ستم گرو، آئین کو رہنے دو

ستم گرو، آئین کو رہنے دو

Dubai Naama

26ویں آئینی ترمیم کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ 21سمتبر سے شروع ہونے والے وزیراعظم کے غیرملکی دورے کے بعد اس ترمیم کے مسودے میں کچھ ردوبدل کر کے اور نمبرز گیم کو پورا کرنے کے بعد اسے دونوں ایوانوں سے پاس کروانے کی دوبارہ کوشش کی جائے گی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کو آئینی ترمیم کے لیئے مولانا فضل الرحمان کو عہدہ جات دے دلا کر دوتہائی اکثریت حاصل ہو بھی جائے تو آئین میں کوئی ترمیم کرنے کے لیئے اصولی طور پر دانشور طبقے اور عوام کی آراء کو بھی مدنظر رکھا جاتا یے۔ دوسری بات یہ ہے کہ 1973 کے کلی متفقہ آئین کی عمر ابھی51سال ہوئی ہے، آئین پاکستان اپنی “گولڈن جوبلی” سے گزر رہا ہے، حکومت منائے یا نہ منائے، مگر وہ اس آئینی ترمیم کرنے پر بضد نظر آتی ہے۔ آئین پاکستان کی کل دفعات 280 ہیں جس میں 25 آئینی ترامیم کے زریعے اب تک 34شقوں کو تبدیل کیا جا چکا یے، اور یہ 26ویں آئینی ترمیم ہے یعنی آئین کی 51سالہ عمر میں ہر دو سال بعد کوئی نہ کوئی آئینی ترمیم پیش کی جاتی رہی یے اور اس دفعہ آئینی ترمیم کے بل میں 54 ترامیم کی تجویز شامل ہے جو کہ آئین کی 51 سال کی عمر سے بھی زیادہ ہیں۔

عارضی طور پر آئینی ترمیم کا موخر کیا گیا یہ بل عدلیہ سے متعلق یے جسے پارلیمانی کارروائی سے بوجوہ مکمل نہیں کیا جا سکا جس کے بعد قومی اسمبلی و سینٹ کے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیئے گئے۔ اس بل میں حکومت کے مقتدرہ سے اچھے تعلقات اور اسے دی گئی سہولیات کی بناء پر حکومت کو یقین تھا کہ وہ اس بل کو کامیاب کروا لے گی کیونکہ اس کے ذہن میں تھا کہ مقتدرہ کے سامنے مولانا فضل الرحمان صاحب انکار نہیں کر سکیں گے مگر انہوں نے بل پر اپنے بنیادی تحفظات کا اظہار بھی کیا اور مقتدرہ کو ناراض بھی نہیں کیا۔ چونکہ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا تھا تو درون خانہ حکومت سپریم کورٹ کے آئندہ چیف جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی جسے مولانا کی سیاسی دانش و حکمت نے وقتی طور پر کامیاب نہیں ہونے دیا۔

حکومت کے اس منصوبے سے آئین میں 26ویں ترمیم لانے کا ایک بنیادی مقصد ایک نئی آئینی عدالت کا قیام تھا تاکہ اس کے ذریعے سپریم کورٹ کو غیر موثر کیا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کرتے ہوئے یہی قومی موقف اختیار کہ وہ کسی ایسی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے جس کا مقصد آئین کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہو۔ اس دفعہ
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا موثر کردار قابل تعریف ہے۔ انہوں نے آئین کی اصل عمارت کو قائم رکھنے کے لیئے وہی بے مثال کردار ادا کیا ہے جو 1973 کے آئین کو تیار کرنے میں مولانا فضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود اور بلاول بھٹو زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے ادا کیا تھا۔ مولانا مفتی محمود خیبر پختونخوا کے 1972 سے 1973 تک وزیراعلی بھی رہے اور وہ اس آئینی کمیٹی کے رکن بھی تھے جو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کر رہی تھی جس میں مولانا شاہ احمد نورانی، غوث بخش بزنجو، پروفیسر غفور احمد، ولی خان اور حفیظ پیر زادہ جیسی قدآور سیاسی و مزہبی شخصیات شامل تھیں، جس کے صدر خود ذوالفقار علی بھٹو تھے۔

ستم گرو، آئین کو رہنے دو

1973 کے آئین کو حتمی شکل دینے کے لیئے قومی ایوان بالا اور زیریں میں ایک لمبی چوڑی بحث و تمحیص ہوئی تھی اور اسے عوام کے سامنے پورا وقت کھلا رکھا گیا تھا مگر 26ویں آئینی ترمیم کو آخری دن تک انتہائی خفیہ رکھا گیا جو مناسب طریقہ کار نہیں تھا۔ 18ویں آئینی ترمیم کی مثال ہی کو لے لیں جس پر کافی عرصہ تک بحث و تکرار اور کام ہوتا رہا اور پارلیمنٹ کے اتفاق کے علاوہ عوامی حمایت بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ اس کے بعد بھی جو کوششیں کی گئیں ان کے باوجود 18ویں ترمیم کی عوامی حمایت جاری رہی کیونکہ اس کی سیاسی روایت و اقدار یہ ہے کہ قوانین اپنے ارتقاء کے دوران نئی اشکال بھی اختیار کریں تو ان کی افادیت و حمایت میں کمی نہیں آتی۔

ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیئے حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ آئین پاکستان پر اتنا ظلم نہ کرے کہ اس کی حیئت ہی یکسر بدل جائے۔ ملک میں مارشل لاء لگتا ہے تو آئین کو عموما معطل کیا جاتا ہے مگر کچھ اہم ملکی ادارے انتظامیہ اور عدلیہ وغیرہ بدستور آئین کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں اور جونہی مارشل لاء اٹھتا ہے آئین مکمل طور پر اس کی اصل حالت میں بحال کر دیا جاتا ہے۔ اب بھی حکومت کو چایئے کہ اگر وزیراعظم کی واپسی پر وہ اسٹیبلشمنٹ کا دباو استعمال کر کے 26ویں آئینی ترمیم کو لانا بھی چاہتی ہے تو اس کے مسودے پر نظر ثانی کرے۔ بلاول بھٹو بھی کہہ چکے ہیں کہ آئینی ترمیم کا مسودہ کچا تھا۔ حکومت آئین پر اتنا ستم نہ کرے کہ اس کی اصل شکل ہی بگڑ جائے۔ متفقہ طور پر تیار کیا گیا پاکستان کا 1973 کا تیسرا آئین ہی باقی ماندہ پاکستان کی بقا اور اتحاد کا ضامن ہے، اس کے ساتھ مزید کھلواڑ کھیلنے سے ضرور گریز کیا جانا چایئے۔

انہی دنوں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف آرٹیکل 17 کے تحت کارروائی کرنے اور آرٹیکل 6 کے تحت مقدمات چلائے جانے پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ آرٹیکل 17 ملکی سالمیت کیلئے خطرے کی دفعہ ہے جبکہ آرٹیکل 6 سنگین غداری کی دفعہ ہے۔

آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق کوئی بھی شخص طاقت سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کاری کرے، اسے معطل کرے تو یہ سنگین غداری کے زمرے میں آئے گا، معاونت اور سازش میں شریک ہونے پر بھی وہ سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔ آرٹیکل چھ کی شق دو کے تحت شق ایک میں درج شدہ سنگین غداری کو سپریم کورٹ سمیت اس میں ملوث کسی کو مجرم قرار دینے پر وہ سزائے موت یا عمر قید کا مستوجب ہو گا۔ لیکن یاد رہے گزشتہ عام انتخابات سے پہلے بھی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی خبریں گردش کرتی رہی تھیں مگر اس خواہش کی بیل منڈھے نہیں چڑھی تھی اور عمران خان کے جیل میں ہونے کے باوجود ان کی جماعت نون لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں سے مجموعی طور پر زیادہ نشستیں لینے میں کامیابی ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ یوں تو 17 دسمبر 2020 کو خصوصی عدالت نے سابق آمر پرویز مشرف کو بھی سنگین غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے انھیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا کہ اس سزا کو جنرل مشرف کی درخواست پر معطل کر دیا گیا تھا حالانکہ جسٹس وقار نے حکم دیا تھا کہ جنرل مشرف مردہ حالت میں بھی ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔

آئین کا آرٹیکل سترہ جہاں سیاسی جماعت بنانے کا حق دیتا ہے وہاں یہ شرائط بھی لاگو کرتا ہے کہ آرٹیکل کی شق دو کے مطابق کسی سیاسی جماعت پر فارن فنڈنگ یا قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دینے کا الزام ہو تو وفاقی کایبنہ پابندی کی منظوری دے سکے گی۔

حکومتی ڈکلیریشن کے بعد پندرہ روز کے اندر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنا ہو گا اور اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ اگر سپریم کورٹ وفاقی حکومت کے بھیجے گئے ریفرنس کی توثیق کر دیتی ہے تو سیاسی جماعت کالعدم ہونے کی صورت میں اس جماعت کے سینیٹ، قومی، صوبائی اور بلدیاتی نمائندوں کی رکنیت فوری معطل ہو جائے گی۔

لیکن اب حکومت سپریم کورٹ سے بالاتر عدالتی ترامیم لانا چاہتی ہے اور وہ اس لیئے کہ ایک سپریم کورٹ کو حکومت کے خلاف فیصلہ سازی سے روکا جائے۔ دوسرا یہ اختیار خود حکومت کے پاس آ جائے جس کے بعد حکومت اپنی آئینی مدت بھی پوری کر سکے اور ملک میں خوشحالی لانے والی دودھ کی نہریں بھی چلا سکے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

جمعرات ستمبر 19 , 2024
کتابیں ہر طالب علم کی زندگی میں اسے تحیل کی دنیا سے متعارف کرانے، دنیاکے بارے میں معلومات فراہم کرنے، لکھنے ، پڑھنے اور بولنے
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

مزید دلچسپ تحریریں