ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
از قلم
بینش احمد اٹک
یہ بھوک اور مفلسی بھی انسان سے کیا کچھ کرواتی ہے۔قدرت اللہ شہاب صاحب کہتے ہیں کہ:
”بھوک کی اذیت دنیا کی تمام مصیبتوں سے بڑھ کر ہے ، بھوک سے مرنے والے کی روح ایک ہی دم قفس عنصری سے پرواز نہیں کرتی بلکہ مرنے والے والے کے پور پور کو آہستہ آہستہ داغ مفارقت دیتی ہے“ ۔
بھوک اور پیٹ کی وجہ سے انسان وہ کام بھی کرلیتا ہے جس کی وجہ سے ایک نرم و نازک انسان بھی چٹان کی طرح مضبوط بن جاتا ہے۔ بھوک اور مفلسی میں انسان غلط صحیح سب کا فرق بھول جاتا ہے۔ نظر آتا ہے تو بس اتنا کہ کسی کی ماں کا بھوک سے برا حال ہے تو کسی کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں سے ایک خبر ہر طرف گردش کر رہی ہے کہ غیر قانونی طور پر اٹلی جانے والی دو کشتیاں حادثے کا شکار ہو گئیں۔ان کشتیوں میں بڑی تعداد میں پاکستانی بھی موجود تھے۔اس خبر نے ہر انسان کی آنکھ اشکبار کر دی۔ کتنی ماؤں کے لال ہمیشہ کےلیے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
لیکن اس خبر نے ایک حیران کن موڑ اس وقت لیا جب یہ پتہ چلا کہ ایک پاکستانی خاتون بھی اس کشتی میں سوار تھیں اور وہ بھی پاکستان کی قومی فٹ بال اور ہاکی ٹیم کی کھلاڑی۔
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں شاہدہ رضا کی جو کوئٹہ کی رہائشی ہیں۔ شاہدہ کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔
شاہدہ رضا پاکستان کی ہاکی اور فٹ بال ٹیم کی ایک مایاناز کھلاڑی تھیں۔جو قومی اور بین الاقوامی درجے پر کھیل چکی ہیں۔ شاہدہ رضا نے اپنے ملک کے نام بہت سے اعزازات کیے ہیں۔ پر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی خدمات کا صلہ اس انداز سے اس کو ملے گا کہ ملک کی مایاناز قومی کھلاڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی تھی اور کسی نے اس کی خبر گیری تک نا کی۔ ملک کے ہر بندے کی حفاظت اور اس کی ذمہ داری اس ملک کی حکومت کا فرض ہوتی ہے ۔ہمارے ملک کے عام لوگوں کو تو چھوڑیں لیکن کم از کم ایسے لوگ جنہوں نے اپنا آپ ملک کےلیے وقف کر دیا کم از کم ان لوگوں کی ذمہ داری تو حکومت لیتی۔ کم از کم ان لوگوں کو تو یہ مراعات حاصل ہونی چاہیے تاکہ اس بات کی نوبت ہی نا آئے کہ کوئی قومی کھلاڑی اپنے بچے کے علاج اور بہتر مستقبل کےلیے ایک غلط راستہ چننے پر مجبور ہو جائے۔
شاہدہ رضا کی دوست کا کہنا ہے کہ؛
”شاہدہ 2003ء سے باقاعدہ کھیلوں میں حصہ لے رہی تھی۔ شاہدہ کو ان کھیلوں سے جنون کی حد تک پیار تھا۔“
شاہدہ پاکستان آرمی کی جانب سے فٹ بال کھیلتی تھیں۔ ان کا شمار بلوچستان کے فٹ بال کے سب سے سینیئر کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔
بلوچستان ہاکی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری سید امین نے بتایا کہ؛
”شاہدہ رضا نے سکول کے زمانے سے ہاکی کھیلنا شروع کیا۔ جب وہ کالج میں تھیں تو انھوں نے بلوچستان سے ہاکی ٹیم کی نمائندگی کی۔شاہدہ وہ کرنے والی کھلاڑی تھی اس لیے انھوں نے فٹ بال کے میدان میں بھی نام پیدا کردیا۔ انھوں نے ہاکی اور فٹ بال دونوں میدانوں میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بلوچستان کی نمائندگی کی۔“
ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو بیک وقت دو چیزوں میں اپنا نام پیدا کریں لیکن شاہدہ نے یہ کر دکھایا۔ شاہدہ ان لوگوں میں سے تھیں جن کو حقیقی معنوں میں سیلف میڈ انسان کہا جا سکتا ہے۔ان کی بہن کا کہنا ہے کہ؛
شاہدہ اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ میں جو بھی کروں گی تو اپنے بل بوتے پر کروں گی اور انھوں نے کرکے دکھایا، انھوں نے نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ بلوچستان اور ملک کا نام بھی روشن کیا۔ شاہدہ نے ایران، بھارت، بھوٹان، بنگلہ دیش سمیت بعض دیگر ممالک میں بلوچستان اور ملک کی نمائندگی کی۔“
ان کا مزید یہ کہنا ہے کہ؛
”شاہدہ یہاں سے بالکل قانونی طریقے کے مطابق گئی تھی آگے اس نے کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے اس بات کا ہمیں بالکل علم نا تھا۔وہاں کشتی میں بیٹھ کر اس نے ہمیں بتایا کہ وہ کس طرح جا رہی ہے۔“
شاہدہ رضا کا کیریر بہت زبردست تھا لیکن ان کو اپنی ذاتی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا تھا کہ شاہدہ رضا غیر قانونی طور پر جانے کےلیے مجبور ہوئیں؟
شاہدہ رضا شادی شدہ تھی اور ایک بچے کی ماں تھی۔ شوہر سے علیحدگی ہونے کے بعد شاہدہ والدین کے گھر اپنی بہن کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ایک طلاق یافتہ عورت کےلیے ویسے بھی ہمارے معاشرے میں رہنا مشکل امر ہے اور جب ساتھ بچہ ہو تو یہ کام مزید مشکل ہوجاتا ہے۔جب شاہدہ کے بچے کی پیدائش ہوئی تو وہ بالکل ٹھیک اور نارمل بچہ تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔شاہدہ رضا کا بیٹا جسمانی طور پر معذور تھا اور شاید یہی اس کی سب سے بڑی مجبوری تھی۔ کوئی بھی ماں اپنی اولاد کو کسی بھی قسم کی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔ شاہدہ کا یہ ارمان تھا کہ ان کا بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے اور دوسرے بچوں کی طرح کھیلے کودے۔ شاہدہ نے پاکستان میں اپنے بیٹے کا علاج کروانا چاہا پر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا کہ یہاں اس کا علاج ممکن نہیں۔
شاہدہ کی دوست سمعیہ کائنات کا کہنا ہے کہ؛
”ہاکی فیڈریشن میں نوکری کے دوران وہ اپنے بچے کا بہت خیال رکھتی تھی مگر نوکری ختم ہونے کےبعد شاہدہ رضا اپنے بچے کیلئے بہت پریشان تھی۔“
اسی لیے شاہدہ نے یورپ کا رخ کیا کہ وہ وہاں پہلے خود سیٹ ہوں گی اور پھر اپنے بیٹے کا علاج کروائیں گی۔ شاہدہ اپنے بیٹے کو یہیں اپنی بہن کے پاس چھوڑ کر گئیں تھیں۔
ظاہر ہے ایک طلاق یافتہ عورت اور ایک معذور بچے کی ماں جس کا کوئی کمانے والا نا ہو وہ آخر کرے تو کیا کرے۔
ہم آئے روز اکثر ایسے واقعات سنتے ہی رہتے ہیں کہ تارکینِ وطن کس قدر مشکلات کے بعد اپنی منزل پر پہنچے میں کامیاب ہوتے ہیں بلکہ زیادہ تر تو ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ان تارکینِ وطن میں ذیادہ تعداد میں نوجوان لڑکے شامل ہوتے ہیں۔لڑکوں کے بارے میں ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے ذمے گھر چلانے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں کہ کسی طرح کچھ پیسے کما سکیں کہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکیں لیکن یہ بات شاذ و نادر ہی سننے کو ملتی ہے کہ کوئی خاتون اس طریقے سے اپنی جان جوکھے میں ڈال کر ایسا خطرناک سفر کرے جس میں زندگی بچنے کی کوئی خاص امید ہی نا ہو۔لیکن اگر ہم اپنے ملک پاکستان کے موجودہ حالات کو مدِنظر رکھیں تو پھر ہمیں اس بات کی اچھے سے سمجھ آجائے گی کہ آخر کیوں لوگ اپنی جان کو جوکھوں میں ڈال رہے ہیں۔
شاہدہ کے جیسے بہت سے نوجوان اپنے اچھے مستقبل کےلیے اپنی جان داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ہمارا ملک اس مقام پر آ گیا ہے کہ ملک کے باسی اس بات پر خدا سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر وہ پاکستان میں پیدا ہی کیوں ہوئے۔اب تو ایسا لگتا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ یہ حکمران جو ہم پر خدا بن کر بیٹھے ہیں یہ بھی یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے اور ہمارا ملک ہمیشہ کےلیے تباہ و برباد ہو جائے گا اور لوگ بھوک سے ایک دوسرے کا خون کرنے سے بھی گریز نا کریں گے لیکن ملک کے حکمرانوں کے پاس وقت ہی نہیں اور ان کی غریب عوام فاقوں سے مر رہی ہے۔حال تو دیکھیں ہمارے ملک پاکستان کا کہ اس کی ایسی حالت ہو گئی ہے کہ جو ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہے وہ سمندروں کی بے رحم موجوں کی نظر ہو رہا ہے۔ایک خاتون جو قومی کھلاڑی ہیں وہ اس حد تک مایوس ہو چکی تھیں کہ انہوں نے یہ طریقہ اپنایا تو پھر سوچیں ایک عام انسان کس حال کو ہو گا۔
میں یہ بات مانتی ہوں کہ ہمارے ملک کے حالات بالکل بھی مناسب نہیں لیکن خدارا یہ طریقہ کسی صورت نا اپنائیں۔ غیر قانونی طور پر جانے والوں کو کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ان لوگوں میں سے بہت کم ہیں جو اپنی منزل تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ ذیادہ تر تو راستے میں ہی اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق دو ہزار اکیس میں دو لاکھ چھبیس ہزار پاکستانیوں نے قانونی طریقے سے ملک چھوڑا۔ دو ہزار بائیس میں پونے آٹھ لاکھ پاکستانی قانونی طور پر یہاں سے چلے گئے۔ گویا ایک ہی برس میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی۔ ان میں بانوے ہزار ڈاکٹر، نرس، انجینیر، آئی ٹی پروفیشنلز اور نجی کارپوریٹ سیکٹر کے ملازم تھےاور لگ بھگ اتنی ہی بڑی تعداد میں نوجوان غیر قانونی راستوں سے جانی خطرات مول لے کر ملک چھوڑ گئے۔ان میں سے کئی اپنے پسندیدہ ملک میں اترنے میں کامیاب ہو گئے۔ سینکڑوں راستے میں مارے گئے۔لگ بھگ تیرہ ہزار پاکستانی اس وقت پچانوے ممالک میں بند ہیں۔ ان میں سے نصف قیدی سعودی اور اماراتی جیلوں میں ہیں۔
آخر کیا فائدہ ہے اس طریقے سے جانے کا بالفرض کہ آپ اگر کامیابی سے منزل پر پہنچ بھی جاتے ہیں تو آگے بھی جا کر آپ کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہر وقت اپنی جان کا خوف آپ کو ستائے گا۔اس سے اچھا ہے انسان بھوکا رہ لے پر اس قدر بے رحم طریقے سے اپنی جان تو نا گنوائے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے کہ حکومت کو چاہیے ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالیں جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر باہر لے جانے کے خواب دکھاتے ہیں اور پیسے ہتھیا کر انہیں بیچ راستے میں مرنے کےلیے چھوڑ جاتے ہیں اور خود بھاگ جاتے ہیں۔ پہلے تو یہ ایجنٹ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ آپ کو سب کچھ ملے گا کھانے پینے کےلیے رہنے کےلیے بس تھوڑی بہت مشکلات آہیں گی لیکن جب ضرورت پڑتی ہے تو یہ ایجنٹ دوربین لگانے پر بھی نظر نہیں آتے۔ جانے کیسے لوگ ہیں کہ چند روپوں کی خاطر انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ جانے کیسا ضمیر ہے ان کا آخرت میں یہ لوگ کس منہ سے خدا کے آگے جائیں گے۔
دیکھا جائے تو یہاں غلطی کسی کی بھی نہیں ہے۔ بیچارے نوجوان ایسے سفر پر جاتے بھی ہیں تو اپنی روزی کےلیے مجبور ہو کر اور سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں۔آخر کس کو قصوروار ٹھہرایا جائے۔
ایک سوچ دماغ میں یہ آتی ہے کہ شاہدہ نے کیوں غلط راستہ چنا۔وہ حکومت کا دروازہ کھٹکھٹاتی۔ اپنے بچے کےلیے مالی امداد کا مطالبہ کرتی۔
لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ اس نے یہ سب کیا ہی ہو گا پر جب اس کو کوئی نتیجہ نا نظر آیا ہوگا تبھی تو وہ اا خطرناک راستے پر چلنے کو بھی تیار ہو گئی۔ ورنہ میں نہیں سمجھتی کہ سب کچھ جاننے کے باوجود ایک انسان خود موت کے منہ میں اتنی آسانی سے چلا جائے۔ کوئی نا کوئی ایسی مجبوری ہی ہوتی ہے جو انسان سے یہ سب کرواتی ہے۔
شاہدہ رضا کی بہن کا کہنا ہے کہ؛
” کشتی میں موجود دوسرے ممالک کے افراد کی میتیں ان کے لواحقین تک پہنچ گئی ہیں اور ہم ابھی تک شاہدہ کی میت کا انتظار کر رہے ہیں۔“
بہت سے لوگ اپنی زندگی، مشکلات اور مہنگائی سے تنگ آ کر مایوسی میں اپنی زندگی حرام طریقے سے ختم کر لیتے ہیں لیکن شاہدہ نے ایسا کچھ نا کیا۔ اس نے اپنے اور اپنے بچے کے بہتر مستقبل اور علاج کےلیے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔ وہ مرنا تو بالکل نہیں چاہتی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا یہ قدم اسے موت کے قریب لے کر جا رہا ہے۔
ایک بات یاد رکھیں ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے رب پر یقین کرنا آنا چاہیے۔ جس کے نصیب میں جہاں روزی لکھی ہوتی ہے مل جاتی ہے۔ رازق اللہ تعالیٰ ہے۔اگر آپ کے نصیب میں فلحال روزی نہیں ہے تو آپ یورپ چھوڑ کر چاہے دنیا کے جس بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو روزی نہیں ملے گی۔ اسی لیے کم کھائیں کم میں گزارہ کریں پر اپنے والدین کی آنکھوں کے سامنے رہیں۔ انہیں ایسی اذیت سے دور رکھیں۔
میری حکومت سے درخواست ہے کہ شاہدہ کی زندگی میں تو اس کےلیے کچھ نا کر سکی کم از کم اس کی موت کے بعد تو اس کو اور اس کے گھر والوں کو اذیت سے نجات دلا دے اور اس کی میت کو جلد سے جلد پاکستان لانے کے اقدامات کرے اور حکومت کو مزید یہ چاہیے کہ شاہدہ کے بچے کے علاج کا ذمہ اپنے سر لے تاکہ شاہدہ کی روح سکون سے سو سکے کہ کم از کم اس کا بیٹا ٹھیک ہو جائے گا اور ویسا ہو جائے گا جیسا وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔