شمالی ہندکا بہرائچ نامی تاریخی شہرریاست اترپردیش کے صدر مقام لکھنؤ سے تقریباً سواسو کلومیٹر دور ملک نیپال کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر سے یہ شہر میرے اسلاف پدری کا مسکن رہا ہے جب میرے پردادا سیّد ہادی حسن مرحوم و مغفورضلع رائے بریلی کے مردم خیزخطۂ جائس سے بہ سلسلۂ ملازمت وہاں جا بسے تھے۔ میرے دادا سیّد احمد حسن علیہ الرحمۃ اس شہر کے ایک نامور حکیم اور والد مرحوم جناب سیّد محمود حسن ضلع کے ایک ممتاز قانون داں اور ملّی رہنما تھے۔ میری والدہ محترمہ منور جہاں بیگم صوبائی حکومت میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز اور لکھنؤ میں رہائش پذیرخان بہادر سید احسان عظیم مرحوم کی بیٹی تھیں۔ انکے ایک ماموں مرادآباد کے مفتی محمد عطا مرحوم ضلع بہرائچ کی ریاست نانپارہ میں سرکاری افسر تھے اور میرے والدین انھیں کے توسط سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ میری پیدائش لکھنؤ میں اپنے ننھیال میں ہوئی تھی اور میری عمر کا ایک غالب حصہ تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں بہرائچ سے دور دوسر ے متعدد شہروں میں گزرا ہے۔ بہرائچ میں میرا قیام تو بہت کم رہا مگر آنا جانا ہوتا رہا، اور اسی مناسبت سے میں نے اس مضمون کا عنوان سفرنامۂ بہرائچ رکھا ہے۔
1927ءمیں علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہوکر بہرائچ لوٹنے کے بعد میرے والد مرحوم محلّہ قاضی پورہ میں اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ ہی رہ رہے تھے۔ چند سال بعد انھوں نے آبائی گھر کے قریب ہی ایک بڑا پلاٹ خرید کے اس پر ایک وسیع و عریض رہائشی عمارت کی تعمیر شروع کروائی تھی۔ 1934ء میں انکی شادی کے بعد والدہ مرحومہ کے مشورے سے اسکے نقشے میں کافی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اگلے سال جب عمارت کسی قدر مکمّل ہوئی تو انھوں نے اسکی پیشانی پر قرآن مجید کی آیت کریمہ کُلّ مَن عَلیھا فانِ ویبقی وَجہِ رَبّکٰ ذُو الجَلالِ وَالِاکرام کا کتبہ لگوایا تھا ۔عہد طفولیت میں جب مجھے لکھنؤ سے بہرائچ لے جایا گیا تھا تب شہر میں بجلی کا نظام نہیں تھا اور اس کوٹھی میں بھی روشنی مٹی کے تیل کے لیمپ اور لالٹین وغیرہ سے ہوتی تھی، بجلی کے قمقمے میرے ہوش سنبھالنے کے کافی بعد روشن ہوئے تھے اور لکھنؤ سے بلوائے گئے ایک الکٹریشین کا وہیں سے لائے گئے سازوسامان سے گھر کی چھتوں اور دیواروں کو بجلی کے پنکھوں اور لیمپوں سے مزین کرنا مجھے ا چھی طرح یاد ہے۔ پانی کے نل اسکے بھی بعد لگے تھے ورنہ پہلے تو صحن مین لگے ہینڈ پمپ اور بہشتی صاحبان کے کنووں سے بڑی بڑی مشکوں میں بھر کر لائے ہوئے پانی سے ہی کام چلتا تھا۔
میری ابتدائی تعلیم والدین کی آغوش شفقت میں اسی کوٹھی میں ہوئی تھی اور اس میں اردو، فارسی، عربی، انگریزی، قرآن و حدیث اور اردو نثر و نظم سبھی کچھ شامل تھا۔ اسکے بعد میں نے شہر کے متعدد اداروں میں پڑھائی کی جسکی شروعات مسعودیہ جناح ہائی اسکول سے ہوئی تھی۔ یہ اسکول والد ماجد مرحوم نے جو اس وقت ضلع مسلم لیگ کے صدر تھے بعض معززین شہر کی اعانت سے ایک قلعے نما عمارت میں قائم کیا تھا اور مقامی روایت کے مطابق شہر میں واقع درگاہ سیّد سالار مسعود غازی کی نسبت سے اسکے نام میں لفظ ’’مسعودیہ‘‘ بھی شامل کیا تھا۔ جلد ہی ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعدمسلم لیگ کے سبھی ارکان گرفتار کر لئے گئے تھے اور یہ اسکول ایک عرصہ بند پڑا رہا تھا۔ بالآخرشہر کے نامور عالم دین مولانا محفوظ الرحمٰن نامیؔ نے جنکا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا اپنے سیاسی رسوخ کا استعمال کرکے اسے اپنی تحویل میں لیا تھا اور اسکا نام مولانا ابو الکلام آزاد کے نام پر آزاد کالج رکھا تھا۔ سابقہ اسکول کے طالبعلم نئے ادارے میںمنتقل ہو گئے اور انکی پڑھائی جامعہ مسعودیہ نور العلوم کی عمارت میں شروع ہوئی تھی جہاں سے میں نے بھی درجہ پنجم مکمل کیا۔ ایک عرصے بعد یہ ادارہ شہر کے مضافات میں واقع راجہ نانپارہ کی ایک کوٹھی میں منتقل ہو گیا تھا جہاں میں ڈیڑھ سال تک زیر تعلیم رہا۔ وہاں میرے خاص معلم مرزا حامد علی بیگ صاحب تھے جن کے ساتھ میں ادارے کے احاطے میں موجود مسجد میں پابندی سے ظہر کی نماز پڑھتا تھا، جبکہ جمعہ کے دن وہاں نماز سے پہلے چھٹی ہوجایا کرتی تھی۔ 1952ءمیں درجہ ششم کا امتحان میں نے آزادکالج سے ہی پاس کیا ۔
اگلے سال ساتویں کلاس کے وسط میں مجھے وہاں سے گورنمنٹ انٹر کالج میں شفٹ کردیا گیا جسکی عمارت شہر کے ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع تھی اور جہاں مدتوں پہلے خود والد مرحوم اور انکے سبھی بھائیوں نے دسویں تک کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہاں کے اس وقت کے پرنسپل مسٹر ایمرسن ینگ سے والد مرحوم کے اچھے مراسم تھے اس لئے وہ مجھ پر خاص شفقت کا معاملہ کرتے تھے۔ وہاں میرے خاص اساتذہ میں ماسٹر سورج نرائن آرزوؔ تھے جو اردو کے اچھے شاعر تھے اور برسوں پہلے اسی ادارے میں والد مرحوم کے ہم جماعت رہ چکے تھے، دوسرے اردو کے استاد مولوی محمد حسن جو فیض آباد کے تھے ، اور تیسرے مولوی سیّد حامد حسین جو محلّہ سیّد واڑہ میں رہتے تھے اور فارسی پڑھاتے تھے۔ اس کالج سے متصل ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں میں مولوی محمد حسن صاحب کے ساتھ ظہر اور جمعے کی نماز پڑھنے جایا کرتا تھا۔ مولوی حامد حسین صاحب بھی اگرچہ شیعہ مسلک کے تھے مگر اسی مسجد میں علیحدہ نماز پڑھتے تھے۔ مولانا محفوظ الرحمٰن مرحوم کے بھانجے مولوی جنید بنارسی جو مدرسے کے طالبعلم اور میرے قریبی دوست تھے مجھ سے ملنے گاہے بہ گاہے وہاں آیا کرتے تھے۔ کالج کے کئی اساتذہ مجھے گھر پر ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے۔ کیونکہ آزادی کے بعد ذریعۂ تعلیم اردو کے بجائے ہندی ہوچکا تھا اس لئے والد مرحوم نے اسی کالج میں اپنے سابق استاد پنڈت رام بھروسے ترپاٹھی جی کو بلاکرمجھے گھر پر ہندی اور سنسکرت پڑھانے کی زحمت دی تھی۔ جون 1953ءمیں جب میری والدہ کا اچانک انتقال ہوا تب میں نویں کلاس کا امتحان دے چکا تھا اور نتیجے کا انتظار تھا۔ انھیں کالج سے تھوڑا ساآگے اسٹیشن روڈ کے کنارے قدیمی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا اور میںان کی نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ میںکم عمری کے باوجود والد مرحوم کے ساتھ قدم بہ قدم شریک تھا۔ اس حادثۂ جانکاہ کے بعد گھر کا ماحول سوگوار رہنے کے باعث مجھے کالج کے ہوسٹل میں منتقل کردیا گیا تھا اور میں نے آئندہ سال ہائی اسکول کا امتحان وہیں رہ کر پاس کیا تھا۔
گیارھویں کلاس کی تعلیم کیلئے مجھے لکھنؤ کے کرسچین کالج بھیجا گیا تھا مگر وہاں کا ماحول راس نہ آنے پر سال کے بیچ ہی میں واپس بہرائچ بلالیا گیا تھا جہاں میں نے گیارھویں کی کلاسیں کچھ دن گورنمنٹ انٹر کالج اور بعد میں شہر کے دوسرے کونے میں واقع مہاراج سنگھ کالج میں اٹنڈ کی تھیں ۔ وہیں میری دوستی اپنے ہم جماعتوں ساغرؔ مہدی، اظہارؔ وارثی اور شاعرؔ جمالی مرحومین سے ہوئی تھی جو آگے چل کر اردو کے قادرالکلام شاعر بنے تھے اور جن سے میرے دوستانہ تعلقات تینوں کی زندگی بھر قائم رہے۔بہرائچ میں طالبعلمی کے زمانے میں میری تگ و دو بیحد محدود تھی، گھر سے اسکول اور واپس گھرعموماً پیدل آتے جاتے شہر کے تاریخی گھنٹہ گھر کے اندر سے گزر ہوتا تھا۔ والد مرحوم علیٰ الصباح ہواخوری کیلئے جھینگا گھاٹ جایا کرتے تھے جس میں کبھی کبھی میں بھی انکے ساتھ ہوتا تھا۔ ہمارے گھر کے ایک طرف جامع مسجد تھی اور دوسری طرف ایک چھوٹی سی مسجد فاطمہ، روزانہ فجر اور مغرب کی نمازوں کیلئے اس چھوٹی مسجد اور جمعے کی نماز کیلئے جامع مسجد جانا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار والدبزرگوار کے ساتھ غازی میاں کی درگاہ سیّد سالار مسعود غازی جانا ہوتا تھا اگرچہ انھیں اس سے کوئی عقیدت نہیں تھی، اور مجھے تو بالکل ہی نہیں تھی۔ گورنمنٹ انٹر کالج کے سامنے ایک وسیع میدان تھا جہاں کبھی کبھی نمائش لگاکرتی تھی اور مشاعرے بھی منعقد ہوا کرتے تھے، وہاں بھی والد صاحب کے ساتھ ہی جانا ہوا کرتا تھا۔ مجھے خود شعروشاعری سے دلچسپی بچپن ہی سے تھی اور والدہ کے انتقال پر میں نے اپنی پہلی نظم کہی تھی۔ شہر کے معروف مزاح نگار شاعر سیّد ریاست حسین شوقؔ بہرائچی ایک عرصہ تک میرے والد کے محرر رہے تھے اور ایک خوش کلام اور مترنم شاعر محمد سعید خاں شفیقؔ بریلوی آزاد کالج کے پرنسپل تھے جبکہ والد مرحوم اس کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی صحبت نے میرے ادبی رجحان اور شاعرانہ ذوق کو بہت متاثر کیا تھا۔
گیارھویں کلاس کے بعد میں اپنے تایا مرحوم سیّد مرتضیٰ حسن صاحب کے ساتھ جونپور چلا گیا تھا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان میں نے وہیں سے پاس کیا تھا۔
اسکے آگے میری تعلیم گورکھپور اور لکھنئؤ میں ہوئی تھی۔ 1960ءمیں لکھنؤ یونیورسٹی سے وکالت کا امتحان پاس کرکے میں پھربہرائچ آیا تھا اور تقریباً ایک سال اس پیشے میں طبع آزمائی کی تھی۔ وکالت کی پیشہ ورانہ تربیت پہلے شہر کے ناموروکیل آنجہانی بسنت رائے بھنڈاری سے اور بعد میں والد ماجد سے حاصل کی تھی۔ان دنوں میں بھی میری آمد و رفت بس گھر اور کچہری کے درمیان ہی رہتی تھی،ہاںتہواروں پروالد صاحب کے ساتھ کئی معزز وکلاء کے گھروں پر جانا رہتا تھا۔ لیکن میری دلچسپی وکالت سے کہیں زیادہ شعر و ادب میں تھی اور میںنے انھیں دنوں ایک مرکزی مسجد میں منعقدہ ایک بڑے نعتیہ مشاعرے کی نظامت کی تھی۔ ستمبر 1960ءمیں حضرت جگرؔمرادآبادی کے انتقال کے موقعے پر میں نے سیّد واڑے میں واقع امام باڑے میں ’’شام جگر‘‘ کے نام سے ایک محفل منعقد کی تھی اور اسکی نظامت بھی خود ہی کی تھی۔
وکالت کا پیشہ میرے مزاج اور رجحان سے متصادم تھا اور مجھے جلد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ میں اس میں زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔ چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا ۔ دوسال بعد وہاں سے فراغت ہوئی اور پھرمعلمی کیلئے میرا قیام جونپور، بلرامپور، علی گڑھ اور دہلی میں رہا لیکن میں پابندی سے بہرائچ جاکر والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔1969ء میں قانون میں مزید تعلیم و تحقیق کیلئے لندن جانا ہوا تو اس درمیان یہ سلسلہ منقطع رہا مگر واپسی کے بعدپھر شروع ہوا۔ والد مرحوم کی زندگی میں آخری بار میں دسمبر 1973ءمیں بہرائچ گیا تھا۔ میرے بڑے بھائی مرحوم سیّد اختر محمود کی شادی کے سلسلے میں وہ لکھنؤ میں مقیم تھے اور میں بھی اہلیہ کے ساتھ اس میں شرکت کیلئے گیا تھا، وہیں سے وہ ہم دونوں کو اپنے ساتھ چند روز کیلئے بہرائچ لے گئے تھے۔
دسمبر1975ءمیں والد صاحب نے فریضۂ حج ادا کرنے کے بعد مکہ معظمہ میں انتقال فرمایا تو خبر پاکر میں دہلی سے بھاگم بھاگ بہرائچ پہونچا۔ اس حادثے کے بعد بہرائچ سے دل اچاٹ سا ہوگیا اور آنے والے برسوں میں میرا وہاں جانا کم ہی رہا ، بس خاندان کے بچوں کی شادیوں یا دیگر خصوصی مواقع پر مختصر قیام کیلئے جانا ہوتا تھا۔ دسمبر 1996ءمیں قومی اقلیتی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے بہرائچ کے سرکاری دورے کے دوران میں نے شہر کے متعدد اداروں میں منعقدہ تہنیتی جلسوں میں شرکت کی تھی ۔
2004ءکے بعد اب تک کے تقریباً17 سالوں میں بعض ناخوشگوارحالات کی وجہ سے میں صرف دوبار بہرائچ گیا ہوں، اور دونوں بار صرف چند گھنٹوں کیلئے، ایک بارستمبر 2013ءمیں چھوٹے بھائی خالد محمود کی عیادت اور دوسر ی بار دسمبر2018ءمیں انکی تدفین میں شرکت کیلئے۔ اور اب اس سال اپریل میں میرے ایک اور چھوٹے بھائی راشد محمود کی اچانک وفات کے بعد تو بہرائچ میں میرے لئے کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے۔ اب تو وہاں سے ربط بس بعض مخلص اصحاب کے فون پر پیغامات کے ذریعے ہی رہتا ہے جن میں وہاں کے ایک نوجوان اسکالر میاں جنید احمد نور کا نام سر فہرست ہے جنھیں وہاں کی تاریخ اور مشاہیر کے حالات سے خاص دلچسپی ہے اور ان موضوعات پرتصنیف و تالیف کرتے رہتے ہیں۔
میرے بچپن میں بہرائچ ایک مختصر سا پس ماندہ شہر تھا،اسکی وسعت اور ترقی دونوں میں تیزی سے اضافہ بعد کے سالوں میں ہوا ۔ لیکن میں نے اپنے وطن پدری کو نہ بچپن میں وہاں قیام کے زمانے میں پوری طرح دیکھا تھا اور نہ بعد میں وہاں کے مسافرانہ اسفار میں اسکی نوبت آئی۔ عقیدت اس شہر سے بہرحال ہمیشہ رہی جسکا اظہار وقتاً فوقتاً نثر و نظم میں ہوتا رہا۔ میں نے اپنی ایک نظم میں بچپن میں اپنے گھر کے ماحول کی تصویر کشی کی ہے اور دو نظموں میں وطن پدری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان تینوں نظموں کے اقتباسات ذیل میں نقل کئے جا رہے ہیں۔
(1)
چلتی پھرتی مجسّم دعا یاد ہے
گھر میں اک مرد درویش تھا یاد ہے
زندگی کے ترانوں میں شعرو ادب
بندگی کے تقاضوں میں غیض و غضب
غنچۂ و گل کی توقیر بھی ما وجب
علم کی پیاس بجھتی تھی واں بے طلب
چشم بینا کی فہم و ذکا یاد ہے
علم و حکمت کی چھٹکی ہوئی چاندنی
فہم و دانش کی بجتی ہوئی راگنی
درد دل پند و تادیب کی چاشنی
خفگیاں ظاہری شفقتیں باطنی
تربیت کی انوکھی ادا یاد ہے
دین و دل کی کہانی کہی جاتی تھی
گفتگو دوستانہ سی کی جاتی تھی
رائے چھوٹے بڑے سب کی لی جاتی تھی
حسب موقع جو کلیوں کو دی جاتی تھی
وہ دعا یاد ہے وہ دوا یاد ہے
سایۂ عاطفت میں تھیں کلیاں مگن
دین و دنیا بنانے کی ہر دم لگن
جشن رمضان کا عید کا بانکپن
بیت بازی کی لے درس قرآں کا فن
نور افشاں چمن کی فضا یاد ہے
مشکلوں میں بھی ہنسنے ہنسانے کی دھن
کھیل ہی کھیل میں کچھ سکھانے کی دھن
سیّدہ فاطمہؑ کے ترانے کی دھن
لحن بانگ درا شاہنامے کی دھن
گونجتی گھر میں حمد و ثنا یاد ہے
(2)
مری حیات کا ہر پل عطائے بہرائچ
مرے دکھوں کا مداوا دوائے بہرائچ
اودھ کی شام بنارس کی صبح ہو صدقے
کہ اک جہاں سے جدا ہے ادائے بہرائچ
قدوم سیّد سالار کا خزینہ ہے
ہے نور حق سے منوّر فضائے بہرائچ
ہے علم و فن کی روایات کا امیں یہ شہر
ادب نواز ہے یارو ہوائے بہرائچ
یہ شہر الفت باہم کا درس دیتا ہے
مروّتوں کے سبق بھی سکھائے بہرائچ
حیات بخش فضایں ہوایں پاکیزہ
ہے پاس وضع کا گڑھ آبنائے بہرائچ
میں راجدھانی میں رہ کر یہیں تو سوتا ہوں
ہے روز لوری سناتی نوائے بہرائچ
(3)
علم کا خزینہ ہے سرزمین بہرائچ
فضل کا نگینہ ہے سرزمین بہرائچ
حسن ساری دنیا کا اس کے حسن پر قرباں
ایسا آبگینہ ہے سرزمین بہرائچ
جس نے بھی اسے دیکھا ہوگیا فدا اس پر
دلربا حسینہ ہے سرزمین بہرائچ
صورتیں یہاں کیا کیا خاک میں ہیں خوابیدہ
علم کا دفینہ ہے سرزمین بہرائچ
علم کے سمندر میں خوشہ چینی کرنے کو
گویا ایک سفینہ ہے سرزمین بہرائچ
کسب علم کے جذبے آکے یاں نکھرتے ہیں
بام فن کا زینہ ہے سرزمین بہرائچ
زندگی نبھانے کے گر بھی یہ سکھاتی ہے
جینے کا قرینہ ہے سرزمین بہرائچ
پروفیسر سیّد طاہر محمود
سابق چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن حکومت ہند
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔