تلوک چند محروم…تعارف و کلام
تحقیق و تدوین : محمد یوسف وحید
(مدیر: شعوروادراک خان پور)
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موجِ نسیم تھی، ادھر آئی، اُدھر گئی
تلوک چند آپ کا نام اور محرومؔ تخلص تھا۔ یکم جولائی 1887ء کو تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی(پاکستان ) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔تلوک چند محروم ؔنے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ حصولِ تعلیم کے بعد محروم ؔنے عملی زندگی کا آغاز ڈیرہ اسماعیل خان کے مشن ہائی سکول میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے کیا۔ 1935ء سے 1942ء تک انہوں نے کونوینٹ بورڈسکول راولپنڈی میں بطور ہیڈ ماسٹر کام کیا۔ بعد ازاں گورڈن کالج راولپنڈی میں اُردو اور فارسی کے لیکچرررہے ۔
تقسیم کے وقت اٹھنے والے فسادات کی وجہ سے راولپنڈی سے دلی ہجرت کر گئے اور وہاں پنجاب یونیورسٹی کے کیمپ کالج میں 1947ء سے 1958ء تک اُردو پڑھاتے رہے۔ محروم ؔکے یہاں شاعری کا جذبہ بہت فطری تھا، وہ بہت چھوٹی سی عمر ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔ 1901ء میں جب مڈل سکول کے طالب علم تھے تو ملکہ وکٹوریہ کا مرثیہ لکھا۔ ہائی سکول کے دورِ طالب علمی میں رسالہ ’زمانہ‘ اور ’مخزن‘ میں ان کی نظمیں شائع ہونے لگی تھیں۔ تلوک چند محروم نے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کی نظموں میں قومی جذبات بہت شدت کے ساتھ موجود ہیں۔
تلوک چند محروم کا 6 جنوری 1966ء کو78سال کی عمر میں نئی دہلی(ہندوستان ) میں انتقال ہوا۔مشہور شاعر جگن ناتھ آزادؔ ان کے فرزند تھے ۔
تلوک چند محرومؔ انسان دوست، بااخلاق اور وسیع القلب انسان تھے۔ ہر مذہب کے پیشواؤں کے لیے ان کے دل میں بے حد احترام تھا۔ وہ بلا تفریق مذہب و ملت اور اہم تاریخ سازہستیوں سے عقیدت رکھتے تھے۔ ان کی مشہور نظمیں ’’سیتا جی کی فریاد، نور جہاں کا مزار ، مہاتما بدھ، خوابِ جہانگیر اور مرزا غالبؔ ‘‘ان کی طبیعت اور مزاج کی عمدہ عکاس ہیں ۔انسانی سیرت کی عمدہ نقاشی اور فطرت کی تصویر کشی میں محرومؔ کو کمال حاصل تھا ۔ خوشی کی بات ہو کہ غم کا بیان ‘ اُن کا قلم ہر میدان میںتازہ بہ تازہ نظر آتا ہے۔
محروم کی شاعری میں نظمیں، غزلیں اور رباعیات شامل ہیں، تاہم انہوں نے نظم نگاری پر زیادہ توجہ دی۔ ان کی نظموں میں حبّ الوطنی، قومیت، قدرتی مناظر اور سیاسی خیالات کا رنگ نمایاں ہے۔ انہوں نے بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے بھی بہت اچھی نظمیں لکھیں جو انہیں اخلاق سازی اور کردار سازی کادرس دیتی ہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں ہی محروم کی نظمیں پنجاب کے اخبارات اور رسائل میں شائع ہونا شروع ہوگئی تھیں ۔ان کا پہلا شعری مجموعہ’کلامِ محروم‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعۂ کلام کے دو مزید حصے بھی شائع ہوئے۔ ان کے دوسرے شعری مجموعے کا نام ”شعلہ نوا” ہے۔1929ء میں ان کا مجموعہ کلام’گنجِ معانی‘ کے نام سے میسرزعطر چند کپور نے لاہور سے شائع کیا۔ اس کے بعد کاروانِ وطن،نیرنگِ معانی اوررباعیاتِ محروم، بچوں کی دنیاا ور بہارِ طفلی بھی منظرِ عام پر آئے۔
تلوک چند محروم نے حمد یہ شاعری بھی کی ہے۔ غیر مسلم حمد و نعت گو شعرا میں ان کا نام شامل ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں صرف تبرکاً ہی نہیں بلکہ کافی تعداد میں حمدیہ اشعار کہے ہیں۔ ان کے دیوان میں تقریباً چار پانچ حمد شامل ہیں۔ جو مختصر غزل کی شکل میں نہیں بلکہ 6 اشعار کے ایک بند کی شکل میں لکھی گئی ہے اور کئی کئی بند پر حمد مشتمل ہے۔تلوک چند محروم خدائے واحد کی مختلف صفات کو بڑے پُراثر انداز میں پیش کیا ہے۔ زمزمہ ٔ توحید کے عنوان سے حمد میں ربِ کائنات کی توصیف بیان کرتے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
ہر ذرہ میں ہے ظہور تیرا
ہے برق و شرر میں نور تیرا
افسانہ تیرا جہاں نہاں ہے
چرچا ہے قریب و دور تیرا
ہر ذرہ خاک میں ہے لمعاں
مخصوص نہیں ہے طور تیرا
محتاج شراب و جام کب ہے
جس کو ہوا سرور تیرا
گاتے ہیں سحر ہوا میں کیا کیا
دم بھرتے ہیں سب طیور تیرا
تو جلوہ فگن کہاں نہیں ہے
وہ جا نہیں تو جہاں نہیں ہے
(بحوالہ :زمزمۂ توحید،گنجِ معانی محروم،ناشر: محروم میموریل لٹریری سوسائٹی،ص:35، نئی دہلی)
تلوک چند محروم نے ’’ترانہ ٔ وحدت‘‘ کے عنوان سے مناظر قدرت کو پیش کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور حمد وثنا پیش کی ہے۔ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:
ہے نظارہ محو حیرت کہ جہاں میں تو ہی تو ہے
کہیں آب ہے گہر میں، کہیں گل میں رنگ و بو ہے
مہ و مہر میں درخشاں تونجوم میں ہے توباں
ترا نور ہر طرف ہے ترا جلوہ چارسو ہے
(بحوالہ :زمزمۂ توحید،گنجِ معانی محروم،ناشر: محروم میموریل لٹریری سوسائٹی،ص:39، نئی دہلی)
تلوک چند محروم ؔکو اُردو اور فارسی میں کمال عبور حاصل تھا ۔ محروم ؔ کی شاعری میں حسب ِضرورت فارسی الفاظ اور ترکیبوں کا عمدہ استعمال نظر آتا ہے۔ لفظوں کے انتخاب میں وہ ان کے صوتی اثرات کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ ان کی زبان پختہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلکش اور شیریں تھی ۔ انگریزی زبان و ادب سے بھی وہ شناسائی رکھتے تھے ۔ انگریزی شاعری کے عمدہ جذبات و خیالات کو وہ بڑے سلیقے سے اُردو شعر کا جامہ پہناتے تھے ۔تلوک چند محرو م ؔ کا نمونہ کلام
حیرت زدہ میں ان کے مقابل میں رہ گیا
جو دل کا مدعا تھا مرے دل میں رہ گیا
محرومؔ دل کے ہاتھ سے جاں تھی عذاب میں
اچھا ہوا کہ یار کی محفل میں رہ گیا
(ماخذ: تاریخِ اَدبِ اُردو،رام بابو سکسینہ ،مرزا محمد عسکری )
٭
تلوک چند محروم کا بچوں کی نظموں پر مشتمل ایک مجموعہ ’بچوں کی دنیا‘ کے نام سے ہے ‘جس میں’ ’اونچے ارادے، اچھا بچہ، صبح ہوئی، پہلے کام پیچھے آرام، مور، سچائی، سگرٹ ، استاد کی چھڑی، بہت بولنا عیب ہے، پرندوں کو ایذا نہ پہنچائو، قرض اور وقت کی پابندی‘‘ وغیرہ طبع زاد نظمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دس نظمیں ترجمہ کی ہوئی ہیں اور آخر میں فرہنگ بھی شامل ہے۔ ادبِ اطفال کا بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ بچوں میں اچھی باتوں کی رغبت دلانا اور بری باتوں سے نفرت پیدا کرنا۔’ ’پہلے کام پیچھے آرام‘‘ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں :
پہلے تم کام کرو، بعد میں آرام کرو
کام کے وقت جو آرام کیا کرتے ہیں
آخر کار وہ ناکام رہا کرتے ہیں
سخت نادان ہیں وہ لوگ برا کرتے ہیں
تلوک چند محروم اُس عہد کے نظم نگار ہیں جب جدید نظم کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا تھا۔ اس عہد کی نظموں میں سماجی اور سیاسی موضوعات بڑی تیزی سے شامل ہورہے تھے اور حب الوطنی کا ایک مستحکم جذبہ فروغ پارہا تھا۔ آزادؔ، حالیؔ، اکبرؔ، اور اسمٰعیل میرٹھی کی نظم نگاری اپنے عروج پر تھی۔ اقبالؔ، ظفرؔ علی خاں اور برج ؔموہن کیفی وغیرہ کی نظمیں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی تھیں۔ محروم ؔنے بھی اس صنف میں خوب طبع آزمائی کی اور مختلف سیاسی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر بے شمار نظمیں کہی۔محروم ؔکی چند منتخب نظموں کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
(چھبیس جنوری)
یہ دور نو مبارک فرخندہ اختری کا
جمہوریت کا آغاز انجام قیصری کا
کیا جاں فزا ہے جلوہ خورشید خاوری کا
ہر اک شعاع رقصاں مصرع ہے انوری کا
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
بھارت کی برتری میں کس کو کلام ہے اب
تھا جو رہین پستی گردوں مقام ہے اب
جمہوریت پہ قائم سارا نظام ہے اب
اعلیٰ ہے یا ہے ادنیٰ با احترام ہے اب
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
صدیوں کے بند ٹوٹے آزاد ہوگئے ہم
قید گراں سے چھوٹے دل شاد ہو گئے ہم
بے خوف بے نیاز صیاد ہو گئے ہم
پھر بس گیا نشیمن آباد ہوگئے ہم
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
جو مضطرب تھی دل میں وہ آرزو بر آئی
تکمیل آرزو نے دل کی خلش مٹائی
جس ملک پر غلامی بن بن کے شام چھائی
صبح مسرت اس کو اللہ نے دکھائی
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
تعبیر خواب گاندھیؔ تفسیر حال نہروؔ
آزادؔ کی ریاضت سردارؔ کی تگاپو
رخشاں ہے حریت کا زیبا نگار دلجو
تسکین قلب مسلم آرام جان ہندو
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
قرباں ہوئے جو اس پر روحیں ہیں شاد ان کی
ہم جس سے بہرہ ور ہیں وہ ہے مراد ان کی
ہے بسکہ سرفروشی شایان داد ان کی
بھارت کی اس خوشی میں شامل ہے یاد ان کی
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
آزاد ہو گیا جب ہندوستاں ہمارا
ہے سود کے برابر ہر اک زیاں ہمارا
منزل پہ آن پہنچا جب کارواں ہمارا
کیوں ہو غبار منزل خاطر نشاں ہمارا
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
ایوان فرخی کی تعمیر نو مبارک
آئین زندگی کی تدبیر نو مبارک
ہر ذرۂ وطن کو تنویر نو مبارک
بھارت کے ہر بشر کو توقیر نو مبارک
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
بھارت کا عزم ہے یہ توفیق اے خدا دے
دنیا سے این و آں کی تفریق کو مٹا دے
امن و اماں سے رہنا ہر ملک کو سکھا دے
ہر قوم شکریے میں ہر سال یہ صدا دے
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
(ماخذ: اُردو میں قومی شاعری کے سو سال ،از: علی جواد زیدی ، ناشر: اُتر پردیش اُردو اکیڈمی لکھنؤ ، 2010ء )
٭
(شہید بھگت سنگھ)
زنداں میں شہیدوں کا وہ سردار آیا
شیدائے وطن پیکر ایثار آیا
ہے دار و رسن کی سرفرازی کا دن
سردار بھگت سنگھ سردار آیا
تا دار و رسن شوق سے اٹھلا کے گیا
تو شان شہادت اپنی دکھلا کے گیا
ٹکڑے ہوتا ہے دل ترے ماتم میں
لاشے کا انگ انگ کٹوا کے گیا
پی کر مئے شوق جھومنا وہ تیرا
بے پروایانہ گھومنا وہ تیرا
ہے نقش ترے اہل وطن کے دل پر
پھانسی کی رسن کو چومنا وہ تیرا
جام حب وطن کے اے متوالے
اے پیکر ناموس حمیت والے
ہو عالم ارواح میں شاداں کہ نہیں
اب تیرے وطن میں وہ حکومت والے
(ماخذ: اُردو میں قومی شاعری کے سو سال ،از: علی جواد زیدی ، ناشر: اُتر پردیش اُردو اکیڈمی لکھنؤ ، 2010ء )
٭
(تصویرِ رحمت)
تری توقیر سے توقیر ہستی ہے گرو نانک
تری تنویر ہر ذرے میں بستی ہے گرو نانک
تری جاگیر میں عرفاں کی مستی ہے گرو نانک
تری تحریر اوج حق پرستی ہے گرو نانک
تری تصویر سے رحمت برستی ہے گرو نانک
ظہورستان رحمت ہے کہ یہ تصویر ہے تیری
کوئی نقش حقیقت ہے کہ یہ تصویر ہے تیری
عیاں صبح سعادت ہے کہ یہ تصویر ہے تیری
دل مضطر کی راحت ہے کہ یہ تصویر ہے تیری
تری تصویر سے رحمت برستی ہے گرو نانک
٭
(نورجہاں کا مزار)
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے
مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے
اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہے
جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم
تربت پہ ہے ان کے شب دیجور کا عالم
اے حسن جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے
کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے
کیا بن گئے اب کرمک شب تاب وہ سارے
ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
یا ہو گئے وہ داغ جہانگیر کے دل کے
قابل ہی تو تھے عاشق دلگیر کے دل کے!
تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے
غالیچہ سر فرش ہے کوئی نہ دری ہے
کیا عالم بے چارگی اے تاجوری ہے
دن کو یہیں بسرام یہیں شب بسری ہے
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہو مگر یوں سر صحرا نہیں ہوتی
تعویذ لحد ہے زبر و زیر یہ اندھیر
یہ دور زمانہ کے الٹ پھیر یہ اندھیر
آنگن میں پڑے گرد کے ہیں ڈھیر یہ اندھیر
اے گردش ایام یہ اندھیر! یہ اندھیر
ماہ فلک حسن کو یہ برج ملا ہے
اے چرخ ترے حسن نوازش کا گلا ہے
حسرت ہے ٹپکتی در و دیوار سے کیا کیا
ہوتا ہے اثر دل پہ ان آثار سے کیا کیا
نالے ہیں نکلتے دل افگار سے کیا کیا
اٹھتے ہیں شرر آہ شرر بار سے کیا
یہ عالم تنہائی یہ دریا کا کنارا
ہے تجھ سی حسینہ کے لیے ہو کا نظارا
چوپائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر
آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آ کر
اور شام کو بالائی سیہ خانوں سے شپر
اڑ اڑ کے لگاتے ہیں در و بام کے چکر
معمور ہے یوں محفل جاناں نہ کسی کی
آباد رہے گور غریباں نہ کسی کی
آراستہ جن کے لیے گل زار و چمن تھے
جو نازکی میں داغ دہ برگ سمن تھے
جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے
شاداب گل تر سے کہیں جن کے بدن تھے
پژمردہ وہ گل دب کے ہوئے خاک کے نیچے
خوابیدہ ہیں خار و خس و خاشاک کے نیچے
رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے
جو پیکر ہستی کے لیے روح رواں تھے
محبوب دل خلق تھے جاں بخش جہاں تھے
تھے یوسف ثانی کہ مسیحائے زماں تھے
جو کچھ تھے کبھی تھے مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں
ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیر زمیں ہیں
دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دل ناداں
ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفن ویراں
باقی ہیں نہ وہ باغ نہ وہ قصر نہ ایواں
آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں
ٹوٹا ہوا اک ساحل راوی پہ مکاں ہے
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
( ماخذ:میری بہترین نظم ، ص: 37)
٭
(بادل اور تارے)
ختم ہوا دن سورج ڈوبا
شام ہوئی اور ابھرے تارے
جگمگ جگمگ کرتے آئے
نور کے ٹکڑے پیارے پیارے
دور کہیں سے ٹھنڈے ٹھنڈے
تیز ہوا کے جھونکے آئے
کاندھوں پر اپنے وہ اٹھا کر
چھوٹے چھوٹے بادل لائے
ان کو دیکھ کے اور بھی برسا
نور مسرت کا تاروں سے
کوئی چھپا اور کوئی نکلا
بادل کے ان انباروں سے
کھیل رہے ہوں جیسے بچے
آنکھ مچولی گلی گلی میں
یا شبنم کے قطرے چمکیں
اوجھل ہو کر گلی گلی میں
٭
(پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر)
جن سر افرازوں کی روحیں آج ہیں افلاک پر
موت خود حیراں تھی جن کی جرأت بے باک پر
نقش جن کے نام ہیں اب تک دل غم ناک پر
رحمت ایزد ہو دائم ان کی جان پاک پر
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
پھول برساؤ کہ پھولوں میں ہے خوشبوئے وفا
تھی سرشت پاک ان کی عاشق جوئے وفا
موت پر ان کی گئے جو روئے در روئے وفا
کیوں نہ ہوں اہل وطن کے اشک خوں جوئے وفا
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
تھے وہ فخر آدمیت افتخار زندگی
تھے وہ انساں طرہ تاج وقار زندگی
ان کے دم سے تھا چمن یہ خار زار زندگی
تھا نفس ان کا نسیم خوشگوار زندگی
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
چشم ظاہر بیں سمجھتی ہے کہ بس وہ مر گئے
در حقیقت موت کو فانی وہ ثابت کر گئے
جو وطن کے واسطے کٹوا کے اپنے سر گئے
خوں سے اپنے رنگ تصویر وفا میں بھر گئے
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
دیکھ لینا خون ناحق رنگ اک دن لائے گا
خود غرض ظالم کئے پر اپنے خود پچھتائے گا
راہ پر دور زماں آخر کبھی تو آئے گا
آسماں اس خاک کی تقدیر کو چمکائے گا
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
(ماخذ: اُردو میں قومی شاعری کے سو سال ،از: علی جواد زیدی ، ناشر: اُتر پردیش اُردو اکیڈمی لکھنؤ ، 2010ء )
٭
(خاکِ ہند)
انجم سے بڑھ کے تیرا ہر ذرہ ضو فشاں ہے
جلووں سے تیرے اب تک حسن ازل عیاں ہے
انداز دل فریبی جو تجھ میں ہے کہاں ہے
فخر زمانہ تو ہے اور نازش جہاں ہے
افتادگی میں بھی تو ہم اوج آسماں ہے
”اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے”
وہ کج کلاہ تیرے وہ سورویر تیرے
وہ تیغ زن کماں کش وہ قلعہ گیر تیرے
ناپید آج ہیں گو تاج و سریر تیرے
شاہوں سے ہیں زیادہ لیکن فقیر تیرے
پستی میں سر بلندی سب پر تری عیاں ہے
’’اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے‘‘
منظر وہ جاں فزا ہیں اور دل پذیر تیرے
جانیں ہیں تجھ پہ شیدا اور دل اسیر تیرے
شیریں و صاف دریا ہیں جوئے شیر تیرے
ہیں دشت و کوہ و صحرا جنت نظیر تیرے
آنکھیں جدھر اٹھاؤ فردوس کا سماں ہے
’’اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے‘‘
تجھ کو مٹا دیا ہے ہر چند آسماں نے
پھونکا ہے آہ دل کو سوز غم نہاں نے
چھوڑی نہ تاب اپنی پر حسن دل ستاں نے
جوہر بھرے ہیں تجھ میں صناع دو جہاں نے
فصل خزاں ہے تیری پھر بھی تو گل فشاں ہے
’’اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے‘‘
گو حد سے بڑھ گیا ہے رنج و ملال تیرا
اب تک مٹا نہیں ہے نقش جمال تیرا
آخر کبھی تو ہوگا ظاہر کمال تیرا
ہوگا کبھی تو آخر دور زوال تیرا
کب اک روش پہ قائم یہ دور آسماں ہے
’’اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے‘‘
(ماخذ: اُردو میں قومی شاعری کے سو سال ،از: علی جواد زیدی ، ناشر: اُتر پردیش اُردو اکیڈمی لکھنؤ ، 2010ء )
(سودیشی تحریک)
وطن کے درد نہاں کی دوا سدیشی ہے
غریب قوم کی حاجت روا سدیشی ہے
تمام دہر کی روح رواں ہے یہ تحریک
شریک حسن عمل جا بجا سدیشی ہے
قرار خاطر آشفتہ ہے فضا اس کی
نشانِ منزلِ صدق و صفا سدیشی ہے
وطن سے جن کو محبت نہیں وہ کیا جانیں
کہ چیز کون بدیشی ہے کیا سدیشی ہے
اسی کے سایہ میں پاتا ہے پرورش اقبال
مثال سایہ ٔ بال ہما سدیشی ہے
اسی نے خاک کو سونا بنا دیا اکثر
جہاں میں گر ہے کوئی کیمیا سدیشی ہے
فنا کے ہاتھ میں ہے جان ناتوان وطن
بقا جو چاہو تو راز بقا سدیشی ہے
ہو اپنے ملک کی چیزوں سے کیوں ہمیں نفرت
ہر اک قوم کا جب مدعا سدیشی ہے
( ماخذ:اُردو میں قومی شاعری کے سو سال ، مصنف: علی جواد زیدی ، مطبع: اُتر پردیش اُردو اکیڈمی ، لکھنؤ ، 2010ء )
٭
(وقت کی پابندی)
سورج کے دم قدم سے
روشن جہاں ہے سارا
ہے اس کی روشنی سے
دل کش ہر اک نظارا
سورج اگر نہ ہوتا
کچھ بھی یہاں نہ ہوتا
سبزے کا پھول پھل کا
نام و نشاں نہ ہوتا
سورج کی روشنی سے
ہر چیز خوش نما ہے
گو وقت کا ہے خالق
پابند وقت کا ہے
دل کش ہے چاند کیسا
ہر اک کو بھانے والا
ہنس ہنس کے آسماں سے
دل کو لبھانے والا
پھولوں کو اور پھلوں کو
دیتا ہے خوش نما رنگ
کلیوں میں پتیوں میں
بھرتا ہے نت نیا رنگ
جس راہ پر چلایا
خالق نے چل رہا ہے
پابند حکم کا ہے
پابند وقت کا ہے
وہ دل فریب تارے
روشن ہے رات جن سے
شرمندہ جن سے موتی
ہیرے ہیں مات جن سے
معلوم ہے یہ کس کو
کب سے چمک رہے ہیں
ان میں دمک وہی ہے
جس روز سے بنے ہیں
ان میں ہر اک ستارا
چھوٹا ہے یا بڑا ہے
دیکھو جو غور سے تم
پابند وقت کا ہے
(ماخذ: بچوں کی دنیا )
تلوک چند محروم نے حب الوطنی پر اتنی کثرت سے نظمیں لکھی ہیں کہ ایک ضخیم مجموعہ کلام تیار ہوگیاجو ’کاروان ِوطن‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے‘ جس میں 180 سے زائد نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں ہندوستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔تلوک چند محروم نے بہ یک وقت غزل، نظم اور رباعی میں اپنی تخلیقی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔
تلوک چند محروم کے کلام میں تازگی اور برجستگی کی ایک لہر، فکر و خیال کی پاکیزگی موجود ہے۔ محروم کی چند منتخب غزلوں کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
کم نہ تھی صحرا سے کچھ بھی خانۂ ویرانی مری
میں نکل آیا کہاں اے وائے نادانی مری
کیا بناؤں میں کسی کو رہبر ملک عدم
اے خضر یہ سر زمیں ہے جانی پہچانی مری
جان و دل پر جتنے صدمے ہیں اسی کے دم سے ہیں
زندگی ہے فی الحقیقت دشمن جانی مری
ابتدائے عشق گیسو میں نہ تھیں یہ الجھنیں
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی آخر پریشانی مری
دشت ہستی میں رواں ہوں مدعا کچھ بھی نہیں
کب ہوئی محتاج لیلیٰ قیس سامانی مری
اور تو واقف نہیں کوئی دیار عشق میں
ہے جنوں شیدا مرا وحشت ہے دیوانی مری
باغ دنیا میں یوں ہی رو ہنس کے کاٹوں چار دن
زندگی ہے شبنم و گل کی طرح فانی مری
بعد ترک آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن
ہو گئی آساں ہر اک مشکل بہ آسانی مری
ہاں خدا لگتی ذرا کہہ دے تو اے حسن صنم
عاشقی اوروں کی اچھی یا کہ حیرانی مری
لخت دل کھانے کو ہے خون جگر پینے کو ہے
میزبان دہر نے کی خوب مہمانی مری
نغمہ زن صحرا میں ہو جس طرح کوئی عندلیب
یوں ہے اے محرومؔ سرحد میں غزل خوانی مری
٭
ہمارے واسطے ہے ایک جینا اور مر جانا
کہ ہم نے زندگی کو جادۂ راہ سفر جانا
یکایک منزل آفات عالم سے گزر جانا
ڈریں کیوں موت سے جب ہے اسی کا نام مر جانا
تری نظروں سے گر جانا ترے دل سے اتر جانا
یہ وہ افتاد ہے جس سے بہت اچھا ہے مر جانا
جواب ابر نیساں تجھ کو ہم نے چشم تر جانا
کہ ہر اک قطرہ ٔاشک چکیدہ کو گہر جانا
تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا
ہم اپنے رہزن و رہبر تھے لیکن سادہ لوحی سے
کسی کو راہزن سمجھے کسی کو راہبر جانا
میں ایسے راہ رو کی جستجو میں مر مٹا جس نے
تن خاکی کو راہ عشق میں گرد سفر جانا
لب بام آئے تم اور ان کے چہرے ہو گئے پھیکے
قمر نے تم کو خورشید اور ستاروں نے قمر جانا
نہ بھولے گا ہمیں محرومؔ صبح روز محشر تک
کسی کا موت کے آغوش میں وقت سحر جانا
٭
حیرت زدہ میں ان کے مقابل میں رہ گیا
جو دل کا مدعا تھا مرے دل میں رہ گیا
خنجر کا وار کرتے ہی قاتل رواں ہوا
ارمان دید دیدۂ بسمل میں رہ گیا
جتنی صفا تھی سب رخ جاناں میں آ گئی
جو داغ رہ گیا مہ کامل میں رہ گیا
اے مہربان دشت محبت چلے چلو
اپنا تو پائے شوق سلاسل میں رہ گیا
وحشت فزا بہت تھی ہوا دشت قیس کی
پردہ کسی کا پردۂ محمل میں رہ گیا
محرومؔ دل کے ہاتھ سے جاں تھی عذاب میں
اچھا ہوا کہ یار کی محفل میں رہ گیا
(ماخذ: رُوحِ غزل ، پچاس سالہ انتخاب، پروفیسر مظفر حنفی )
٭
دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
حسن ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی
رنگ بہار دے نہ سکے خارزار کو
دست جنوں میں آبلہ سائی نہ ہو سکی
اے دل تجھے اجازت فریاد ہے مگر
رسوائی ہے اگر شنوائی نہ ہو سکی
مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک
مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی
فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں
ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی
غافل نہ تجھ سے اے غم عقبیٰ تھے ہم مگر
دام غم جہاں سے رہائی نہ ہو سکی
منکر ہزار بار خدا سے ہوا بشر
اک بار بھی بشر سے خدائی نہ ہو سکی
خود زندگی برائی نہیں ہے تو اور کیا
محرومؔ جب کسی سے بھلائی نہ ہو سکی
٭
نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے
اسی کا جلوہ تو ہے اور روبرو کیا ہے
کسی کی ایک نظر نے بتا دیا مجھ کو
سرور بادۂ بے ساغر و سبو کیا ہے
قفس عذاب سہی بلبل اسیر مگر
ذرا یہ سوچ کہ وہ دام رنگ و بو کیا ہے
گدا نہیں ہیں کہ دست سوال پھیلائیں
کبھی نہ آپ نے پوچھا کہ آرزو کیا ہے
نہ میرے اشک میں شامل نہ ان کے دامن پر
میں کیا بتاؤں انہیں خون آرزو کیا ہے
سخن ہو سمع خراشی تو خامشی بہتر
اثر کرے نہ جو دل پر وہ گفتگو کیا ہے
(ماخذ:مجلہ دستاویز ، مدیر : عزیز نبیل ، ادارہ دستاویز ، 2013ء ، ص: 119)
٭
وہ دل کہاں ہے اہل نظر دل کہیں جسے
یعنی نیاز عشق کے قابل کہیں جسے
زنجیر غم ہے خود مری خواہش کا سلسلہ
یا زلف خم بہ خم کہ سلاسل کہیں جسے
ملتا ہے مشکلوں سے کسی کے حضور کا
وہ ایک لحظہ زیست کا حاصل کہیں جسے
کشتی شکستگان یم اضطراب کو
تیرا ہی ایک نام ہے ساحل کہیں جسے
پاتی نہیں فروغ بجز سوز و ساز عشق
شمع حیات در خور محفل کہیں جسے
اس دل کو شاد رکھنے کی خدمت ملی مجھے
غم ہائے روزگار کی منزل کہیں جسے
اس دور قدر دان سخن میں یہ اتفاق
شاعر وہی ہے رونق محفل کہیں جسے
محرومؔ چاکِ سینہ ٔ ہر گل میں ہے وہ چیز
تاثیر نالہ ہائے عنادل کہیں جسے
(ماخذ:نوائے شعلہ )
٭
خزاں سے پیشتر سارا چمن برباد ہوتا ہے
غضب ہوتا ہے جب خود باغباں صیاد ہوتا ہے
تجھے اس پر گمان نغمۂ صیاد ہوتا ہے
قفس میں نالہ کش مرغ گلستاں زاد ہوتا ہے
خوشی کے بعد اک تو ہی نہیں ہے مبتلائے غم
یوں ہی اکثر جہاں میں اے دل ناشاد، ہوتا ہے
روا رکھتا ہے وہ بیداد پہلے اپنی فطرت پر
جو انساں دوسرے پر مائل بیداد ہوتا ہے
جو کرتا ہے نثار نوع انساں اپنی ہستی کو
وہ انساں افتخار عالم ایجاد ہوتا ہے
مرے اشعار کی توصیف ہوتی ہے مرے ہوتے
نہیں معلوم میرے بعد کیا ارشاد ہوتا ہے
نہ کر محرومؔ تو فکر سخن اب فکر عقبیٰ کر
نوا پرواز بزم شعر میں آزاد ہوتا ہے
(ماخذ:نوائے شعلہ )
٭
غلط کی ہجر میں حاصل مجھے قرار نہیں
اسیر یاس ہوں پابند انتظار نہیں
ہے ان کے عہد وفا سے مناسبت دل کو
اسے قیام نہیں ہے اسے قرار نہیں
یہاں تو ضبط جنوں پر نہ کر مجھے مجبور
فضائے دشت ہے اے عقل بزم یار نہیں
قفس میں ڈالے گا کس کس کو آخر اے صیاد
اسیر دام وفا سو نہیں ہزار نہیں
جہاں میں بلبلٔ باغ خزاں نصیب ہوں میں
مری نواؤں میں رنگینیٔ بہار نہیں
(ماخذ:نوائے شعلہ )
٭
ہم جو آہ و فغاں نہیں کرتے
آپ کا امتحاں نہیں کرتے
جان و دل دے کے عاشقاں غیور
ناز برداریاں نہیں کرتے
روز نا مہربانیاں ہم پر
یوں تو اے مہرباں نہیں کرتے
جنس نایاب ہے دل بیتاب
پھر بھی اس کو گراں نہیں کرتے
عقل کو کیوں بتائیں عشق کا راز
غیر کو رازداں نہیں کرتے
زندگانی ہے آن پر مرنا
مرد پروائے جاں نہیں کرتے
یاد ایام شوق سے محرومؔ
دل کو اب ہم تپاں نہیں کرتے
٭
صورت کوئی قرار کی دن رات میں نہیں
یہ چیز وہ ہے جو مرے اوقات میں نہیں
کہتے ہیں عذر ہم کو ملاقات میں نہیں
ہم تجھ سے متفق مگر اک بات میں نہیں
عقبیٰ کا کچھ تو اے دل ناداں رہے خیال
کیا تجھ کو وہم ہے کہ اجل گھات میں نہیں
آزاد قید و بند سے ہیں آج اہل فن
پابند یعنی کوئی کسی بات میں نہیں
جو جس کے جی میں آئے لکھے اور چھاپ دے
کچھ فرق شعر اور خرافات میں نہیں
پرہیزگار بھی اسے ہرگز نہ جانئے
محرومؔ اگرچہ اہل خرابات میں نہیں
٭
دل اگر شائستہ درد نہاں پیدا کریں
ہر غم جاں کاہ سے آرام جاں پیدا کریں
کفر و دیں میں اتحاد جاوداں پیدا کریں
نالۂ ناقوس سے بانگ اذاں پیدا کریں
امتیاز این و آں سے این و آں دونوں تباہ
اب نہ ہرگز امتیاز این و آں پیدا کریں
ایک ہم ہیں اپنے گلشن کو جو صحرا کر چکے
ایک وہ ہیں دشت میں جو گلستاں پیدا کریں
آدمیت کو نہ چھوڑیں ہم غنیمت ہے یہی
کون کہتا ہے صفات قدسیاں پیدا کریں
جو محبان وطن شان وطن پر مر مٹے
خاک سے ان کی نیا ہندوستاں پیدا کریں
دور دنیا سے کہیں اے طبع مضموں آفریں
اک خیالی عالمِ امن و اماں پیدا کریں
نکتہ چینی سے نہ باز آئیں گے ہرگز نکتہ چیں
لاکھ اے محرومؔ ہم حسن بیاں پیدا کریں
٭
آخر میں تلوک چند محرومؔ کے چند منتخب اَشعارسے لطف اُٹھائیے :
تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا
٭
بعد ترک آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن
ہو گئی آساں ہر اک مشکل بہ آسانی مری
٭
اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے
مگر ہم کہاں ناز اٹھانے کے قابل
٭
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
٭
عقل کو کیوں بتائیں عشق کا راز
غیر کو راز داں نہیں کرتے
٭
مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک
مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی
٭
یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاہد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
٭
صاف آتا ہے نظر انجام ہر آغاز کا
زندگانی موت کی تمہید ہے میرے لیے
٭
ہوں وہ برباد کہ قسمت میں نشیمن نہ قفس
چل دیا چھوڑ کر صیاد تہ دام مجھے
٭
نہ علم ہے نہ زباں ہے تو کس لیے محرومؔ
تم اپنے آپ کو شاعر خیال کر بیٹھے
٭
یہ فطرت کا تقاضا تھا کہ چاہا خوب روؤں کو
جو کرتے آئے ہیں انساں نہ کرتے ہم تو کیا کرتے
٭
دام غم حیات میں الجھا گئی امید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی
٭
نہ رہی بے خودی شوق میں اتنی بھی خبر
ہجر اچھا ہے کہ محرومؔ وصال اچھا ہے
٭
دل میں کہتے ہیں کہ اے کاش نہ آئے ہوتے
ان کے آنے سے جو بیمار کا حال اچھا ہے
٭
گدا نہیں ہیں کہ دست سوال پھیلائیں
کبھی نہ آپ نے پوچھا کہ آرزو کیا ہے
٭
دل کے طالب نظر آتے ہیں حسیں ہر جانب
اس کے لاکھوں ہیں خریدار کہ مال اچھا ہے
٭
فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں
ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی
٭
برا ہو الفت خوباں کا ہم نشیں ہم تو
شباب ہی میں برا اپنا حال کر بیٹھے
٭
ہے یہ پر درد داستاں محرومؔ
کیا سنائیں کسی کو حال اپنا
٭
بظاہر گرم ہے بازار الفت
مگر جنس وفا کم ہو گئی ہے
٭
حوالہ جات:
٭…(کتابیات)
1۔جگن ناتھ آزاد، حیات محروم،انجمن ترقی اردو ہند، 1987، ص22
2۔نیاز فتح پوری، کاروان وطن، مکتبہ جامعہ،1960،ص 23
3۔دیباچہ بہار طفلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، 1960،ص12
4۔آثار محروم(پگڈنڈی امرتسر کا محروم نمبر)، مرتبہ گوپی چند نارنگ، 1968،ص 99-100
5۔آثار محروم(پگڈنڈی امرتسر کا محروم نمبر)،مرتبہ گوپی چند نارنگ، 1968، ص104
٭…(سوشل میڈیا /ویب سائٹس )
1۔ دعوت نیوز ، مضمون: ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین (تلوک چند محروم کی حمدیہ شاعری)
2۔ وِکی پیڈیا ۔ اُردو (تلوک چند محروم)
3۔ریختہ ڈاٹ او آر جی ،(تلوک چند محروم شاعری ، تعارف )
4۔مضمون: تلوک چند محروم اور ادب اطفال – مضمون نگار۔ محمد محسن رضا
٭٭٭
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔