گرج، چمک اور بجلی کی کڑک
شاید اشرافیہ یہ بات سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ جب کمزور کا ہاتھ پڑتا ہے تو وہ طاقتور سے پچھلے سارے بقایا جات وصول کر لیتا ہے۔ ماضی میں ہماری عوام کو مہنگائی اور "اکانومیکل انفلیشن” کے زریعے بےدردی سے مسلسل کمزور کیا جاتا رہا ہے۔ ہر آنے والی جمہوری حکومت نے ٹیکسز میں اضافہ کیا، پیٹرول کی قیمتیں بڑھائیں اور عام روزمرہ کی چیزوں کو مہنگا کیا مگر اس کے مطابق دہاڑی دار اور عام مزدور کی ویجز میں اضافہ نہیں کیا اور نہ ہی اس مد میں کوئی قانون سازی کی۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ جب عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے گا یا ان کو مسلسل وعدوں اور نعروں سے ٹرخایہ جاتا رہے گا تو بلآخر حالات "مقتدرہ” کی کلی کھول دیں گے۔ 9مئی کے واقعات کیوں پیش آئے اور اس کے اصل محرکات کیا تھے، اس پر تحقیق کرنے کی بجائے گزشتہ متحدہ حکومت نے مقتدرہ کے حق میں قانون سازی کی، پکڑدھکڑ کی اور سزاو’ں کے زریعے اس "بغاوت” کو دفن کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجال ہے کہ اشرافیہ کے کان پر "نظام” یا "سٹیٹس کو” کو تبدیل کرنے کے لئے جوں بھی رینگی ہو!
دنیا میں ملکوں اور قوموں کی پائیدار ترقی کا راز بتدریج تبدیلی پر منحصر ہے۔ لیکن ہماری 76سالہ قومی تاریخ میں جو بھی حکومت آئی اس نے ہمیشہ "اشرافیہ” کے مفادات کا تحفظ کیا ناکہ عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر کوئی توجہ دی۔ پی ٹی آئی کا تو بنیادی نعرہ ہی تبدیلی لانے کا تھا مگر جب "تبدیلی سرکار” کو اقتدار ملا تو اس نے بھی پنجاب اسمبلی میں سب سے پہلے منتخب ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں 100% اضافہ کر لیا۔ گزشتہ پی ڈی ایم (PDM) حکومت جس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت 11دیگر سیاسی جماعتیں شامل تھیں کے دورانیہ میں بھی ریٹائرمنٹ کی صورت میں سینٹ کے چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات میں بےتحاشا اضافہ کیا گیا جس کو سوشل میڈیا کی پرزو مہم پر حکومت واپس لینے پر مجبور ہوئی۔
ہمارے ملک میں ویسے تو جمہوری نظام رائج ہے مگر اسمبلیوں میں وہی منتخب ممبران پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جن کا تعلق پہلے ہی امراء اور سرمایہ دار طبقے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں انتخابات محض جمہوریت کا "واویلا” ہوتے ہیں ان کی آڑ میں اسمبلیوں میں پہنچنے والے ممبران عوام کے حقوق، خوشحالی اور فلاح و بہبود کا تحفظ کرنے کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ بلکہ ہماری رائج الوقت سیاست ایک انتہائی "منافع بخش” کاروبار ہے۔ الیکشن مہم پر ہر امیدوار کروڑوں کے اخراجات کرتا ہے اور اسمبلی میں پہنچ کر وہ تنخواہوں، ٹی اے ڈی اے، مراعات، سرکاری گاڑیوں، رشوت، "کمیشن” اور "پرمٹوں” وغیرہ کی صورت میں کئی گنا زیادہ سرمایہ اکٹھا کر لیتا ہے۔ ان امراء، نوابوں، چیموں، چٹھوں، خاکوانیوں، چوہدریوں اور گدی نشینوں وغیرہ کی عیاشی کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جاتا ہے.
بجلی کے بلوں میں اضافہ اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے کہ بجلی کے بل اسی طرح بڑھتے رہے تو ایک دن بجلی کا بل ایک مزدور کی آمدنی کے برابر آ جائے گا بلکہ آ چکا ہے۔ آب سوچیں کہ ایک مزدور ایک دن میں 900روپے کماتا یے تو وہ 20000ہزار روپے کا بل کیسے بھر سکتا ہے جبکہ روزانہ مزدور کو دہاڑی بھی نہیں ملتی یے۔ نیپرا دسمبر تک مزید تیرہ روپے فی یونٹ اضافے کی کوشش میں ہے، یعنی بجلی 73روپے فی یونٹ ہو جائے گی جس کے بعد ایک ایسے گھر جس میں صرف ایک پنکھا، چار بلب اور پانی کی موٹر ہے وہ 200 یونٹس خرچ کرنے پر ماہانہ 16000روپے بل کی مد میں دے گا۔ اب خود سوچیں جس گھر میں صرف ایک پنکھا اور چار بلب ہوں اس کی ماہانہ آمدن کتنی ہو گی؟ یا بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد وہ باقی اخراجات کیسے پورے کرے گا؟ اگر مڈل کلاس والے، خیر اب تو "مڈل کلاس” پاکستان میں رہی بھی نہیں، پاکستان میں لوگ یا تو امیر ہیں اور یا پھر غریب ہیں۔ اگر یہ سفید پوشیئے، فریج، موٹر، استری اور واشنگ مشین وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو وہ ماہانہ بجلی کا بل کیسے ادا کر سکیں گے؟ جن کے آج بھی بل بیس ہزار تک آ رہے ہیں وہ اتنے ہی یونٹس کی کھپت پر اگلے سال ماہانہ پینتس ہزار دیں گے؟ تب کمیٹی ڈال کر بھی شاید بل ادا نہ ہو سکے گا!!! آپ گھر میں اے سی استعمال کرتے ہیں تو اگلے ماہ ماہانہ ستر ہزار روپے کا بل ادا کرنے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔
بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی تحریک الحمد للہ ہر علاقے میں پھیل رہی ہے، اشرافیہ کی مفت بجلی ہمارے بچوں کے پیٹ کاٹ کر حاصل کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس پشاور میں بجلی کے بل کی ادائیگی پر جو لڑائی ہوئی تھی اس میں ایک طرف سے 5 اور دوسری طرف سے 4 سگے بھائی قتل ہوئے تھے۔ چند روز قبل ایک ادھیڑ عمر غریب مزدور نے بجلی کا بل ہاتھ میں پکڑ کر کھنہ پل راولپنڈی سے چھلانگ لگا کر خود کشی کی۔ یہ ایک آغاز ہے، حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اشرافیہ کے خلاف نفرت کے اس لاوے کو کم کرنا چایئے اور ملک کو 9مئ جیسی ایک اور "بغاوت” کے رستے پر ڈالنے کی بجائے طاقت کے اصل محور اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ کو چایئے کہ وہ ملک کو بتدریج ترقی کی راہ پر ڈالیں۔ یہ محض آغاز ہے، حالات مزید بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ Coming events cast their shadows before ممکن ہے یہ جان کی قربانی رنگ لائے۔ عوام کو ایک دفعہ پھر بے وقوف بنایا جا رہا ہے گریڈ 17 سے اوپر کے افسروں کی تعداد بہت کم ہے، پاکستان میں اگر بیوروکریسی کی مراعات اور عیاشیوں کو ختم کرنا ہے تو پورے واپڈا، مقتدرہ اور ساری بیوروکریسی کی "عیاشیوں” کو ختم کریں ورنہ ایک دن اسی غریب عوام کا ہاتھ ہو گا اور اشرافیہ کا گریبان ہو گا، جو چاک چاک ہو کر رہے گا۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔