اردو بکس ورلڈ
اردو زبان سے سرمد خان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کا گھر متحدہ عرب امارات میں ڈیرا دبئی کے علاقہ ریگا روڈ پر واقع ہے۔ پہلی بار ان کے گھر گیا تو ایسا لگا کہ شائد یہ انسانوں کی رہائش نہیں بلکہ کتابوں کے رہنے کی کوئی جگہ ہے۔ یہ تین بیڈ روم کا گھر ہے، سٹنگ روم ہے اور ڈائننگ حال بھی ہے، اور وہاں ہر جگہ پر تاریخ، مزہب، سیاست، ادب، شاعری، شخصیات و نظریات اور سائنس وغیرہ کے موضوعات پر دنیا جہان کی کتابیں ترتیب وار سجی نظر آتی ہیں۔ ویسے کتابوں کی لائبریری ہو یا انسانوں کے رہنے کا کوئی گھر ہو ان دونوں میں زندہ و پائندہ انسان بستے ہیں۔ میں جب انگلینڈ تھا تو کسی لائبریری میں مجھے کوئی کتاب پسند آ جاتی تو میں اسے "گم ہو گئی” ظاہر کر کے اس کی قیمت ادا کرتا تھا اور اسے اپنے پاس رکھ لیا کرتا تھا۔ سرمد خان صاحب، سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے اجازت دی کہ ان کے لائبریری نما گھر سے مجھے کوئی بھی کتاب پسند آئے تو میں اسے اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں۔
سرمد خان صاحب پیشے کے اعتبار سے بے شک چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں اور ان کی انگلینڈ اور دبئی میں اکاو’نٹینسی کی کاروباری فرمیں ہیں مگر انہیں کتابوں اور اردو زبان و ادب کے فروغ سے دیوانگی کی حد تک لگاو’ ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ سال بھر پاکستان سے اردو مصنفین، کالم نگاروں اور ٹی وی ڈراموں کے اداکاروں کو جیب سے خرچ کر کے دبئی بلاتے رہتے ہیں۔ وہ ایک انٹرنیشنل رشیئن فرم "آسٹن مارکیٹنگ” کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ ان کی روٹین ہے کہ وہ جب بھی انگلینڈ، امریکہ یا کنیڈا وغیرہ جاتے ہیں تو واپسی پر ہر دفعہ دبئی آتے وقت پاکستان سے ہو کر آتے ہیں۔ ان کو پاکستان سے آتے وقت ائیر لائن جتنا بھی وزن لانے کی اجازت دیتی ہے وہ اسے وہاں سے اردو زبان میں لکھی کتابیں لانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ دبئی پہنچ کر دوبارہ اسلام آباد، لاہور یا کراچی وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ وہاں وہ اخبار نویسوں، مصنفین اور پبلشرز وغیرہ سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اس دفعہ انہوں نے "کراچی بک فیئر” میں بھی شرکت کی۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کی تقریبا تمام بڑی لائبریریوں کا وزٹ بھی کیا۔ سچی بات ہے میرے اندر کالم نویسی کا شوق سرمد خان کو ملنے کے بعد پیدا ہوا جب انہوں نے پانچ ماہ قبل پاکستان سے امارات کے مطالعاتی دورے پر آئے ہوئے صحافیوں اور کالم نگاروں کے ایک وفد سے میری ملاقات کروائی۔ اس موقع پر ہم نے مل کر "دانش کدہ شارجہ” (Wisdom House Sharjah), "شارجہ چلڈرن بک فیئر”، "ابوظہبی بک فیئر” اور "محمد بن راشد لائبریری” کا وزٹ کیا ( جس کی روداد پر مبنی میرے کالمز بھی شائع ہوئے)۔ اسی اثناء سرمد خان نے اس سال نومبر میں شروع ہونے والے "شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر” (Sharjah International Book Fair) میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
شارجہ کے حکمران عزت مآب ڈاکٹر شیخ سلطان بن محمد القاسمی کو علم و آگاہی اور کتابوں کی نشر و اشاعت سے بے حد لگاو’ ہے جس کے لئے وہ ہر سال شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں جس میں دنیا بھر سے سینکڑوں نامور مصنفین، دانشور اور پبلشرز ایک متحرک علمی و ثقافتی پروگرام کی قیادت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب ہم نے "شارجہ بک اتھارٹی” سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہمیں ‘شارجہ دانش کدہ” سے معلومات حاصل کرنے کو کہا۔ یہاں پہنچ کر ہمیں مایوسی یہ ہوئی کہ شارجہ بک فیئر کے سٹالز انچارج مسٹر موہن نے بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کا کوئی پبلشر اس کتاب میلے میں شرکت نہیں کر رہا ہے۔ مزید تفصیل پوچھنے سے پتہ چلا کہ کتابوں کی کمپنی بنائے بغیر اس میلے میں پاکستان کی طرف سے اردو کتابوں کی نمائش نہیں کی جا سکتی ہے۔ ایکسپو سینٹر شارجہ میں یکم نومبر سے 12نومبر تک منعقد ہونے والا یہ شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر کا 42واں ایڈیشن ہے۔ سرمد خان کو جونہی پتہ چلا کہ کمپنی کھڑی کیئے بغیر "پاکستان کی نمائندگی” ممکن نہیں ہے تو انہوں نے اسی روز اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
کتاب میلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ سرمد خان صاحب اپنی ٹیم طاہر علی بندیشہ اور معین صمدانی کے ساتھ اردو بکس کے شائقین کا استقبال کرنے کے لئے موجود ہیں۔ اس ٹیم کے لیڈر سرمد خان کی حب الوطنی اور اردو سے ان کی دیوانہ وار محبت کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ آپ اپنے اہل و عیال سمیت سرمد خان صاحب کے "اردو بکس ورلڈ” کے سٹال پر تشریف لائیں۔ خاص طور پر بچوں کو بھی ساتھ ضرور لے کر آئیں تاکہ ان میں "کتب بینی” کا شوق پیدا ہو سکے۔ یہ سٹال شارجہ ایکسپو سینٹر کے حال نمبر: 7, سٹینڈ نمبر: زیڈ بی8″ (HALL NO: 7, STAND NO: ZB8) پر لگایا گیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے:
Join Our Socials @urdubookworld
شارجہ بک فیئر کے چیئرمین احمد بن رکاد الامیری کا کہنا ہے، "کتابیں کسی قوم کی شناخت بناتی ہیں۔ کتابیں معیشت کا انجن ہیں۔ وہ تبدیلی ساز اور ترقی کا آلہ ہیں۔ ان کے بغیر علم، سائنس یا سرمایہ کاری میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی”۔
کشکول اٹھا کر گھر گھر قرضوں کی بھیک مانگنے کی بجائے ہمیں بھی کتابوں پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔