خالو شکاری اور شکار کا گوشت

ہمارے ماسٹر بیڈ روم کی کھڑکیوں میں جالی لگی ہوئی تھیں ۔ کبھی کبھی دروازے سے چڑیاں اندر آجاتیں ۔ہم فٹافٹ دروازہ بند کردیتے ۔چڑیاں کھڑکیوں سے نکلنے کی کوشش کرتیں لیکن جالی کی وجہ سے پھنس جاتیں اور ہم ان کو پکڑ لیتے ۔۔ان کو ذبح کرکے شام کو پکا لیتے ۔ مُصَلِی فیملی بٹیرے فصلوں سے پکڑ کر بیچتے تھے ، کبھی ٹیسٹ چینج کرنے کے لیے ان سے بٹیرے خرید کر پکا لیتے۔

بابے ملوں کی پڑی کو میں دو چار دن بعد وزٹ کرتا ۔ کبھی چوہنگیں ہاتھ آتیں اور کبھی سفید کھمیں (mushroom) مل جاتیں ۔ شام کو امی جان پکاتیں۔ کالی چھتری نما مشروم کھاد کی ڈھیروں پر عام ہوتیں۔ ان کو ۔۔پدبھیڑا۔۔کہتے ۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کو ہندو۔کھاتے ہیں ۔۔شاید وہ زہریلی مشروم ہوں گی ۔

خالو اختر صاحب شکار کے شوقین تھے۔ وہ خرگوش، ہرنی اور کونج کا شکار کرتے تھے۔  ہمارے پڑوس کے دو گاؤں ہرنیاں والا اور ہر نیالی کے ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں آس پاس کے جنگلوں میں ہرن زیادہ ہوتے ہوں گے.خالو اختر صاحب کے گھر ہرن کی کھال کا مُصلّیٰ 1970 تک موجود تھا۔ شام کو جب خالو شکار سے واپس آتے تو خالہ جان  آڈٹ (Audit)  کے لیے تیار بیٹھی ہوتیں۔ پہلے گوشت کے وزن اور اس کی قیمت کا اندازہ لگایا جاتا۔ پھر شکار کے دوران چلائے گئے کارتوسوں کی قیمت لگائی جاتی ، جمع تفریق کے بعد فیصلہ صادر ہوتا کہ سراسر نقصان ہوا ہے۔ کی فیدہ  اس شکارے ناں ۔  خالو جان نہایت خاموشی سے یہ تقریر دلپزیر سنتے اور مغرب کی نماز کے لیے مسجد چلے جاتے ۔خالہ کا اور ہمارا صحن کامن تھا۔اس لئے ہمیں بھی شکار کا گوشت مل جاتا تھا۔

خالو شکاری اور شکار کا گوشت

انڈے کے بارے میں پتہ نہیں تھا کہ یہ بھی کھانے کی چیز ہے ۔ہم اسے صرف چوزے نکالنے کا ذریعہ سمجھتے تھے. ٹماٹر کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے صرف فضول خرچ زنانیاں کٹوی پکانے کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔

سہ پہر کو بھٹیارن کے ہاں جا کر ہوئی مکئی یا چنے بُھنواتے .کھیتوں سے آئے ہوئے پتوں والے سبز چنے تنور میں رکھ دیے جاتے تھے کہ خستگی آ جائے- کبھی کبھی کالے چنے‘ جنہیں فارسی میں ’’نخودِ سیاہ‘‘ کہتے تھے‘ دوپہر کو تنور میں برتن بند کر کے رکھ دیے جاتے تھے .اس میں نمک ڈالا جاتا اور سہ پہر کو یہ گھگھنیاں بطور  چاٹ کھائی جاتی تھی ۔ جو آدمی ضروری بات بھی نہ کرے اس کو کہتے ہیں کہ  یہ منہ میں گھگھنیاں ڈالے بیٹھا ہے ۔ محکمہ زراعت میں شاید اب بھی کوئی پرانی فارسی دان روح بیٹھی ہوئی ہے جس کے حکم پر وال چاکنگ ہوتی ہے ،نخود کاشت کریں۔   کھوڑ فتح جنگ روڈ پر سرلا  پاس کے آس پاس یہ وال چاکنگ دیکھی تھی۔

سلسلہ خوراکاں کاساتواں مضمون

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سلطان محمود بسملؔ کی ساغر سم

ہفتہ نومبر 26 , 2022
غزل اپنی ہیئت میں مختصر گوئی کاایسافن ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اور مقبولیت حاصل کررہا ہے۔
سلطان محمود بسملؔ کی ساغر سم

مزید دلچسپ تحریریں