اردو کا دیس نکالا

اردو کا دیس نکالا

تقسیم پاک و ہند سنہ 1947 انسانی تاریخ میں سب سے بڑی ہجرت تصور کی جاتی ہے جس میں کم و بیش 12 سے 15 ملین لوگ در بدر ہوئے جو صاحب حیثیت تھے ہوائی اڈوں سے کہیں چلے گئے کچھ سمندری جہازوں کے ذریعے ، ریل گاڑی کے زریعے اور کئی لاکھ افراد نے وسائل نا ہونے پر پیدل ہجرت کی ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کے سب کو منزل نہیں ملی بلکہ کئی لاکھ مہاجرین تو راستے میں ہی بلوائیوں کے حملے میں لقمہ اجل بنے ۔ 

سعادت حسن منٹو نے اس تقسیم سے رونما ہونے والے حوادث و واقعات پر کئی مضمون لکھے جسمیں ٹھنڈا گوشت اور ٹوبہ ٹیک سنگھ بہت مقبول ہوئے ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جو ناواقف ہیں وہ اسے کسی شخصیت کا نام سمجھیں گے درحقیقت یہ ایک علاقے کا نام ہے اس کی وجہ تسمیہ پر پھر کبھی بات ہوگی ، تو اس وقت ٹوبہ ٹیک سنگھ موجودہ پاکستان کے ڈویژن فیصل آباد سے منسلک ہے تقسیم ہند سے پہلے یہاں دیگر مذاہبِ کیطرح سکھ قوم بھی آباد تھی ۔ خیر منٹو کے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ تقسیم ہندوستان کے چند سال بعد جب دونوں ملکوں کے ادارے اپنے کاموں پر بحال یا فعال ہوئے تو آپس میں املاک اور دیگر امور میں نفری کا تبادلہ بھی شروع ہوا کیونکہ یہ ملک دو قومی نظریہ پر بنا تھ تو اسی نظریے کے تحت پاکستان کے ایک پاگل خانے میں مقید غیر مسلم پاگلوں کو بھی ان کے مذہب کے مطابق اس بانٹ میں شامل کیا گیا دونوں ممالک سے لسٹیں بھیجی گئیں کہ فلاں فلاں ہندوستان سے پاکستان جاہیں گے اور فلاں فلاں پاکستان سے ہندوستان جائیں گے اور واہگہ کی پھاٹک سے انہیں ایک تقریب کے بعد اپنے اپنے ممالک کے سپرد کیا جائے گا جسمیں بھیشن سنگھ نامی ایک سکھ جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہاشی تھا جو یوں تو دنیا اور اس کے معاملات سے ماوراء تھا کہنے کو کاغذات میں اس کے کوائف بطور پاگل کے درج تھے لیکن وہ پاگل اپنے وطن کو اپنی مٹی کو پہچانتا تھا اور جب اسے زبردستی اٹھا کر لیجانے لگے تو وہ بارڈر کی خاردار تاروں کے بیچ نو میں لینڈ ( بارڈر پر دونوں ممالک کی حدود کے درمیان وہ حصہ جو دونوں ممالک کی ملکیت نہیں ہوتی ) پر لیٹ گیا روتا تھا بلکتا تھا چیختا چلاتا تھا کہ میں اپنا وطن نہیں چھوڑوں گا مجھے کیوں اور کہاں لے جا رہے ہو اس کے نالوں کو اس تحریر میں اتنے درد بھرے انداز میں لکھا ہے منٹو نے کہ یہ تحریر امر ہوگئی ایک طرف ہندوستان تھا ایک طرف پاکستان اور بیچ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا ۔ 

تقسیم جو کہ نام سے ہی واضح ہے کہ کسی چیز کے حصے کر کے اسے برابر بانٹ دیا جائے تو اس بانٹ میں تو پھر ہر شہ شامل ہوتی ہے وہ انسان ہوں حیوانات ہوں جمادات یا نباتات ۔ میری اس مختصر تحریر کا مقصد بھی اس تقسیم اور اس سے رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک واقع آپ کے گوش گزار کرنا تھا اور وہ نا تو کسی انسان کا تھا نا حیوان نا جمادات و نباتات بلکہ ہماری موجودہ قومی زبان اردو کا تھا ، ماں بولی کے بعد قومی زبان جو ہماری شناخت ہے یہ بھی تقسیم ہندوستان کے مہاجرین میں شامل تھی نا جانے کون اسے اپنی جنم بھومی ہندوستان سے پکڑ کر بالوں سے گھسیٹ کر پوٹلی میں باندھے کبھی پیدل تو کبھی بیل گاڑی پر لاد کر ہزاروں میل دور بارڈر کے اس پار چھوڑ گیا جو کبھی دہلی ، لکھنؤ یا دکنی لہجوں میں راج کرتی تھی اب اسے سندھ ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ نے پناہ دی ۔ 

دراصل اسے ایک دیرینہ سازش کہہ لیں یا دو قومی نظریے کی کاوش کے تحت اردو زبان جسے خسرو کی پہیلی کہاجاتا ہے اس دربدری کا شکار ہوئی کیونکہ یہ صرف مسلمانوں کی زبان نہیں تھی بلکہ اسے تمام مذاہب کے لوگ بولتے تھے ۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور شاعر فراق گورکھپوری کا نام لیجئے تو ان کے کلام اور طرزِ بیان سے وہ ہمیں اپنے ہم مسلک لگتے ہیں لیکن ان کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا اور ایسا اس لئیے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اردو زبان میں رچ بس گئے تھے یہاں مجھے منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ گیا 

کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں

اردو جو ایک مشترکہ زبان تھی لیکن کیوں کہ اسے اس وقت کا ایک مخصوص طبقہ اور سیاسی پارٹی میاں بھائی کی زبان کہنے لگے کہ اس میں عربی ، فارسی اور ترکش زبان کے الفاظ شامل ہیں بقول اقبال اشعر ، 

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلمان نہیں مانا 

تو اس لسانی مقابلے میں ہندی جو کے سنسکرت سکرپٹ پر مبنی ہے اسے اردو کے مقابلے میں ایک عرصے سے پس پردہ تیار کیا جارہا تھا اور ساتھ ساتھ اردو پر پہ در پہ حملے بھی جاری تھے اس تبدیلی سے قبل کئی نئے الفاظ علاقائی لہجوں کے سبب کچھ رد و بدل کا شکار ہوئے کہنے کو ہندی کے الفاظ تھے لیکن یہ الفاظ ہندی زبان سے اخذ نہیں کئیے گئے بلکہ یہ تو سازش تھی جس کے سبب دھیرے دھیرے زندگی کو جندگی ، ضروری کو جروری ، زیادہ کو جیادہ اور اس طرح کئی دیگر الفاظ کو فیشن بنا کر اس دور کا نیا ٹرینڈ بنا کر کیوٹ نس کا لبادہ اوڑھا کر شامل کیا گیا جو کہ آجکل زبان زد عام ہیں بقول رئیس امروہوی ،

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے 

تو یوں اس دو قومی نظریے کے کامیاب ہوتے ہی ہندی کو ملکہ ہندوستان کا تاج پہنا کر تخت پر بٹھا دیا گیا اور اردو کو اس تخت سے اتار کر ہوا دیس نکالا ۔ 

Title Image by vined mind from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

آرزوئے "سائبان"

منگل دسمبر 26 , 2023
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالم گیر رحمت کی بہار آفریں گھٹاوں سے انسانیت کی کھیتی سیراب ہوتی ہے
آرزوئے “سائبان”

مزید دلچسپ تحریریں