ کرنے لائق تو تھا ،چھاپتے ہوئے عرق انفعال میں ڈوبنا پڑتا۔اب آتے ہیں اس طرف جو ہمارا موضوع یعنی مردان میں اردو ادب نے کب انگڑائی لی اور اس میں ہمارا کردار کیا رہا، جو اس مضمون میں خود کی مثال پیش کرکے خود توصیفی پر اُتر آئے تھے ۔یہ جون دو ہزار سترہ کی تپتی دوپہر اور گرمیوں کی چھٹیاں ہیں جب ہمیں ایک نگینے کا سراغ فیس بک کی وساطت سے ملا، اس لیے دو عشروں کی تپسیا کو دیکھ کر بھاگم بھاگ اپنی کٹھارا لے کر جناب عزیز عادل صاحب کے در دولت گڑھی دولت زئی مردان پر پہنچے ۔گویا وہی سے اردو ادب کی پہلی تنظیم مرام یعنی محفل رفقائے اردو کا ظہور ہوا۔ حضرت کی کہانی بھی عین میری کہانی نکلی ۔یعنی وہ بھی بغیر استاد کے استاد الشعراء بنے ۔دل کو تھوڑا قرار ملا اور مشورہ ہوا کہ مردان اردو ادب کے حوالے سے بانجھ تو نہیں لیکن جو لکھ رہے ہیں محض ذاتی مفاد اور انفرادی کوشش سے لگے ہیں جس میں ڈاکٹر ہمایون ہما صاحب جیسے مقتدر کالم نگار بھی شامل ہیں۔عزیزعادل بھائی کی وساطت سے یہ عقدہ بھی کھلا کہ ایک کاوش پہلے بھی اس حوالے سے ہوئی ہے اور انجمن ترقی پسند اردو تنظیم پروفیسر گوہر نوید اور دیگر چند نے بنائی بھی تھی لیکن وہ پانی کے بلبلے جتنی زندگی بھی نہ پاسکی۔ اور دوسری بات تنظیم کے نام سے بھی مردان کو خاص فرق نہیں پڑنے والا تھا، کہ اس قسم کی تحریکیں پہلے سے ہی جاری تھیں۔عزیز بھائی کی وساطت سے پروفیسر لعل زادہ لعل، انوار احمد شام، مظہر جاوید، امجد حسین دیار، نورعلی خان اور پروفیسر گوہر نوید سے رابطہ ہوا اور متفقہ طور پر ہمارا تجویز کردہ نام مرام سے مستقل بنیادوں پر ایک مکمل ادبی تنظیم محفل رفقائے اردو مردان، وجود میں آئی جسکے پہلے صدر جناب پروفیسر لعل زادہ لعل، چیئرمین جناب عزیز عادل، جنرل سیکریٹری یہ خاکسار گوہررحمٰن گہر مردانوی، فنانس سیکریٹری جناب امجد حسین دیار اور اطلاعات کے سیکریٹری جناب مظہر جاوید تھے ۔ تنظیم کا منشور موجود ہے لیکن فی الحال منظور شدہ نہیں ۔لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی پرانی کابینہ ختم کرکے نئی کابینہ کا اعلان کیا جائے گا ۔ہر پندرہ روز بعد باقاعدہ تنقیدی اجلاسوں کے ساتھ مرام کا حلقہ بڑھانے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں اور ارکان سے روابط کے ساتھ نیا خون بھی تلاشا جار ہا ہے، جس میں خاطرخواہ کامیابی ملی ہے اور زین العابدین مخلص، کامران دانش، انیس الرحمٰن انیس، محمد خان چشتی، سہیل احمد، امجد علی،نعمان خالد، سدھیرخان افکار، ارشد خان آستک کی شکل میں جوان خون جبکہ سینئر میں شاہ روم خان ولی، ظہوراحمد، نورخطاب خطاب، نازیہ نزی بہن اور صوابی کے احباب جو ہماری آواز پر لبیک کہتے ہیں جناب نیاز محمود، جناب فرخ نواز فرخ، جناب شہزاد، جناب لطف اللہ، جناب عابدعلی عابد، جناب فیض اللہ فانی، جناب لطف اللہ، جناب شہزاد خان جبکہ چارسدہ سے ہمارے بہت فعال جناب احمد وصال اور سردار فہد جبکہ نوشہرہ سے فرحان عباس بابر، قدسیہ ظہور اور پروفیسر نوید اقبال ہمارے ساتھ شامل ہیں جو وقتاً فوقتا اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں ۔تنظیم کا نام الحمدللہ ایک الگ پہچان کی علامت اور اس کا لوگو بھی اس خاکسار نے کالج چوک مردان کےمینار کو دیکھ ڈیزائن کیا جبکہ آن لائن سرگرمیاں بھی جاری ہیں اور اردو کے لئے کاوشوں میں سب اپنا کردار بھی فعالیت سے ادا کررہے ہیں ۔اوپر مذکور احباب میں الحمد للہ اب یہ خاکسار دو کتاب: لآلی اور سکون قلب، جبکہ عزیز عادل: شب ریز جناب پروفیسر لعل زادہ لعل:محبت کی ضرورت ہے اور جناب مظہر جاوید آوارہ چاند کے خالق ہیں ۔احباب کے نمونۂ کلام اور نثری اقتباسات ذیل میں نام کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں
انوار احمد شام،مردان:
مآلِ کار وفا کو شکستِ پاش ہو ئی یہ معرکہ بھی اُسی نامور کےنام رہا
فگار روح کی توقیر بےمعانی تھی سو نیل نیل بدن نیل گر کے نام رہا
احمد وصال،چارسدہ:
مَیں نے تُــــمھارے ہِجـــر کی یُوں دیکھ بھال کی جیـــــسے عَزیــــز ہُوتی ہے روزی حَــــــــلال کی
حد نفرتوں کی اس نے بھی چھوڑی نہیں کــوئی میں نے بھی شـــــــدتوں میں مــــحبت فعال کی
کامران دانش،مردان:
کیوں زمانے سے دل بھرا میرا ایک ہی شخص کے گنوانے سے
زخم پر صبر کر لیا جائے درد گھٹتا ہے مسکرانے سے
نورخطاب خطاب ،مردان:
عقل جو راہنما ھوگیا تھا اک نظرمیںہی ہوا ہوگیا تھا
نہ تاب دید نہ دل پر قابو طور پر جیسے موسیٰ ہوگیا تھا
شہزاد خان،صوابی:
بارہا تیری تغافل سے شکستہ ہوئے پر تیری چوکھٹ سے تیرے چاہنے والے نہ گئے
مجھ سے شہزاد طلب کرتے ہیں یہ خُونِ جگر سادہ الفاظ تو اشعار میں ڈھالے نہ گئے
فرخ نواز فرخ،صوابی:
متفق میں نہ تھا جدائی پر حکم تیرا تھا سو بجا لایا
دکھ کے اظہار کے لیے فرخ ؔصرف آنکھوں کا نم دِکھا پایا
منظور احمد،مردان :
کیوں ایک جھلک دِید کو تَرسی ہے مِری آنکھ وہ عکس کہ آنکھوں سے جو ہٹتا بھی نہیں ہے
کچھ روگ جو منظور نے پالے ہیں اُسی میں اک غم، غمِ دوراں ہے جو گھٹتا بھی نہیں ہے
سدھیرخان افکار:
اک نظرِ کرم کر سبھی بیماروں دلوں پر سب کی ہیں دردِ دل کی دوائیں ، محبتیں
دنیا سے مٹائیں گے سب افکار نفرتیں یوں ہم بھی سرِعام بچھائیں ، محبتیں
نعمان خالد، مردان:
افسانہ: خواب نادیہ سوچتی کہ ایسا بھی کوئ ہے جو مجھےقبول کر سکے۔۔۔اسے اپنی اور عائشہ کی دوستی پر فخر ہوا۔نادیہ کی آنکھوں سے ایک آنسو گرا اور کاغذ پر سے رد لفظ کو حرف غلط کی طرف مٹا دیا۔ نادیہ ایک ایسا خواب کاغذ پے لکھ رہی تھی جو اب اس کی بے رنگ اور بے کار زندگی میں خوشیوں کے لازوال لمحے لانے والا تھا.جو ہاشم کے سچے وجود سے اس کی زندگی سے مایوسی کے اندھیرے ختم کر کےبس روشنیاں بھر دینا چاہتا تھا۔
زین العابدین مخلص مردان:
جان سے ہی جاتا ہے شہرتوں کا ہر طالب چاندنی کے رستے میں ہرقدم پہ خطرہ ہے
ہر کوئی ہے مطلب کا کوئی بھی نہیں مخلص دوستی کے رستے میں ہرقدم پہ خطرہ ہے
شاہ روم خان ولی مردان:
نمی یہ اشکوں کی بنیادوں میں اترتی گئ کہ سر پہ آ گری آخر مرے مکان کی چھت
یہ آسمان ولی دور پھر نہیں رہے گا پرندے سر پہ بنا لیں اگر اڑان کی چھت
فرحان عباس بابر :
زیست میں ایک نیک کام کیا ہم نے مٹی کا احترام کیا
امن کی بات کی، محبت کی چند گھڑیاں جہاں قیام کیا
سسکیاں ہوگئیں غزل فرحان اپنی تنہائی سے کلام کیا
نازیہ نزی،مردان:
میری ہستی کو اگر کُل کا پتا مل جائے ڈوب کر عشقِ حقیقی میں خدا مل جائے
میں خطاکوش نہیں پھر بھی خطا لازم ہے کاش محشر میں نزی رب کی عطا مل جائے
عزیز عادل، چیئرمین مرام ،مردان:
مجھے یقیں ہے کہ اوجِ گماں پہ رکھتی ہے عجیب لڑکی ہے مجھ کو کہاں پہ رکھتی ہے
میں موم ہوں مجھے کافی ہے دھوپ میں رکھنا پہ زندگی مجھے نوکِ سناں پہ رکھتی ہے
لعل زادہ لعل، صدر مرام،مردان :
اپنی محرومی ء قسمت کا گلہ کیا کرنا اشک رک جائے تو پھر کام ہے سوچا کرنا
روٹھ کر ایسا گیا ہے کہ نہ لوٹ آئے گا وہ جو کہتا تھا کبھی مجھ سے نہ روٹھا کرنا
نوید اقبال:
بات بے بات الجھنا یہ شکایت کیسی حسن کے ساتھ تولازم ہے جفا تھوڑی سی
طعنۂ عشق بڑی بات ہے ورنہ تو نوید آتش غم کو تو کافی ہے ہوا تھوڑی سی
محترم نیاز محمود صاحب ،صوابی:
افسانہ مجبوری سے اقتباس:
میں تو بس تکیہ ہوں بے جان۔ سانس تو لے رہا ہوں پر شاید یہ مصنوعی ہے جس طرح پولیسٹر کا تکیہ ہلکا ہلکا ہلتا محسوس ہوتا ہے لیکن ہے تو بے جان۔ میں ایک لکھاری ہوں۔ افسانے لکھتا ہوں۔ لیکن شاید ان افسانوں میں پہلے خود بستا ہوں۔ خود پہ جو گزرتی ہے تو اسے افسانہ بناتا ہوں شاید افسانے کے لیے ایسا ضروری ہوتا ہے۔ایسا نہ یو تو افسانہ بنے ہی نہ۔ جیسے میری تو خود کوئی زندگی ہی نہیں۔ جیسے میں تو افسانوں کا وہ کردار ہوں جو ایکٹ پہلے ہوتا ہے اور تخلیق بعد میں۔ شاید یہی زندگی یے۔ شاید اس کا سکرپٹ اوپر سے ایسا ہی آیا ہے اور پہلے افسانہ پلے کیا جائے اور پھر اس کے بعد اسے تحریری شکل دے دی جائے۔۔ اب صبح کو لوگ اک نیا افسانہ پڑھیں گے۔ جس میں انسان اور کردار تو سانس نہیں لیں گے لیکن ان کے جذبات پل پل آکسیجن کھینچتے رہیں گے۔ میں افسانہ ترتیب دیتا ہوں اور تم آ کر سو جاو۔ یہاں، میرے بازو پر سر رکھ کر تاکہ تمہیں احساس ہو کہ میں موجود ہوں۔ پر سانس نہیں لے رہا ۔۔۔ آ جاو سو لو۔۔۔لیکن تھوڑا انتظار میں اپنی انا اور اپنے جذبات اک کمرے میں بند کر کے تالہ لگا دوں۔۔۔آجائیں اب۔۔۔اب بے فکر ہو کر سوئیں۔ یہاں کوئی چیز آپ کو سانس لیتی محسوس نہیں ہوگی۔
گوہررحمٰن گہر مردانوی،مردان:
کروگے شور تو آگے عذاب اور بڑھے رہو خموش جہاں اضطراب اور بڑھے
کسی کی بات سےگر اختلاف رکھنا ہو بجائے رد کے ترا اجنتاب اور بڑھے
بلاوجہ کے تردد سے صبر بہتر ہے یہی نہ ہوں کہ تذبذب جناب اور بڑھے
نماز پڑھ تو رہے ہو ، ذرا تحمل سے پڑھو جناب کہ اجر و ثواب اور بڑھے
نکھارٍ خُلق ہے چہرے کی دیکھ تابانی بڑھاؤ اور کے کہ مثلِ گلاب اور بڑھے
گہر قضائے تعلق بھی ایک بدعت ہے نہ چھوڑئیےکہیں اسکا عتاب اور بڑھے محفل رفقائے اردو تنظیم عزم رکھتی ہے کہ دوستوں کی کتابوں کی تقریب رونمائی اور کتاب میلے کا اہتمام کرسکیں جبکہ باہر احباب بلا کر مشاعرے منعقد کریں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب کریم ہماری ہماری کاوشوں کو قبول کریں اور ہمیں اردو کے لیے مردان کی سطح میں کام کرنے کی توفیق دیں
گوہررحمٰن گہر مردانوی
مردان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔