ٹرافی ہنٹنگ:امریکی شکاری کا چترال میں مارخور کا شکار
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی دلکش خوبصورتی اور وہاں موجود منفرد جنگلی حیات عالمی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان علاقوں میں موجود مارخور اپنی خوبصورت سینگوں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ مارخور پاکستان کا قومی جانور بھی ہے یہ اپنی جسامت کی وجہ سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک امریکی شکاری رونالڈ جوویٹن نے کشمیری مارخور کا شکار چترال کے تھوشی شاشا کنزروینسی میں کیا۔ یہ شکار دو لاکھ اکہتر ہزار امریکی ڈالر کی بولی کے عوض ممکن ہوا۔ شکار کیے جانے والے مارخور کی عمر گیارہ سال تھی اور اس کے سینگ کی لمبائی انچاس انچ سے زیادہ تھی۔
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ پروگرام 1980 کی دہائی میں شروع کیا گیا تاکہ خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی حفاظت کی جا سکے۔ اس پروگرام کا مقصد شکار کو محدود پیمانے پر اجازت دے کر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مقامی کمیونٹی کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا تھا۔
مارخور کی مقامی آبادی میں کمی اور اس کے شکار کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اسے کنٹرولڈ شکار کی اجازت دی۔ اس کا 80 فیصد حصہ مقامی کمیونٹی کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ نہ صرف مالی طور پر مستحکم ہوں بلکہ جنگلی حیات کی حفاظت میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔
ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے ناقدین اور حمایتی دونوں موجود ہیں۔ اس شکار کے حق میں درج ذیل دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
شکار کی بھاری فیس مقامی کمیونٹی کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کا باعث بنے گا جس سے ان کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی۔ مقامی افراد شکار سے حاصل ہونے والے مالی فائدے کی وجہ سے مارخور اور دیگر جنگلی حیات کی حفاظت کو یقینی بناسکتے ہیں۔ لیکن ناقدین مارخور جیسے قومی جانور کی شکار کے حق میں نہیں ہیں، قومی جانور کے شکار کی اجازت دینا ایک اخلاقی سوال پیدا کرتا ہے خاص طور پر جب اسے تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مارخور جیسی اقوامی اثاثہ جات کا شکار قدرتی ماحولیاتی توازن کو متاثر کرے گا۔ شکار کی آمدنی کا درست استعمال اور اس کے اثرات پر شفافیت کی کمی ہے۔ اکثر مقامی کمیونٹی کو مکمل فائدہ نہیں ملتا جو کہ درست تنقید ہے۔
ایسے شکار عالمی برادری میں پاکستان کی شبیہ پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں خاص طور پر ماحولیاتی تحفظ کے معاملے میں یہ شکار جنگلی حیات کے خاتمے کا باعث بنے گا۔
شکار کی اجازت اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے استعمال کی سخت مانیٹرنگ ضروری ہے تاکہ مقامی کمیونٹی کو اس کا مکمل فائدہ پہنچے۔ مقامی افراد کے لیے متبادل ذرائع آمدنی پیدا کیے جائیں، جیسے کہ سیاحت یا جنگلی حیات کی فوٹو گرافی، تاکہ شکار پر انحصار کم ہو۔
شکار کی اجازت صرف بوڑھے یا غیر افزائش پذیر جانوروں تک محدود ہونی چاہیے تاکہ مارخور کی آبادی متاثر نہ ہو۔ مقامی اور عالمی سطح پر اس پروگرام کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے متعلق آگاہی بڑھائی جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے ذریعے مارخور کے تحفظ کی کوششیں بظاہر فائدہ مند ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی، ماحولیاتی، اور شفافیت کے مسائل کو بھی حل کرنا ضروری ہے۔ چترال اور دیگر علاقوں میں مارخور جیسی جنگلی حیات نہ صرف پاکستان کی پہچان ہیں بلکہ ان علاقوں کے ماحولیاتی توازن کا حصہ بھی ہیں۔ ان کی حفاظت صرف موجودہ نسلوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی امانت بھی ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔