ٹرمپ کا مشرق وسطی میں امن کا خواب
ٹرمپ کی جیت دنیا میں امن قائم کرنے کی ایک نئی امید لے کر آئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں جنگ مخالف اور روایات شکن امیدوار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کا انداز سیاست جارحانہ ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے گزشتہ 4سالہ دور اقتدار میں دنیا کے کسی ملک میں امریکہ کو فوجی مداخلت کی اجازت نہیں دی تھی، گو کہ انہیں اپنی پارٹی ری پبلکن کی طرف سے بھی سخت دباؤ تھا۔ اس بار بھی امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی تقریر میں دنیا میں امن قائم رکھنے کا اعادہ کیا، جب انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیئے کام کریں گے اور دنیا میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے جس سے امن کو فروغ حاصل ہو گا۔
کسی نومنتخب امریکی صدر کا اپنی پہلی ترجیح میں ماضی کے برعکس امریکہ کے جنگی جنون کو ترک کرنے کا عہد ایک خوش آئند پیغام ہے جس کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر مشرق وسطی میں امریکی مداخلت کے حوالے سے اسے ضرور سراہا جانا چایئے۔ انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے ٹرمپ کے حامیوں کو کچرا کہا تھا کیونکہ بائنڈن کی رائے میں دنیا میں امن قائم کر کے امریکی بالادستی کو قائم نہیں رکھا جا سکتا ہے، جس کا ردعمل دیتے ہوئے ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران کچرا اٹھانے والے ایک ٹرک پر بیٹھ گئے تھے (اس ٹرک پر جلی حروف میں TRUMP لکھا تھا)۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ سبز اور نارنجی رنگ کی ایک ہلکی جیکٹ پہنے ایک کچرا اٹھانے والے ٹرک کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں جو اس بات کی علامت سمجھا گیا کہ ٹرمپ دنیا میں جنگ و جدل کی گندگی کو صاف کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو حماس یا حزب اللہ اسرائیل پر حملہ کرتا اور نہ ہی وہ اسرائیل فلسطین جنگ ہونے دیتے۔ اس ضمن میں امریکا کی نائب صدر اور ڈیموکریٹک شکست خوردہ صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ غزہ جنگ بندی معاہدے پر کچھ پیش رفت ہوئی لیکن جب تک حقیقت میں کوئی معاہدہ نہیں ہو جاتا یہ بے معنی تھا۔ اس کی مخالفت میں ٹرمپ کا ایک یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ اگر وہ امریکی صدر ہوتے تو وہ مشرق وسطی کی جنگ محض چند گھنٹوں میں بند کروا سکتے تھے۔ ٹرمپ کے اس امن پسند موقف کی امریکی ووٹرز خوب ستائش کی اور انہیں صدارتی انتخابات میں کامیاب کرایا۔
ٹرمپ کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ اب امریکی عوام کی اکثریت امریکہ کی دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کو ناپسند کرتی ہے۔ امریکہ کی ابھی بھی قطر، اومان، شام، عراق اور کویت وغیرہ میں افواج موجود ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل فلسطین جنگ اور خاص کر ایران اور اسرائیل کے حملوں کے بعد فوری ردِ عمل دیتے ہوئے انھیں "ناقابلِ قبول” قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ امریکی جنگی بحری جہازوں نے متعدد ’ایرانی میزائلوں کو نشانہ بنایا۔‘ صدر بائیڈن نے پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ میں فوجیں بڑھانے کا حکم دے رکھا تھا اور اس سے قبل ستمبر کے اواخر میں مشرقی بحیرۂ روم میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ’یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومن‘ بھیجا گیا تھا۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکہ کے 40 ہزار سے زیادہ فوجی مشرقِ وسطیٰ میں مختلف ممالک میں تعینات ہیں۔ لیکن امریکی افواج اپنے ملک سے ہزاروں میل دور مشرقِ وسطیٰ میں اتنی بڑی تعداد میں کیوں موجود ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا ٹرمپ اب مثبت جواب سامنے لانا چاہتے یہ
ٹرمپ نے اپنے پہلے ہی خطاب میں اس بات کو ایک پالیسی سٹیٹمنٹ کے طور پر نمایاں کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس سیاست کا اتنا عملی تجربہ نہیں تھا۔ انہوں اپنے مشیروں کی ہدایت کے مُطابق ہی الیکشن لڑا۔ یہی وجہ تھی کہ اُنکی تقاریر میں سیاسی تدبر اور بصیرت کمی نظر آئی۔ بلاشبہ، ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس پیسے کی فراوانی تھی، وُہ بہت شاطر اور ذہین مشیروں سے استفادہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ لہذا انہوں نے پیسے کا استعمال عمدگی سے کیا اور مُختلف طبقوں کے درمیان نفرتوں کو ابھار کر امریکی سیاست کو ایک نیا رنگ دیا جس نے مجموعی طور پر امریکی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے جس پر ٹرمپ کے امن پسندی کے جذبے نے سونے پر سہاگے کا کام کیا جسے مشرقی وسطی میں حماس نے خصوصی طور پر سراہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی اسی امن پسند پالیسی کے پس منظر میں ان کی کامیابی پر ردعمل دیتے ہوئے حماس کے رہنما سمی ابو ذوہری نے کہا ہے کہ ٹرمپ کو ان کے بیانات کے حساب سے جانچا جائے گا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ بطور صدر غزہ جنگ کو چند گھنٹوں میں روکیں گے۔
حماس سیاسی بیور کے ممبر باسم نعیم نے بھی ٹرمپ کے امریکہ کے صدر بننے پر اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی ریاست کی اندھی حمایت ختم ہونی چاہئے کیونکہ یہ حمایت ہمارے لوگوں کے مستقبل اور خطے کی قیمت پر کی جاتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ مشرق وسطی کو حقیقی اور پائیدار امن کی طرف لوٹتے دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ اس عمل کو اچھے طریقے سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
اگر ٹرمپ اپنے ان سابقہ بیانات کی پاسداری کرتے ہوئے واقعی مشرق وسطی میں جنگ بندی کرواتے ہیں تو پھر اس بات کا قوی امکان ہے کہ خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کا خاتمہ اور امریکی فوج کی واپسی کا بھی امکان پیدا ہو جائے گا جو دنیا میں وسیع تر امن قائم کرنے کے لئے ایک بنیادی قدم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ ماضی میں جہاں جنگی مداخلتوں سے دنیا کا امن تباہ کرتا رہا، وہ اب یہ مداخلتیں بند کر کے امن بحال بھی کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے کریڈٹ کا سارا سہرا ٹرمپ کے سر پر بندھے گا۔
اسرائیل کی امریکہ پشت پناہی چھوڑ دے تو جہاں اسرائیل فلسطین جنگ بندی میں پیش رفت ہو سکتی ہے وہاں فلسطین بھی آزاد ہو سکتا ہے، اسرائیل کی آزادی کو بھی عرب اور مسلم دنیا تسلیم کر سکتی ہے وہاں دنیا بھر کے امن پر اس کے مثبت اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔